(گزشتہ سے پیوستہ)
مہمان انڈین دانشور جناب جاوید اختر اس دیش کے باسی ہیں جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا اعزاز رکھتا ہے جہاں آزادی کے دن 15 اگست 1947ء سے لے کر آج تک کسی طاقتور سے طاقتور فوجی جنرل کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ کسی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ الٹ دے یا پارلیمنٹ کو توڑ دے یا آئین شکنی کرتے ہوئے یہ کہے کہ یہ چند صفحات کی کتاب ہماری بندوقوں کے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے۔وہاں ایک آرمی چیف نے منتخب وزیر اعظم سے براہ راست ملنے کی استدعا کی تو شٹ اپ کہتے ہوئے ہدایت کی گئی کہ تمہارا باس سیکرٹری ڈیفنس ہے اس کے بعد رکشا منتری بھی آتے ہیں ذرا اس اپروچ کا تقابل اپنے دیمک زدہ سسٹم سے کیجئے اور پھرلب کشائی کیجئے۔
جناب جاوید اختر اس دیش کے باسی ہیں جو پچھلی پون صدی سے ایک لبرل سیکولر آئین کی حکمرانی میں چل رہا ہے کسی سپریم جوڈیشری کی یہ مجال نہیںکہ وہ آئین کے بالمقابل کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ ہمار ے یہاں آئین کے ساتھ جب جب کھلواڑ کیاگیا یہاں کی عظمیٰ بیگم نے جو گھنائونا کردار ادا کیا، کیا کوئی پاکستانی ہوگا جو اس سے بے خبر ہو؟ ایسے میں اگر یہاں میڈیا نے چوں چراں کرنے کی کوشش کی تو ہمارے صحافی صاحبان اس سے بے خبر نہیں ہوں گےبلکہ یہاں تو ملک کے سب سے میڈیا گروپ کے چیف کو مہینوں کے لئے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں بند رکھا گیا اور آج بھی ہماری صحافت کہنے کی حد تک ہی آزاد ہے۔
پڑوسی ملک کے وزیراعظم مودی پر پورے میڈیا میں کون کون سے تنقیدی نشتر نہیں چلائے جاتے رہے کبھی کسی کا بال ٹیڑھا نہیں ہوا۔ حد ہے ان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی جیسی مہان ہستی پر کھلے بندوں تنقیدی تیروں کی بارش کی جاتی ہے ،کوئی پکڑنے یا مارنے کو نہیں دوڑتا۔ کیا یہاں ہمارے اسی ملک میں درویش کو ایسی آزادی کا دسواں بیسواں حصہ بھی دیا جاسکتا ہے؟ ہم ان سے تقابل کرنے چلے ہیں جو آج دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہیں اور اپنا حال یہ ہے کہ میرے بھائیو ہم بھکاری نہیں ہیں، بس ذرا یہ ہے کہ ہمارے حالات ٹھیک نہیں رہے اور نوبت کپڑے بیچنے، کشکول کٹورا پکڑے دردر پر بھیک مانگنے تک پہنچ چکی ہے۔
ہمارے یہاں آز ادی اظہار پر قدغنوں نے جو گھٹن پیدا کر رکھی ہے اس میں درویش کا دم گھٹتا ہے اور آنکھیں ابل رہی ہیں یہاں جنیوئن رائٹرز اور آرٹسٹوں کے ساتھ کبھی اچھابرتائو نہیں کیاگیا۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن جیسے تخلیق کار کو جس طرح ذلیل کرکے نکالا گیا شاید ہمارے پڑھے لکھوں کو بھی اس کا علم نہیں۔ کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ ساحر لدھیانوی جیسا ہیرا یہاں کے روایتی نظریاتی جبر سے کچلا جانے والا تھا جب وہ ہمیشہ کے لئے اس ارضِ مقدس کو چھوڑ کر بھاگااور ہندوئوں کے ملک میں جا بسا جہاں بیٹھ کر اس نے امر گیت لکھے۔ قرۃ العین حیدر اپنے تئیں آگ کا دربا عبور کرکے ادھر آئی تھی مگر جو حسنِ سلوک ان کے ساتھ یہاں روا رکھا گیا اس پر جناب سجاد حیدر یلدرم کی روح بھی تڑپ گئی ہوگی۔ استاد بڑے غلام علی کو کس تذلیل کے ساتھ لاہور چھوڑ کر امرتسر اور پھر اس سے بھی آگے جانا پڑا۔
رفیع صاحب60کی دہائی میں بہت شوق سے لاہور تشریف لائے ، وہ ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ٹھہرے جب انہیں لاہور میں فون آیا یا دوسری روایت کے مطابق اپنے عزیزوں سے ملنے اور پرانا گھر دیکھنے بھاٹی کی گلیوں سے گزررہے تھے تو جو بدتمیزی ان کے ساتھ کی گئی اس کے بعد انہیں دوبارہ ادھر کا رخ کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ منٹو کے ساتھ یہاں کیا ہوتا رہا۔ کسی کو ذوق ہو تو وہ ان تمام فنکاروں کی تفصیلات ملاحظہ کر سکتاہے جو اپنے خاندانوں سمیت یہاں سے جیسے تیسے سرحد پار کر گئے تو سر آنکھوں پر بٹھا لئے گئے لیکن تعصب اور منافرت کے بیوپاریوں کو ان حساس خیالات کا ادراک کروانا مشکل ہے چہ جائیکہ ہضم ہوسکیں۔ یہ سب نمبر ٹنگو لوگ ہیں جو بدکلامی کرتے ہوئے اپنے آقائوں کو ٹیگ کر رہے ہوتے ہیں۔
یہ غور کرنے کی ضرورت ہے کہ معزز انڈین دانشور نے ایسا کیا کہا ہے؟ انہوں نے لکھنوی ادب آداب کا پورا خیال رکھتے ہوئے ایک تلخ ترین بات کو اتنے شیریں لہجے اور لفظوں میں بیان فرمایا وہ بھی ایک سوال کے جواب میں۔ ممبئی میں اتنا بڑا سانحہ ہوا جس میں سینکڑوں بے گناہ انسان لقمۂ اجل بن گئے۔ کیا درویش ممبئی حملوں کی تفصیل یہاں درج کر سکتا ہے جو سب سینہ گزٹ میں روز اول سے موجود ہیں۔ محترم جاوید اختر صاحب جیسے مہذب انسان کے حوالے سے استعمال کی جا رہی گری ہوئی زبان پر دکھ ہوا ہے لیکن ان کا جرأت مندی پر مبنی جواب یہ ہے کہ پاکستان کے عام عوام ایسی منافرتوں سے کوسوں دور ہیں، یہ محض ایک مخصوص شدت پسند ذہنیت ہے جو ایک صدی سے ہماری سوسائٹی کو یرغمال بنائے ہوئے ہے ۔
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی