• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلہ سازی میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار، مستقبل کیلئے عمران کے عزائم ظاہر

اسلام آباد (تجزیہ، رانا غلام قادر) سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے بارے میں اپنے مستقبل کے عزائم‘ پالیسی اور سوچ کو واضح کرتے ہوئے یہ بیانیہ بنا نے کی کوشش کی ہے کہ وہ اگر حکومت میں آئے تو اسٹیبلشمنٹ کو قانون و آئین سے بالا کوئی کردار ادا نہیں کرنے دیں گے۔

 انہوں نے خود کو بے بس قرار دے کر تمام فیصلوں کا ملبہ جنرل (ر) باجوہ پر ڈال دیا ہے۔

سابق آرمی چیف جنرل قمر جا وید باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بے بسی کا کرونا رویا ہے کہ حکومت چلانے کے اختیارات تو ان کے پاس تھے ہی نہیں بلکہ تمام تر فیصلے سابق آرمی چیف کرتے تھے اور غلطیوں کی ذمہ داری ان پر ڈال دی جا تی تھی ۔

 گزشتہ روز لاہور میں اپنی رہائش گاہ سے وڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں انہوں نے ایک بار پھر اپنی حکومت گرانے میں سابق آرمی چیف کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہےکہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔

انہوں نے کہا کہ جو قومیں خوشحال ہیں ان میں قانون کی حکمرانی ہے۔طاقتور ٹولے اور مافیاز کو قانون سے اوپر رہنے کی عادت ہے، میرے پیچھے یہ ساڑھے تین سال لگے رہے، این آر او دو، بدقسمتی سے ان کو این آر او ملا، جنرل باجوہ نے ان کو این آر او دیا۔ آئین کسی جنرل کو بھی اختیار نہیں دیتا کہ قوم کی چوری کا پیسا معاف کر دے۔

عمران خان کا کہنا تھا سابق آرمی چیف نے جو باتیں کیں اس پر حیران ہوں، سابق آرمی چیف نے کہا کہ ملک کو عمران خان سے بچانا ہے، جنرل باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے فیصلے وہ کرتے تھے، جنرل باجوہ نے تسلیم کر لیا کہ نیب بھی ان کے کنٹرول میں تھا، ایک شخص کے پاس ساری پاور تھی اور کوئی ان پر تنقید نہیں کرسکتا تھا۔

ان کا کہنا تھا سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ میری حکومت گرائی، حکومت کے کام اس وقت ہوتے تھے جب جنرل باجوہ کہتے تھے ٹھیک ہے، تنقید کا نشانہ میں تھا اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔عمران خان کی تقریر کا تجزیہ کیا جا ئے تو وہ مستقبل کیلئے اپنے فکری لائحہ عمل اور عزائم کا اظہار کر رہے ہیں ۔

صاف ظاہر ہے کہ مستقبل میں جنرل (ر) با جوہ کا تو کوئی کردار نہیں ہوگا۔ ان کا حوالہ دے کر وہ آئین اور قانون کی بالادستی کی جو بات کر رہے ہیں اس کا مقصد موجودہ اسٹیبلشمنٹ کو پیغام دینا ہے کہ حکومت میں آنے کے بعد ان کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں کیا پا لیسی ہوگی ۔یہ پنجابی کی کہاوت کے مصداق ہے کہ۔۔ کہنا بیٹی کو اور سنانابہو کو ۔۔

انہوں نے ادارے اور اس کے سر براہ کانام لئے بغیر موجودہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سر براہ کو پیغام دیا ہے کہ بہت ہوگیا۔ آئندہ یہ نہیں چلے گاکہ حکومت ان کی ہو اور فیصلے وہ کریں ۔عمران خان کے خطاب سے وہ تاثر زائل ہو گیا ہے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں نرم روی کی پالیسی ہے بلکہ اب انہوں نے زیادہ سخت پالیسی اختیار کی ہے ۔

 اگر ماضی کو یاد کریں تو 2018 کے الیکشن سے قبل بھی عمران خان یہ تقاریر کرتے تھے کہ حکومت چلانے میں اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار نہیں ہونا چاہئے ۔ آئین اور قانون کی بالادستی ہونی چاہئے ۔

 اسٹیبلشمنٹ کو اپنے آئینی کردار تک محدود رہنا چاہئے لیکن جب انہیں حکومت مل گئی اور وہ وزیر اعظم بن گئے تو ان کے قول فعل کا تضاد کھل کر سامنے آ گیا۔

 عمران خان نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک پیج پر ہیں۔ یہ بھی کہا کہ جنرل باجوہ جمہوریت پسند ہیں۔ ہم مل کر فیصلے کر رہے ہیں۔ مشاورت جنرل باجوہ سے ہوتی ہے لیکن فیصلے میں خود کرتا ہوں۔ پھر یہ اعتراف کیا کہ پارلیمنٹ سے بل اور بجٹ پاس کرانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی مدد لینا پڑتی ہے ۔اس کے بغیر کام نہیں چلتا۔

عمران خان نے اپنے طرز عمل سے اپنے اس عوای تاثر اور ماضی کے دعوےکو غلط ثابت کیا کہ وہ ایک دبنگ جمہوریت پسند اور آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے سیا ستدان ہیں۔

اب حکومت جانے کے بعد عمران خان دو بارہ یہ اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ ملک آئین اور قانو ن کی بالا دستی کے بغیر نہیں چل سکتا۔ وہ با اختیار وزیر اعظم اور اسٹیبلشمنٹ اور اس کے سربراہ کی عدم مداخلت کے بیانیہ کو پیش کر رہے ہیں لیکن آزاد سیاسی مبصرین یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ حکومت ملنے کے بعد دو بارہ عمران خان ایک پیج کی کہانی کو نہیں دہرائیں گے ۔

 ان کا ماضی کا ٹریک ریکارڈ یہی ہے کہ وہ بات کرتے ہیں اور پھر 180ڈگری پر چلے جاتے ہیں ۔ یہ نہ ہو کہ دو بارہ حکومت میں آنے کے بعد وہ دو بارہ فیصلہ سازی کا اختیار اسٹیبلشمنٹ کو سونپ دیں جس کا وہ آج رونا رو رہے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید