• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پہلے تھوڑی سی سیاسی بات ہو جائے مگر یہ بات صرف بلی تک محدود ہے ۔مصطفین کاظمی کراچی یونیورسٹی کی طلبا یونین کے سابق صدر ہیں، ملازمت کی غرض سے اسلام آباد آئے اور پھر یہیں کے ہو کے رہ گئے۔گزشتہ دنوں انہوں نے کونڈوں کی نیاز کا اہتمام کر رکھا تھا، میں اور میراچارسالہ بھتیجا علی واحد برلاس الگ تھلگ ایک میز پر بیٹھے تھے، اس دوران ایک بلی ہمارے پاس آ گئی میرے بھتیجے نے خود کھانے کی بجائے روٹی کے ٹکڑے بلی کے آگے ڈالنا شروع کر دیے ۔تھوڑی دیر بعد مصطفین کاظمی اور محبوب ظفر آکر بیٹھ گئے مگر بچے نے اپنا کام جاری رکھا، وہ روٹی کے ٹکڑے بلی کو ڈالتا رہا یہ منظر دیکھ کر مصطفین کاظمی نے بتایا کہ یہ بلی شیخ رشید احمد کی ہے، ساتھ ان کا گھر ہے جب شیخ رشید گرفتار ہوئے تو یہ بلی ہمارے گھر آ گئی یہ بلی اداس ہے اس لئے اس نے ہمسائیگی میں رہنا پسند کر لیا ہے ۔شیخ رشید جب رہائی کے بعد گھر آئیں گے تو یہ بلی واپس چلی جائے گی اب غیر سیاسی قصہ شروع کرتے ہیں۔

ایک شخص مجھے بتانے لگا کہ’’ہمارے علاقے میں دو بڑے ڈاکٹر ہیں اگرچہ چھوٹے موٹے کچھ کلینک اور بھی ہیں، مولوی حکیم کا مطب بھی ہے مگر زیادہ مشہور دو ہی ڈاکٹر ہیں ۔یہ دونوں لوگوں کو خوب لوٹتے ہیں، انہیں لوگوں کی کوئی پروا نہیں بس پیسے سے غرض ہے انہیں حرام حلال کی بھی تمیز نہیں، مریض ٹھیک ہو نہ ہو اس سے بھی انہیں کوئی غرض نہیں، وہ لوگوں کی آفتوں اور مصیبتوں میں بھی پیسہ تلاش کرلیتے ہیں۔علاقے میں ایک تھانہ ہے اس تھانے میں خفیہ پولیس والے بھی بیٹھتے ہیں لوگوں نے متعدد مرتبہ تھانے والوں سے ان دو لٹیرے ڈاکٹروں کی شکایت کی مگر تھانے والے بھی بڑے استاد ہیں شکایت درج تو کر لیتے ہیں مگر ان دو ڈاکٹروں کی لوٹ مار نہیں روکتے، جب لوگ دوبارہ تھانے کا رُخ کرتے ہیں کہ شکایت کا کیا بناتو تھانے والے بتاتے ہیں کہ ہمارے خفیہ والے رپورٹ مرتب کر رہے ہیں بس آپ رپورٹ آنے دیں پھر دیکھیں ہم کیا کرتے ہیں، تھانے والے اصلی رپورٹ چھپا لیتے ہیں اور جعلی رپورٹیں پیش کر دیتے ہیں، ان کے پاس جعلی رپورٹیں ،بہت سی آڈیوز اور ویڈیوز بھی ہیں کبھی کبھی تھانے والے لوگوں سے کہہ دیتے ہیں کہ آپ کواگر ان ماہر ڈاکٹروں کے علاج پر یقین نہیں تو کوئی اور طریقۂ علاج اپنا لیا کریں۔مثال کے طور پر دیسی ،شرعی یا علاقائی طریقہ علاج، لوگ تھانے والوں کی بات سن کر اگر سمندری کلینک کا رخ کریں تو وہاں ویسے ہی قصاب قسم کا ڈاکٹر بیٹھا ہے وہ تو مریض اگر بات نہ مانے تو موت کی گولی دے دیتا ہے، سمندری کلینک والے ہڈی جوڑتوڑ کے ماہر ہیں ۔انہوں نے اتنے بندے مارے ہیںکہ لوگ موت کے خوف کی وجہ سے اس کلینک کا رخ کرتے ہوئےبھی ڈرتے ہیں۔تھانے والوں کو بتایا جائے تو وہ سمندری کلینک کے کچھ بندے پکڑتے ہیں اور پھر چھوڑ دیتے ہیں ۔لوگ اگر مولوی حکیم کے مطب کا رخ کریں تو وہ انتہائی مہنگا نسخہ بتاتے ہیں اگر مہنگا ہونے کی شکایت کریں تو مولوی حکیم اسے شرعی نسخہ قرار دےکر مزید فوائد گنوانا شروع ہو جاتے ہیں۔لوگ مجبوراً انہی دو ڈاکٹروں یعنی چنے اور منے کا رخ کرتے ہیں حالانکہ یہ دونوں ڈاکٹر لوٹ مار کرتے ہیں، لوگ بے چارے کیا کریں؟ تھانے والے ان ڈاکٹروں کےساتھ ملے ہوئے ہیں لوگ اگر پنچایت والے چوہدری کا رخ کریں تو وہ بھی تھانے والوں کی بات مان کر لوگوں کی شکایت مسترد کر دیتا ہے۔ پہلے دو ڈاکٹر دراصل تھانے والوں ہی نے دیے تھے سمندری کلینک بھی بنیادی طور پر تھانے والوں ہی نے بنا کر دیا تھا اور رہی بات مولوی حکیم کی تو ان کا مطب تو تھانے کے بغیر چل ہی نہیں سکتا ۔اب جدید دور آ گیا ہے ہر طرف ٹیکنالوجی آگئی ہے، پڑھے لکھے لوگوں میں ایک پٹھان ڈاکٹر بھی آ گیا ہے اس بڑبولے پٹھان نے تھانیدار سے پوچھا ہی نہیں بس کلینک بنا کر بیٹھ گیا ہے، وہ دونوں لٹیرے ڈاکٹروں کے خلاف باتیں کرتا ہے سمندری کلینک کو بھی لتاڑتا ہے اور تو اور مولوی حکیم کو بھی نہیں بخشتا، لوگ دیوانہ وار اس کے کلینک پر جاتے ہیں جس پر ہمہ وقت رش لگا رہتا ہے۔ تھانے والے تنگ ہیں کیونکہ یہ تھانے والوں کو بھتہ دینے کے لئے تیار نہیں، پٹھان ڈاکٹر کا دماغ اتنا خراب ہے کہ وہ تھانیدار پر بھی کھل کر تنقید کرتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دو لٹیرے ڈاکٹروں کی لوٹ مار تھانیدار کی وجہ سے ہے۔ ویسے ہمارے تھانے والوں نے بھی کچھ نہیں سیکھا، ان کے طور طریقے پرانے ہی ہیں وہ آج بھی بندوں کو اٹھا کر لتر مارنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں ۔ تھانیدار بدل دیا گیا ہے پچھلے تھانیدار نے پٹھان ڈاکٹر کے کلینک سے رش کم کرنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا پچھلے تھانیدار نے پٹھان ڈاکٹر کو سبق سکھانے کے لئے سب ڈاکٹروں کو اکٹھا کیا پھر مولوی حکیم اور سمندری کلینک والوں کو بھی ساتھ ملا دیا، دو چار پنچایتی بابے بھی ملا دیئے، تھانے والوں نے ان سب کو اس لئے اکٹھا کیا تھا کہ پٹھان ڈاکٹر کا کلینک برباد ہو جائے مگر یہ پٹھان ڈاکٹر بھی بڑا ظالم ہے اس کے پاس پتہ نہیں کون سے نسخے ہیں کہ لوگ اسی کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اسی کے کلینک پر رش لگا ہوا ہے، رش توڑنے کےلئے تھانے والوں نے کچھ بندوں کو پکڑ کر ان کی چھتر پریڈ بھی کی مگر فرق نہیں پڑا۔

تھانے والے پریشان ہیں کہ وہ اب کیا کریں؟ لٹیرے ڈاکٹروں اورحکیموں کا گروہ الگ پریشان ہے اور علاقے کی پنچایت کے چوہدری کے لئے بھی آسانی نہیں رہی۔ لوگ بہ ضد ہیں کہ وہ صرف اور صرف پٹھان ڈاکٹر ہی سے علاج کروائیں گے۔اب لوگوں کو تھانے والوں کی پروا بھی نہیں،لوگ مرضی کے مالک بن گئے ہیں اور پتہ نہیں اس پٹھان ڈاکٹر نے لوگوں پر کیا جادو کر رکھا ہےکہ علاقے کے جو لوگ بیرون ملک رہتے ہیں وہ بھی اس پٹھان ڈاکٹر کے گیت گاتے ہیں ۔

آپ نے ایک غیر سیاسی قصہ پڑھا ویسے انڈیا میں پٹھان فلم نے کامیابی کے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، قصے میں بیان کئے گئے پٹھان ڈاکٹر کی حالت بھی ایسی ہی ہے لگتا ہے وہ بھی کامیابی کے ریکارڈ قائم کرے گا کیونکہ پرانے ڈاکٹروں اور تھانیدار کی حالت پر خلیل الرحمٰن قمر کا شعر ؎

پہلے سب سے پہلے تم تھے

اب تم سب کے بعد آتے ہو

تازہ ترین