• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت: بی بی سی کے ملازمین کے موبائل اور لیپ ٹاپ کا معائنہ

نئی دلی (نیوز ڈیسک) بھارتی انکم ٹیکس حکام نے وزیراعظم نریندر مودی پر دستاویزی فلم بنانے کے بعد برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے دفاتر میں تفتیش کے دوران ملازمین کے موبائل اور لیپ ٹاپ کا بھی معائنہ کیا۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق بھارت میں انکم ٹیکس حکام کی طرف سے بی بی سی کے دفاتر میں تیسرے روز بھی تفتیش جاری ہے جہاں ایڈیٹوریل اور انتظامی عملے کے موبائل فونز اور لیپ ٹاپز کا معائنہ کیا گیا ہے۔رپورٹ کے مطابق 14 فروری کو اچانک انسپکشن کا آغاز ہوا اور اسی دن سے ٹیکس حکام بی بی سی کے دفاتر میں موجود تھے جبکہ کچھ افسران سوتے بھی وہی ہیں جہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ٹیکس افسران کی جانب سے رات گئے بی بی سی ملازمین سے مالی لین دین سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی۔ذرائع نے بتایا کہ کہ افسران نے ہم میں سے کچھ ملازمین کے موبائل فون اور لیپ ٹاپز کا معائنہ کیا اور پھر واپس دیے اور یہاں تک کہ ان سے موبائل اور لیپ ٹاپز کے کوڈز بھی لیے گئے۔خیال رہے کہ ٹیکس حکام کی طرف سے بی بی سی کے دفاتر کی تفتیش وزیراعظم نریندر مودی پر بنائی گئی دستاویزی فلم پر اٹھائے گئے سوالات کے بعد عمل میں آئی ہے۔بی بی سی کی طرف سے وزیراعظم نریندر مودی پر بنائی گئی دستاویزی فلم میں گجرات میں ہونے والے فسادات کا ذکر بھی کیا گیا ہے جس وقت نریندر مودی گجرات ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔تاہم بھارتی حکومت نے بی بی سی کی طرف سے بنائی گئی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے جبکہ سوشل میڈیا پر اس کی نشریات بھی منسوخ کردی ہے۔خیال رہے کہ بی بی سی نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت کے حوالے سے ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ کے عنوان سے دستاویزی فلم بنائی تھی جس میں 2002 میں گجرات میں ان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ہونے والے خونی فسادات کا ذکر کیا گیا تھا، جہاں تقریباً ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے، جن میں سے اکثر مسلمان تھے۔دوسری جانب بی بی سی اپنی دستاویزی فلم کے مواد پر قائم ہے اور ٹیکس کے حوالے سے بیان میں کہا کہ وہ بھارت کے ٹیکس حکام کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔بی بی سی نے کہا ہے کہ وہ ٹیکس افسران کے ساتھ مکمل طور پر تعاون کر رہے ہیں اور بی بی سی ورلڈ سروس کے ڈائریکٹر لیلیانے لینڈور کی طرف سے ایک میمو میں عملے کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ ٹیکس حکام کے سوالات کے نیک نیتی سے جوابات دیں اور اپنی ڈیوائسز میں سے کوئی بھی چیز ڈیلیٹ نہ کریں۔رپورٹ کے مطابق تاحال ٹیکس حکام نے کوئی بیان جاری نہیں کیا نہ ہی جواب دیا ہے لیکن ایک سرکاری عہدیدار نے حکام کا سروے مشکوک ہونے کی بات کو مسترد کیا ہے۔وزارت اطلاعات اور نشریات کے سینئر مشیر کنچن گپتا کا کہنا تھا کہ بی بی سی کو ماضی میں ٹیکس کے حوالے سے نوٹسز جاری کیے تھے لیکن بی بی سی کی جانب سے ٹیکس حکام کو تسلی بخش جواب فراہم نہیں کیا گیا۔حالیہ برسوں بھارت میں کچھ عالمی کمپنیوں کو انکم ٹیکس انسپیکشن کا سامنا ہے لیکن بھارتی نشریاتی ادارے اور انسانی حقوق کے گروپ ’بی بی سی‘ کے دفاتر میں ہونے والی انسپیکشن کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ممبئی پریس کلب کی طرف سے جارہ کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس عمل کو روکا جائے اور صحافیوں کو بلا خوف و خطرہ اپنا کام کرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔‘ 
یورپ سے سے مزید