اسلام آباد(ایجنسیاں)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف )کی شرائط پر 170 ارب کا منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا، جس میں جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد اور لگژری اشیاء پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے‘
بعد ازاں اسحاق ڈار نے سینیٹ میں بھی ضمنی مالیاتی بل 2023 پیش کیا، اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور چیئرمین ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا گیا۔
اپویشن اراکین نے مالیاتی بل کی کاپیاں پھاڑ دیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے عوام کو سادگی اپنانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 170 ارب روپے کے محصولات کی وجہ سے ملکی معیشت کو استحکام ملے گا‘کابینہ اپنے اخراجات کم کرے گی‘ شادی ہالز کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز ہے جبکہ سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافے کی بھی تجویز ہے
فضائی کمپنیوں کے بزنس کلاس اور فرسٹ کلاس کے ٹکٹس کی قیمتوں میں بھی اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔سیمنٹ پر ایکسائز ڈیوٹی 1.50 روپے سے بڑھا کر دو روپے فی کلو گرام کی جا رہی ہے‘پانچ سال پرانے ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت دے دی گئی ہے‘
کسانوں کو زرعی آلات پرآسان سستے قرضے دیے جائیں گے ‘ ادویات، پیٹرولیم اور اسپورٹس کی ایل سی کھولنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے‘ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لئے مختص رقم میں 40 ارب مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، یہ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے ہو جائے گی‘یوریا کھاد کی قیمتوں کو کم سطح پر رکھنے کے لئے اس شعبہ کو 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی‘ رواں مالی سال میں 75 ہزار شمسی توانائی ٹیوب ویل لگائے جائیں گے‘ آئی ٹی سے وابستہ لوگ اب 35 فیصد رقم اپنے اکاؤنٹس میں رکھ سکیں گے‘ نئے ٹیکسوں سے عام آدمی متاثر نہیں ہو گا بلکہ امراء کی لگژری اشیاء مہنگی ہوں گی.
تمام جماعتیں مل کر میثاق معیشت کریں‘ ‘ ن لیگ کے دورمیں پاکستان جی 20 کلب میں شامل ہونے جا رہا تھا، مگر بدقسمتی سے2022 میں ہم 47 ویں معیشت بن گئے، معاشی تنزلی کے حالات کے جاننے کے لئے قومی کمیشن تشکیل دیا جائے، معاشی اصلاحات کے نتیجہ میں ہماری جی ڈی پی اور ترقی کی شرح بہتر ہو گی۔ بدھ کو قومی اسمبلی میں ضمنی مالیاتی بل 2023پیش کرنے کے بعد اظہار خیال کرتے ہوئے اسحق ڈار نے کہا کہ ہمارے دور میں قرضے 24953 ارب روپے تھے
پی ٹی آئی نے ان قرضوں کے حجم کو بڑھا کر 52000 ارب روپے تک پہنچا دیا جس کی وجہ سے ہماری قرضوں کی ادائیگی کی سالانہ شرح 5 ہزار ارب سے تجاوز کر گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ 2019 میں عمران حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا وہ ریاست کا معاہدہ تھا،ہماری حکومت نے معاہدہ کو من و عن تسلیم کیا،اس صورتحال میں لازم ہے کہ چند مشکل فیصلے کریں جو ناگزیر ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھاکہ وفاقی کابینہ نے 170 ارب کے ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے، روز مرہ کی گھریلو اشیاء پر ٹیکس اور عام آدمی پر ٹیکس نہیں لگے گا، حکومت نے امیر ترین لوگوں کے لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح کو 25 فیصد، فرسٹ اور بزنس کلاس میں سفر کرنے والوں پر 20 فیصد ڈیوٹی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے
اسی طرح شادی کی تقریبات میں سادگی کو فروغ دینے کے لئے 10 فیصد ود ہولڈنگ ایڈوانس ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 سے بڑھا کر 18 فیصد کیا گیا ہے، کھلے فروٹ، گوشت، دالوں اور روز مرہ کی اشیاء پر ٹیکس نہیں لگے گا۔
آئندہ سال جی ڈی پی کا ہدف 4 فیصد ہے۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، روپے کی قدر میں استحکام آئے گا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 2000 ارب روپے کا کسان پیکج کا اعلان کیا ہے‘ اس شعبے کے لئے 1819 ارب روپے کے زرعی قرضوں میں 1000 ارب سے زائد کے قرضے ادا بھی کئے جا چکے ہے‘ رواں سال زرعی مشینری کے لئے سبسڈی اور آسان قرضے فراہم کئے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ زراعت سے منسلک چھوٹے اور بڑے کاروبار کو اپ گریڈ کیا جا رہا ہے، ان کاروباروں کی ریٹنگ فی یونٹ 4 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کر دی گئی ہے تاکہ یہ یونٹ زیادہ سے زیادہ قرضوں سے مستفید ہو سکے۔