• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علم و عمل کا روشن مینار ’’سید المحدثین امام بخاریؒ‘‘

عمران احمد سلفی

(گزشتہ سے پیوستہ)

امام بخاری ؒنے بیس سال کی عمر میں بخاری شریف کی ترتیب و تدوین کا آغاز کیا۔ آپ نے اس ترتیب و تالیف میں صرف علمیت، ذکاوت اور حفظ ہی کا سرمایہ خرچ نہیں کیا، بلکہ اس شان سے آغاز کیا کہ جب ایک حدیث لکھنے کا ارادہ فرماتے، تو پہلے غسل فرماتے اور دو رکعت نفل پڑھتے، جب آپ کو اس کی صحت کا یقین ہوجاتا، تو وہ حدیث بخاری شریف میں تحریر فرماتے۔ غالباً اس بزم آب و گل میں آج تک اس اندازسے کسی مصنّف نے تصنیف و تالیف نہ کی ہوگی۔ 

آپ نے چھے لاکھ احادیث میں سے صحیح اور مستند احادیث منتخب فرمائیں۔ سخت محنت اور عرق ریزی کے سولہ برسوں میں یہ کتاب تکمیل سے آراستہ ہوئی اور ایک ایسی کتاب عالمِ وجود میں آگئی، جس کا لقب بلا کم و کاست قرآن مجید کے بعد دنیا میں سب کتابوں میں مستند ترین قرار پائی۔ امام بخاری نے اپنی کتاب کا نام ”جامع الصحیح“ رکھا، لیکن جلد ہی یہ کتاب صحیح بخاری کے نام سے مشہور ہوگئی۔

امام بخاری کے شاگرد خاص محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب فرماتے تھے کہ ’’میں اس وقت تک درسِ حدیث کے لیے نہیں بیٹھا، جب تک کہ میں صحیح احادیث کو ضعیف احادیث سے ممتاز اور اہل الرائے کی کتابوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ متن حدیث پر پوری طرح عبور حاصل نہ کرلیتا۔ آپ کی مجالس، عرب، ایران اور بخارا میں رہیں، لیکن دنیا کا غالباً کوئی گوشہ ایسا نہیں، جہاں امام بخاریؒ کے تلامذہ سلسلہ بہ سلسلہ نہ پہنچے ہوں۔ آپ کے درس کی یہ کیفیت تھی کہ لوگ حضورﷺ کے ارشادات سننے کے لیے میلوں پیدل چل کر امام بخاریؒ کی مجلس میں شریک ہوتے۔ 

محمد بن یوسف فریری فرماتے ہیں کہ بخاری کی مجلس میں بڑے بڑے اساتذہ و شیوخ بھی شامل ہوتے تھے۔ امام ابوبکربن العاصم، اسحاق بن احمد، ابنِ خزیمہ، جو فنِ تاریخ کے اسماء الرجال میں امام مانے جاتے ہیں، مگر امام بخاریؒ کی تحقیقات کے دل دادہ تھے۔ ابراہیم خواص کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو زرعہ رازی جیسے جلیل القدر عالم کو بھی امام بخاری کے سامنے بچّوں کی طرح علمِ حدیث معلوم کرتے دیکھا۔ 

امام صاحب کے شاگرد علامہ محمد بن فریری فرماتے ہیں، ’’امام بخاری سے ان کی زندگی میں صحیح بخاری سننے والوں کی تعداد نوّے ہزار تک پہنچتی ہے، جن میں امام مسلم، امام ترمذی اور امام نسائی بھی شامل ہیں۔ ایک مجلس میں ایک دفعہ امام مسلم نے امام بخاری سے کہا کہ ’’آپ سے وہی شخص دشمنی رکھے گا، جو حاسد ہوگا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ حدیث کی دنیا میں آپ کا کوئی مثل نہیں۔ امام احمد بن حنبل ؒ نے فرمایا کہ ’’خراسان نے آج تک محمد بن اسماعیل جیسا پیدا نہیں کیا۔

امام بخاری کی زندگی کا اکثر حصہ احادیث کی تلاش میں شہر در شہر سفر میں گزرا اور انہیں کسی ایک جگہ سکون سے بیٹھ کر کام کرنے کا بہت کم موقع میسّر آیا۔ اس کے باوجود صحیح بخاری کے علاوہ آپ کی بائیس تصانیف ہیں، جن میں سے کئی مستند علمی ذخیرے کا درجہ رکھتی ہیں۔ امام بخاریؒ کے والد انتہائی امیر شخص تھے اور آپ کو والد کی میراث سے کافی دولت ملی تھی، لیکن اس آسودہ حالی سے آپ نے کبھی اپنے عیش و عشرت کا اہتمام نہیں کیا۔ جو آمدنی ہوتی، اس سے غریب و نادار طلبا کی امداد کرتے۔ غریبوں اورمسکینوں کی مشکلات میں ہاتھ بٹاتے۔ محمد بن حاتم کہتے ہیں کہ امام صاحب نے اپنا سرمایہ مضاربت پر دے رکھا تھا۔ کاروبار سے علیٰحدہ رہتے، تاکہ سکونِ قلب سے خدمت حدیث نبوی کرسکیں۔ باوجود اس کے ایّام طالب علمی میں آپ نے بے انتہا مشقّتیں برداشت کیں اور کسی مرحلے پر بھی صبر و شکر کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔

ایک دفعہ کسی نے آپ کے آٹھ ہزار درہم دبالیے، جب ملاقات ہوئی، تو شاگردوں نے کہا کہ ’’وہ شخص آپہنچا ہے۔ آپ نے فرمایا، ’’قرض دار کو پریشانی میں ڈالنے پر طبیعت آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک دفعہ آپ کے پاس تجارت کا سامان پہنچا، تاجروں کو پتا چلا تو وہ سامان خریدنے کے لیے آپ کے پاس پہنچ گئے اور پانچ ہزار درہم کی پیش کش کی۔ آپ نے فرمایا کہ رات کو آنا۔ شام کو دوسرے تاجر آگئے، انہوں نے وہ سامان خریدنے کے لیے دس ہزار درہم کی پیش کش کردی۔ آپ نے فرمایا کہ ’’میں پہلے گروہ کے ساتھ فروخت کی نیّت کرچکا ہوں، اب پانچ ہزار کی خاطر اپنی نیّت بدلنا نہیں چاہتا۔ اس کے بعد آپ نے وہ مال پہلے تاجروں کے گروہ کو فروخت کردیا۔

جب اہل بخارا کو معلوم ہوا کہ امام بخاری ؒواپس بخارا لوٹ آئے ہیں تو انہیں بے حد خوشی ہوئی اور انہوں نے بڑے اہتمام اور شان و شوکت سے آپ کا استقبال کیا۔ امام بخاریؒ نے وہاں حلقہ درس قائم کیا اور اطمینان سے درس و تدریس میں مصروف ہوگئے، لیکن حاسدین نے یہاں بھی آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔ وہ خلافتِ عباسیہ کے نائب خالد احمد ذیلی، والی بخارا کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ ’’امام بخاریؒ سے کہیے کہ وہ آپ کے صاحب زادوں کو گھر آکر پڑھایا کریں۔ والی بخارا نے آپ سے یہ فرمائش کی، تو آپ نے فرمایا ’’میں علم کو سلاطین کے دروازوں پر لے جا کر ذلیل کرنا نہیں چاہتا، جسے پڑھنا ہو، وہ میرے درس میں آجائے۔ اس پر والی بخارا نے کہا کہ ’’ٹھیک ہے،اگر میرا بیٹا آپ کے درس میں آئے، تو وہ عام طلباء کے ساتھ نہیں بیٹھے گا، اُسے علیحدہ پڑھانا ہوگا۔ امام بخاریؒ نے فرمایا، ’’میں کسی شخص کو احادیثِ رسول ﷺ سننے سے نہیں روک سکتا۔

دنیا کے مختلف شہروں اور علوم و فنون کے مراکز میں احادیثِ رسولﷺ اور علوم نبویؐ کی ترویج و اشاعت میں زندگی گزارنے والے حدیث کا امام اور آفتابِ حدیث خرتنگ کی زمین میں اترگیا۔ عید کی شب آپ انتقال فرماگئے۔ عید الفطر کے روز ایک خلقِ کثیر نے آپ کے جنازے میں شرکت کی۔ شہر کا ہر بچہ اور بڑا جنازے کے ساتھ تھا۔ بعد نماز ظہر علم و عمل اورزہد و تقویٰ کے مجسم امام بخاریؒکو سپرد خاک کردیا گیا۔ 

آپ کی تدفین کے بعد قبر ِمبارک سے اس قدر تیز خوشبو پھوٹی کہ تمام اطراف معطر ہوگیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ وہ خوشبو مشک و عنبر سے بھی زیادہ اچھی تھی۔ لوگوں نے قبر کی مٹی کو اٹھانا شروع کردیا۔اس لیے حکومت کی طرف سے حفاظت کےلیے قبر کا احاطہ کردیا گیا۔