ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال اس بات کی عکاس ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں کمزور معیشت سے مضبوط علمی معیشت کی طرف منتقلی میں ناکام رہی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور ناکام عدالتی نظام کی وجہ سے ہے جس نے بدعنوانی پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں ۔ ایک محبّ وطن اور ذمہ دار شہری ہونے کے ناطےمیں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ ملک و قوم کو راستہ دکھاؤں تاکہ ہم ماضی کی ان کوتاہیوں سےپیچھا چھڑائیں اورملکی سلامتی و بقا پر آنچ نہ آنے دیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اپنے ارد گرد کے ترقی کی جانب گامزن ممالک کی حکمت عملی کا جائزہ لینا ہو گا کہ کیا وجوہات ہیں کہ یہ ممالک ہم سے کم وسائل ہونےکے باوجود سماجی، معاشی و اقتصادی ترقی کی جانب گامزن ہیں اور ہم تنزلی کا شکار ہیں ۔سنگاپور اور تائیوان جیسے چھوٹے ممالک ہی کو لے لیجئے تعلیم، سائنس اور جدت طرازی میں سرمایہ کاری کرکے پاکستان سے بہت آگے نکل گئے ہیں، جب کہ قدرتی وسائل ہونے کے باوجود ہماری معیشت کمزور ہے، ہماری برآمدات کا تقریباً 60 فیصد حصہ کم قیمت کپڑا سازی کی صنعت پر مشتمل ہےجبکہ جدید دور انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت، معدنیات اور ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کاہے۔ بھارت آئی ٹی مصنوعات کی سالانہ تقریباً 150ارب ڈالر کی برآمدات کرتا ہے جبکہ ہم صرف 3رب ڈالرتک ہی کی برآمدات کرتے ہیں ۔ لہٰذاوقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ضروری ہے کہ ہم اعلیٰ معیارکےITکے اساتذہ تیار کریں۔
مصنوعی ذہانت اور کوانٹم کمپیوٹنگ جیسے تیزی سے ابھرتے ہوئے شعبوں پر توجہ دیں۔ مصنوعی ذہانت کا میدان حیران کن رفتار سےترقی کر رہا ہےاور کچھ ہی عرصے میں ، وکلا، ڈاکٹر اور جج بھی مصنوعی ذہانت اور روبوٹ کااستعمال کر رہے ہونگے۔ یہ پیش گوئی ہے کہ 2030تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائینگے، یہاں تک کہ شعور کی سطح کے ساتھ آگاہی بھی حاصل کر لیں گے۔ IBM نے اس میدان میںدو خدمات شروع کی ہیں، ایک IBM Watson میڈیکل سروس جو مریضوں کو طبی مشورےدیتی ہے، اور ایک IBM Watson قانونی سروس جو صارفین کو سیکنڈوں میں قانونی مشورہ فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کی جدت طرازیاںہمارے معاشرےکے منظر نامے کو تبدیل کر رہی ہیں اور سماجی و اقتصادی ترقی کیلئے حیرت انگیز مواقع پیدا کر رہی ہیں۔ایک اور ٹیکنالوجی جو تعلیم کے میدان بہت اہم ہے،وہ بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن کورسز ہیں۔ میں نے 2001ءمیں پاکستان میں ایم آئی ٹی (MIT)اوپن کورس ویئر کے استعمال کی سہولت فراہم کی تھی، جب میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا، ایم آئی ٹی کی ایک مساوی ویب سائٹ بنوائی جس میں طلبا کو تعلیمی موادتک رسائی دی گئی تھی۔ کمپیوٹر سائنس کورسز کی تقریباً 10000سی ڈیزتیار کر کے کالجوں اور جامعات میں تقسیم کی گئیں۔ ان کورسز کا استعمال دس لاکھ گنا بڑھ گیا ، اور کووڈ کی آمد سے اسکے استعمال میں مزید اضافہ ہوا ۔ پاکستان کے معروف تحقیقی مرکز،بین الاقوامی مرکز برائےکیمیائی و حیاتیاتی علوم میں لطیف ابراہیم جمال قومی مرکز برائےسائنسی معلومات میں کورسز کا ہماری طرف سے شروع کردہ کا ایک مربوط پروگرام ہے جو دنیا بھر کے اسکول، کالج اور جامعات کے لیکچرز تک مفت رسائی فراہم کر رہا ہے۔ تعلیمی ترقی کے ساتھ مختلف شعبوں میں جدید ٹیکنالوجی اپنانا بھی انتہائی ضروری ہے۔ توانائی ذخیرہ کرنے کا نظام برقی موٹر گاریوں کی ترقی کا باعث بنا ہے، اورصرف ایک دہائی کے اندر سڑک پرایندھن کے انجن والی موٹر گاڑیاں یا بسیں شاید ہی نظر آئیں گی۔ شعبہ طب میں بھی شاندار ترقی ہورہی ہے۔بڑھاپے کو روکنے والے مرکبات دریافت کر لئے گئے ہیں ۔ جب بوڑھے چوہوں کو یہ مرکبات دیے گئے تو انھوں نےچوہوں کے جسم میں بڑے پیمانےپر تبدیلیاں پیدا کیں، اس لئے توقع کی جاتی ہے کہ آج پیدا ہونیوالے بچوں کی عمریں 120سال یا اس سے زیادہ ہوں گی ۔ حیاتِ نو ادویات کا شعبہ بھی بڑی تیزی سےترقی کررہا ہے اور اسٹیم سیل ٹیکنالوجی کے تحت خراب اعضا کو ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، جینیات اور بائیو مارکر میںپیشرفت لوگوں کو بیماری کے شروع ہونے سے پہلے خبردار کر دے گی تاکہ وہ پہلے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں۔ زندہ انسانی اعضا اب تھری ڈی چھپائی کے ذریعے بھی تیار کئے جاسکتے ہیں۔ طبی تحقیق میں اس طرح کی پیشرفت پاکستان کی ادویاتی صنعت کیلئے بڑے پیمانے پر تجارتی مواقع فراہم کرسکتی ہے۔ ٹیلی میڈیسن ٹیکنالوجی کی ترقی نے صحت کی دیکھ بھال کے روایتی طریقہ کار کو بہت متاثر کیا ہے۔ٹیلی میڈیسن مریضوں کو ویڈیو کانفرنسنگ یا دیگر ڈیجیٹل مواصلاتی طریقوں کے ذریعے بیرون ملک یا دور دراز کےڈاکٹروںسے مشورہ کرنے کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی نے مریضوں کیلئےصحت کی دیکھ بھال کو زیادہ آسان بنا دیا ہے، خاص طور پر دیہی یا دور دراز علاقوں میں رہنے والوں کیلئے۔ نقل و حمل کے نظام میں مصنوعی ذہانت (AI)کے انضمام کے ساتھ بغیر ڈرائیور والی گاڑیاں جلد ہی دستیاب ہو جائیں گی۔ اس سے ذاتی کاریں رکھنے کی ضرورت ختم ہو جائے گی کیونکہ نقل و حمل کی ضروریات کیلئے روبوٹک گاڑی کا آرڈر دینا کہیں زیادہ سستا اور آسان ہو جائے گا۔یہ ہیں چند مثالیں جو ثابت کرتی ہیں کہ ٹیکنالوجیوںکو استعمال کرنے سے ہم جلد ترقی کر سکتے ہیں ۔ اس کو بروئے کارلانےکیلئے ہمیں اپنی تمام تر توجہ اپنے نوجوانوں پر دینا ہوگی۔ ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہماری آبادی کا تقریباً60فیصد 30 سال سے کم عمر نو جوانوں پر مشتمل ہے، اگر ہم اب بھی بیدار نہ ہوئے اور اپنے محدود وسائل کو دوسرے شعبوں سے ہٹا کر تعلیم، ٹیکنالوجی اور جدت طرازی کی طرف منتقل نہیں کرپائے تو یہ نوجوان بجائے فائدے کے بہت بڑا بوجھ بن جائینگے۔مذکورہ بالا شعبہ جاتی ترقیوںسے مستفید ہونے کیلئے ہمیں پر بصیرت ٹیکنوکریٹس کی سربراہی میں حکومت کی ضرورت ہے جو یہ سمجھے کہ چوتھے صنعتی انقلاب کے بعد آج دنیا کہاں کھڑی ہے، علمی معیشت کو چلانے کیلئے ایک پر بصیرت، قابل اور ایماندار لیڈر ضروری ہے، جسے متعلقہ شعبوں کے اعلیٰ ماہرین کی کابینہ کی حمایت حاصل ہو۔