• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمان صغیر

ہماری زمین کی اندرونی مرکزی تہہ (ارتھ کور) ہمارے سیارے کی سب سے زیادہ پراسرار چیز ہے اور اس کے بارے میں ہونے والی تحقیق کے نتیجے میں اکثر اوقات حیران کن نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ ماہرین نے حال ہی میں ایک تحقیق میں یہ انکشاف کیا ہے کہ زمین کا اندرونی مرکزی حصہ اپنی رفتار میں سست ہوگیا ہے اور یہ سطح زمین کی مخالف سمت میں گردش کرنا شروع کرسکتی ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ کسی قدرتی اشارے کا پیش خیمہ تو نہیں، مگر یہ زمین کے گردش کرنے کی رفتار کو متاثر کرسکتا ہے۔ 

اس سست روی کے باعث زمین کے دن اور رات کے اوقات میں معمولی فرق پڑ سکتا ہے اور زمین کی کشش ثقل میں بھی تبدیلی آ سکتی ہے، مگر اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنے کے لیے مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔ چین میں قائم پیکنگ یونیورسٹی کےماہر سونگ ژاؤڈونگ کے مطابق اس بات کے واضح ثبوت ملتے ہیں کہ زمین کا مرکزی حصہ (کور ) سطح زمین سے زیادہ تیزی سے گھوم رہا تھا لیکن 2009ءتک یہ سلسلہ رُک گیا تھا۔ ایک تحقیق کے مطابق زمین کا اندرونی مرکز لوہے اور نکل کی دھات پر مشتمل ایک کرہ ہے، جس کا نصف قطر (ریڈئس) 1,221 کلومیٹر ہے۔ زمین کا یہ اندرونی حصہ بہت گرم ہے۔ 

اس کا درجۂ حرارت 5,400 ڈگری سینٹی گریڈ ہے جو سورج کے 5,700 ڈگری سینٹی گریڈ کے تقریباً برابر ہے۔ اس مرکزی حصہ کے ارد گرد مائع دھاتوں کی ایک موٹی پرت ہے ۔جنھیں بیرونی کور کہا جاتا ہے۔ زمین کا یہ اندرونی مرکزی حصہ کس طرح گردش کرتا ہے، اس بارے میں جاننے کے لیے سائنسداں صدیوں سے کوشش کررہے ہیں۔ زمین کے مرکز کو سیارے کے اندر ایک سیارے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ 

چونکہ یہ مائع دھاتوں کی ایک موٹی تہہ میں تیرتا ہے اور یہ آزادانہ طور پر گردش کر سکتا ہے۔ زمین کے مرکزی حصے کو مکمل طور پر مطالعہ کرنا مشکل ہے، کیوں کہ یہ سطح زمین سے پانچ ہزار کلومیٹر کی گہرائی میں ہے۔ اس کے بارے میں ہم جو کچھ تھوڑا بہت جانتے ہیں وہ زلزلوں اور ایٹمی دھماکوں سے پیدا ہونے والی لہروں میں معمولی فرق کی پیمائش سے حاصل ہوتا ہے۔ نئی تحقیق کے مصنفین، سونگ ژاؤڈونگ اور یانگ یی نے گزشتہ چھ دہائیوں میں مختلف زلزلوں کے تجزیے سے زمین کے مرکز میں پیدا ہونے والے ارتعاش کا تجزیہ کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق ہمارا نظریہ نہ صرف یہ دلیل دیتا ہے کہ ’زمین کا اندرونی کور جھولے کی طرح ایک طرف سے دوسری طرف گھومتا ہے، بلکہ یہ سات دہائیوں کے چکروں میں ہوتا ہے اور ہر 35 سال بعد اس کی گردش کی سمت میں تبدیلی آتی ہے۔ان کی تحقیق کے نتائج کے مطابق، آخری بار اس کی سمت 1970 کی دہائی کے اوائل میں بدلی تھی اور اگلی تبدیلی 2040 کی دہائی کے وسط میں ہو گی۔ محققین کا کہنا ہے کہ یہ گردش تقریباً دن کی طوالت میں ہونے والی تبدیلیوں سے مطابقت رکھتی ہے، جو کہ زمین کو اپنے خط مستقیم پر گھومنے کے عین وقت میں چھوٹی تبدیلیاں ہیں۔

ماہرین کو ابھی تک زمین کے بنیادی حصہ میں تبدیلی کے اثرات کا سطح زمین پر فرق پڑنے کے بارے میں زیادہ ثبوت نہیں ملے ہیں، حالانکہ محققین کا خیال ہے کہ زمین کی تمام تہوں کے درمیان روابط ہیں۔ سائنسدان یانگ اور سونگ کا کہنا ہے کہ وہ اُمید کرتے ہیں کہ ان کے نتائج محققین کو ایسے تجرباتی ماڈل بنانے کی ترغیب دیں گے جو زمین کو ایک مربوط متحرک نظام کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم دیگر ماہرین نئی تحقیق کے متعلق احتیاط سے کام لے رہے ہیں اور دوسرے نظریات کا حوالہ دیتے ہوئے زمین کے مرکز کے بہت سے جاری اسرار کے بارے میں انتباہ کرتے ہیں۔

یونیورسٹی آف سدرن کیلی فورنیا کے ماہر زلزلہ پیما جان وڈیل نے گزشتہ سال ایک تحقیق کی تھی، جس میں بتایا گیا تھا کہ زمین کا بنیادی حصہ بہت تیزی سے گھومتا ہےاور ہر چھ سال اپنی گردش کی سمت بدلتا ہے۔ ان کی تحقیق 1970 کی دہائی میں دو ایٹمی دھماکوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی زلزلے کی لہروں میں تبدیلی پر بنیاد کرتی تھی۔ 

آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے جیو فزیکسٹ ہرووجی کالسیک نے ایک تحقیق میں بتایا کہ زمین کے مرکز کی گردش کے چکر 70 کے بجائے 20 یا 30 سال کے درمیان رہتے ہیں۔ ان تحقیقوں میں فرق کے باعث جان وڈیل ہمارے سیارے کے پراسرار دل (کور) کے متعلق مزید حیرت انگیزرازوں کی پیش گوئی کی ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید