• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گذشتہ سے پیوستہ)

ہائے ملفوظی اور ہائے مختفی کا ذکر ہوگیا ۔ حرف ’’ہ‘‘ کی ایک اور قسم بھی ہے جو ہائے مخلوط کہلاتی ہے۔ ہائے مخلوط کا دوسرا نام ہائے دو چشمی ہے۔اردو میں ہاے مخلوط وہ ’’ہ‘‘ ہے جس کے لکھنے میں دو گولے یا حلقے بنتے ہیں جو چشم یعنی آنکھ سے مشابہ ہوتے ہیں اس لیے اس کانام ہاے دو چشمی پڑگیا،یعنی دو آنکھوں والی ’’ہ‘‘۔ اس ’’ہ‘‘ کو ’’ھ‘‘ لکھتے ہیں۔ دیکھیے استاد ذوق نے اس رعایت کا اپنے ایک شعر میں کیسے فائدہ اٹھایا:

ہاے رے حسرت ِ دیدارمِری’’ ہائے ‘‘کو بھی

لکھتے ہیں ہائے دو چشمی سے کتابت والے

عربی اور فارسی میں ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ میں کوئی فرق نہیں۔ چونکہ عربی اور فارسی میں ہائیہ یا ہکاری آوازیں (aspirated sounds) مثلاً بھ، پھ، تھ، کھ، گھ وغیرہ نہیں ہوتیں لہٰذا گول ہ یا دوچشمی ھ عربی اور فارسی میں یکساں تلفظ کو ظاہر کرتی ہیں۔ لیکن چونکہ اردو میں ہکاریت (aspiration) کو واضح کرنے کے لیے دو چشمی ھ لکھی جاتی ہے اور اس سے مخلوط آواز یا مِلی ہوئی آواز (جیسے بھ، پھ ، جھ ،چھ وغیرہ) کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے لہٰذا اس کا ایک نام ہائے مخلوط بھی ہے(مخلوط یعنی ملا ہوا یا ملی ہوئی)۔ اسی کو ہائے مخلوطی اور ہاے مخلوط التلفظ بھی کہتے ہیں۔ یہ ’’ھ‘‘ ان آوازوں کو ظاہر کرتی ہے جن کو ہم اردو میں ایک ساتھ یا ملا کر ادا کرتے ہیں اور جنھیں ہائیہ یا ہکاری آوازیں کہا جاتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ فارسی اور عربی کے برعکس اردو میں ’’ہ‘‘ اور ’’ھ ‘‘ میں بہت فرق ہے اور ان کے لکھنے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ تلفظ اور لفظ بلکہ معنی بھی بدل جاتے ہیں۔ کسی زمانے میں اردو میں ’’ہ‘‘ اور ’’ھ‘‘ کی تخصیص نہیں ہوتی تھی جس سے بعض اوقات بڑی الجھن ہوتی تھی، مثلاً بہر اور بھر، پہل اور پھل ، پہر اور پھر کو ایک ہی طرح لکھا جاتا تھا ۔ غالب بھی مثلاً ’’کھانا ‘‘ کو ’’کہانا ‘‘ لکھتے تھے ۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ طے ہوگیا کہ اردو کی ہائیہ یا ہکاری آوازوں کو ہاے دوچشمی یا ہائے مخلوط سے لکھا جائے تاکہ تلفظ میں امتیازکیا جاسکے اور اب اسی پر سب عمل پیرا ہیں۔

اس وضاحت اور امتیاز کے طے پانے میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا بڑا ہاتھ ہے۔ جب انھوں نے ۱۹۳۰ء میں اردو کی ضخیم ترین اور جامع ترین لغت مرتب کرنے کا ارادہ کیا تو طے کیا کہ ہائیہ آوازیں (مثلاً بھ، پھ، تھ وغیرہ) الگ صوتیے یا فونیم (phoneme) یعنی آوازیں ہیں اور ان آوازوں کی علامت یعنی حروف ِ تہجی بھی الگ ہونے چاہییں اور ان حروف سے شروع ہونے الے الفاظ کی تقطیع بھی لغت میں الگ ہونی چاہیے۔ چنانچہ اردو لغت بورڈ کی بائیس (۲۲) جلدوں پر مبنی لغت میں اسی پر عمل کیا گیا۔

بلکہ ہندی یعنی دیو ناگری رسم الخط میں تو ان ہائیہ آوازوں کے لیے بالکل الگ حروف ِ تہجی ہیں اور اردو کے برعکس انھیں مرکب حروف ِ تہجی سے نہیں لکھا جاتا۔ ڈاکٹر مسعود حسین خان جیسے ماہرِ لسانیات نے لکھاہے کہ ’’صوتی نقطۂ نظر سے کھ، چھ، بھ وغیرہ علاحد ہ اور مستقل آوازیں ہیں ، اسی لیے ہندی رسم الخط میں ان کے لیے علاحدہ اور مستقل حروف قائم کیے گئے ہیں‘‘۔

البتہ اردو میں ان آوازوں کو ظاہر کرنے کے لیے الگ حروف نہیں ہیں اور ‘‘ہ‘‘ کی دوچشمی صورت کو دوسرے حروف سے ملا کر ان آوازوں کو ظاہر کیا جاتا ہے، مثلاً ’’ب ‘‘اور’’ ھ‘‘ مل کر’’ بھ‘‘ کی آواز کو ظاہر کرتے ہیںاور یہ مرکب حروف ِ تہجی کہلاتے ہیں۔ مسعود صاحب اور دیگر ماہرین ِ صوتیات کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ یہ ہائیہ آوازیں مرکب نہیں ہیں بلکہ مفرد ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ ان کو اردو میں ظاہر کرنے کے لیے الگ اور مفرد حرف تہجی نہیں ہیں اوران کے لیے اردو میں مرکب حرف ِ تہجی (مثلاًب+ھ=بھ) استعمال کیے جاتے ہیں ۔

لسانیات کے ماہرین متفق ہیں کہ ان ہائیہ آوازوں کو ایک آواز سمجھنا چاہیے اوران کو ظاہر کرنے والی تحریری علامات (یعنی حروف ِ تہجی )کوبھی ایک حرف تصور کرنا چاہیے۔ اگرچہ اردو میں ان آوازوں کو تحریری صورت میں ظاہر کرنے کے لیے دو د وحرف لکھنے پڑتے ہیں۔ لیکن اس مرکب حرف کو بھی ایک حرف تصور کرنا چاہیے اور انھیں ایک حرف کی طرح لکھنا چاہیے۔ ان کو توڑ کر دو حروف کی طرح الگ الگ لکھنا غلط ہے کیونکہ اس سے تلفظ بھی غلط ہوجاتا ہے۔ مثال کے طور پر پھر کو اگر’’ پہر‘‘ لکھا جائے یا پھل کو’’ پہل ‘‘لکھا جائے تو املا غلط ہوگیا، تلفظ بدل گیا ، بلکہ لفظ ہی بدل گیا اور معنی بھی بدل گئے۔

٭…اردو کی ہائیہ آوازیں

اردو میں پندرہ ہائیہ یا ہکاری آوازیں ہیں جن کو ہائے مخلوط یا ہاے دو چشمی سے لکھا جاتا ہے۔ وہ پندرہ حروف یہ ہیں: بھ، پھ، تھ، ٹھ،جھ، چھ، دھ، ڈھ، رھ، ڑھ، کھ، گھ، لھ، مھ اور نھ۔

مگر لھ، مھ اور نھ کوبعض اوقات نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ اسی لیے عام لوگ بعض الفاظ میں دو چشمی ھ ( یا ہاے مخلوط ) نہیں لکھتے ،مثلا ً انھیں، جنھیں، تمھیں ، تمھارا ، چولھا ، دولھا اور کمھار وغیرہ

کا غلط املا لکھتے ہیں یعنی ان الفاظ کو انہیں، جنہیں، تمہیں ، تمہارا ، چولہا، دولہا ، دولہا اور کمہار وغیرہ لکھتے ہیں۔ لیکن اس طرح ان الفاظ کا نہ صرف املا بلکہ تلفظ بھی غلط ہوجاتا ہے۔ یہ نہ صرف غلط تلفظ ہے بلکہ اگر ان الفاظ کو شاعری میں دو چشمی ھ کے بغیر لکھا جائے گا تواردو کے لاکھوں مصرعے بحر سے خارج ہوجائیں گے۔ مثلاً ایک شعر ہے:

تمھاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں ہے

اس کاوزن یہ ہے: مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن۔ اگر پہلے مصرعے میں ’’تمھاری‘‘ کو ہاے دو چشمی (ھ)کے بغیر یعنی ’’تمہاری‘‘ لکھا جائے تو اسے ’’تُ مھا ری‘‘ کی بجاے ’’تم ہا ری‘‘ پڑھناپڑے گا اور پہلے رکن یعنی مفاعلن کا وزن نہ آنے سے مصرع ساقط الوزن ٹھہرے گا۔ پس تمھیں، تمھاری، تمھارے، انھیں، جنھیں ، جنھوں وغیرہ میں دو چشمی ہا(ھ) لکھنا ضروری ہے۔

مزے کی بات یہ ہے کہ جو لوگ انھیں او رتمھیں وغیرہ میں دو چشمی ھ نہیں لکھتے وہ بھی ’’ننھا‘‘ میں دو چشمی ھ ضرور لکھتے ہیں اور اسے ’’ننہا ‘‘ نہیں لکھتے کیونکہ اس طرح اس کا تلفظ’’ ننھا ‘‘ (ن نّھ ا)کی بجا نن ہا(ن ن ہ ا) ہوجائے گا۔ لیکن بعض الفاظ مثلاً ’’انھیں ‘‘یا ’’انھوں‘‘ لکھتے ہو ئے یہی حضرات ’’ھ ‘‘ کو گول کرجاتے ہیں۔

٭…اردو کی گنتی اور ’’ھ‘‘

اردو کی گنتی میں بھی یہ خیال رکھنا چاہیے کہ اعدادِ معین (یعنی ایک سے لے کر اٹھارہ تک ) کے آخر میں ہائے ملفوظی ہے (اور ان کے تلفظ میں ’’ہ‘‘ واضح طور پر بولنی چاہیے، مثلاً سولہ کے آخر میں ’’ہ‘‘ کی آواز ہے اور یہ ہائے مختفی نہیں ہے)۔ اسی لیے اعداد ِ ترتیبی میں بھی دو چشمی ھ لکھنی چاہیے یعنی: گیارھواں ، بارھواں ، تیرھواں ، چودھواں ، پندرھواں ، سولھواں ، سترھواں اور اٹھارھواں سب میں دوچشمی ھ لکھی جائے گی۔ ان کی مغیرہ حالتوں میں مذکر کی صورت میں بھی (مثلاً گیارھویں روزے کو، بارھویں دن پر، تیرھویں سال میں) اور تانیث کی حالتوں(یعنی گیارھوِیں جماعت، بارھوِیں تاریخ ، تیرھوِیں کتاب) میں بھی دو چشمی ھ لکھنی چاہیے۔

٭…اسکولوں میں حروف توڑنے کا مسئلہ

ہمارے بعض اسکولوں میں بچوں کو حروف توڑیئے حروف جوڑیے کی مشق کراتے ہوئے بعض اساتذہ ہائیہ حروف میں آنے والی دوچشمی ھ کوالگ سے لکھواتے ہیں ، مثلاً لفظ گھر کو توڑ کر ’’گ +ہ + ر‘‘یا ’’گ+ھ+ر‘‘ لکھواتے ہیں۔ یہ بالکل غلط ہے کیونکہ اس طرح یہ لفظ ’’گہر ‘‘ پڑھا جائے گا۔گُہر ایک الگ لفظ ہے اور گوہر یعنی موتی یاقیمتی پتھر کے مفہوم میں آتا ہے۔ ’’گھر ‘‘ کو توڑ کر لکھیں تو ’’گھ +ر ‘‘لکھنا ہوگا ، ورنہ املا بھی غلط اور مفہوم بھی کچھ اور ہوجائے گا۔اسی طرح مثلاً دُھلناکو توڑ کر دھ +ل +ن +الکھا جائے گا ورنہ د+ہ+ل +ن +ا لکھنے سے یہ ’’دہلنا ‘‘سمجھا جائے گا(دہلنا یعنی لرزنا، کانپنا)۔ اس طرح کی بہت مثالیں ہیں ، جیسے : بھانا (مثلاً دل کو بھانا) اور بہانا (مثلاً پانی بہانا)، جھل (جیسے پنکھا جھل) اور جہل۔

یہاں یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ہائیہ آوازوں کو ظاہر کرنے والے پندرہ حروف (بھ ، تھ وغیرہ) کو مرکب حرف ہونے کے باوجود املا میں ایک حرف کی طرح برتا جائے گاورنہ تلفظ اور مفہوم

میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔

رشید حسن خاں صاحب نے اس ضمن میں لفظ ’’سرھانا‘‘ کی مثال دی ہے جس میں ’’رھ‘‘ ہے اور اسے سرھانا کی بجاے سرہانا یعنی دو چشمی ھ کے بغیر لکھا جائے تو مفہوم بھی خبط ہوجائے گا اور میر کا یہ شعر بھی بحر سے خارج ہوجائے گا:

سرھانے میر کے کوئی نہ بولو

ابھی ٹک روتے روتے سوگیا ہے

(اس کا پہلا مصرع یوں مشہور ہے:’’ سرھانے میر کے آہستہ بولو‘‘لیکن درست متن وہی ہے جو ہم نے اوپر لکھا ہے)۔اسی طرح پڑھنا اور پڑھائی میں بھی ’’ڑھ‘‘ ہے اور پڑھائی کا تلفظ پڑ+ہائی نہیں کرنا چاہیے۔ اس کا درست تلفظ پڑھا+ئی ہے۔

اَساتذۂ کِرام سے التماس ہے کہ اس معاملے میں دو چشمی ھ یعنی ہائے مخلوط کا خیال رکھیں اور بچوں کو بھی ذہن نشین کرائیں کہ دو چشمی ھ سے لکھے گئے الفاظ کا تلفظ بھی مختلف ہوتا ہے۔

ہاں البتہ عربی اور فارسی میں چونکہ ہائیہ آوازیں نہیں ہیں لہٰذا عربی فارسی میں دو چشمی ’’ہ‘‘ کا استعمال عام ہونے کے باوجود تلفظ میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن ابھی تو اردو لکھ رہے ہیں۔ جب عربی یا فارسی لکھیں گے تو ان زبانوں کے اصولوں پر عمل کریں گے۔ابھی اردو کا اصول چلے گا اور اردو کا اصول یہ ہے کہ ہائے مخلوط کا ایک خاص تلفظ اور خاص استعمال ہے۔