آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی دو یقین دہانیاں مختلف انداز میں قوم کے سامنے آئیں۔ دونوں کئی اعتبار سے حوصلہ افزا ہیں اور ملک و قوم کے مفاد میں ان کے مثبت نتائج متوقع ہیں۔ ایک یقین دہانی تاجروں کے وفد سے ملاقات کی صورت میں اور دوسری سیاسی نوعیت کی ایک ملاقات سے انکار کی صورت میں سامنے آئی۔ دونوں انواع میں یہ پیغام نمایاں ہے کہ پاک فوج ملک کو معیشت کے بحرانوں سمیت سنگین مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوششوں کی حمایت کرتی ہے مگر وہ سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔ سیاسی قیادت کو اپنے جھگڑے اور مسائل خود حل کرنے چاہئیں۔ پیر کے روز ملک کی دس سرکردہ کاروباری شخصیات کی سپہ سالار سے ملاقات میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار بھی موجود تھے اس لئے جو حوصلہ افزا باتیں پورے یقین کے ساتھ کہی گئیں انہیں سیاسی اور عسکری دونوں قیادتوں کے عزم کا آئینہ دار کہا جا سکتا ہے۔یہ بات کہ ملک معیشت کی مشکل صورتحال سے کامیابی سے باہر نکل آئے گا ایک عام شہری، ملازمت پیشہ فرد ،دکاندار اور یومیہ اجرت پر کام کرنے والے محنت کش کے لئے بھی اہم ہے۔ موجودہ معاشی بحران نے جہاں صنعت، تجارت اور زراعت سمیت تمام شعبوں کے لئے مشکلات بڑھائی ہیں وہاں عام لوگوں بالخصوص غریب اور متوسط طبقے کے افراد کے لئے نان شبینہ کا حصول بھی مشکل بنا دیا ہے۔ دوسری جانب ملکی سیاسی حالات کا عشروں سے غیر سیاسی عناصر کی توجہ و عدم توجہ پر انحصار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بعض سیاسی عناصر کھل کر اور دیگر عناصر اشاروں، کنایوں، شکایتوں میں ان کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق تاجروں سے ملاقات کے دوران آرمی چیف نے ایک سیاست دان کی ملاقات کی خواہش پر مبنی پیغام کا ذکر کیا اور اپنے اس جواب کے بارے میں بتایا کہ بطور آرمی چیف میرا کیا کام ہے کہ میں سیاست دانوں سے ملاقات کروں سیاست دان خود آپس میں مل کر سیاسی مسائل حل کریں، فوج سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی اور سیاسی کردار ادا نہیں کرے گی۔ یہ فیصلہ اور پیغام اہم ہے۔ سیاسی قوتوں کے لئے مناسب ترین صورت بھی یہی ہے کہ وہ اپنے نظریاتی اور دیگر اختلافات مل بیٹھ کر حل کریں ملکی سیاسی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے جب مکمل ڈیڈ لاک کی کیفیت محسوس ہوئی مگر مسلسل رابطوں اور بات چیت سے مسائل کا قابل قبول حل نکل آیا۔ 1973 کا متفقہ آئین اس کی ایک مثال ہے۔ پیر کے روز دس سرکردہ کاروباری شخصیات کی آرمی چیف سے ملاقات کا اگرچہ کوئی باضابطہ بیان سامنے نہیں آیا مگر ذرائع کے مطابق آرمی چیف خود بھی پراعتماد تھے اور ان سے گفتگو نے تجارتی برادری کے اعتماد میں بھی اضافہ کیا۔ کاروباری افراد نے اپنی درخواست پر ہونے والی اس ملاقات کو انتہائی کامیاب اور حوصلہ افزا قرار دیا۔جیسا کہ آرمی چیف نے کہا قوموں پر مشکلات کے وقت آتے رہتے ہیں پاکستانیوں کو بھی آزمائشوں کا سامنا رہا ہےلیکن بدترین حالات کو ہم پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ ہم قائم و دائم رہیں گے۔ آرمی چیف نے اسلامی تعلیمات کا حوالہ دیا اور شرکاء کو یقین دہانی کرائی کہ پاکستان موجودہ امتحان میں کامیاب ہو جائے گا۔ ملاقات کے دوران وزیر خزانہ نے جو باتیں بتائیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ اب دور نہیں۔ یہ مرحلہ سر ہونے کے بعد جہاں ہمارے اکنامک منیجرز کی تخلیقی و عملی منصوبہ بندی اور معاملات سے نمٹنے کی صلاحیتوں کا امتحان شروع ہوگا وہاں ہمارے سیاست دانوں کا یہ فریضہ بڑھ جائے گا کہ ان کے رویوں سے زیادہ بلوغت کا اظہار ہو اور وہ مکالمے کے ذریعے اتفاق رائے کے حصول کو اپنا وطیرہ بنائیں۔ موجودہ حالات بھی متضاضی ہیں کہ تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر بیٹھیں اور میثاق معیشت اور میثاق ترقی جیسی دستاویزات اتفاق رائے سے تیار کریں۔