• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اولاد قدرت کا عطا کردہ تحفہ ہے۔ والدین بڑے پیار سے بڑے چاؤ سے نوازئیدہ بچے کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ بچہ اپنی پیدائش کے بعد سوتا ہے یا روتا ہے، اس کا اپنا ہی معمول ہوتا ہے جس کی وجہ سے والدین کی نیند بھی متاثر ہوتی ہے اور انھیں نیند کی کمی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ بچہ بالکل نہیں سو رہا۔ حقیقت میں، بہت سے بچوں کو ہر روز 19 گھنٹے تک نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

مسئلہ یہ ہے کہ، وہ صرف ایک سے دو گھنٹے کے وقفے میں ہی سوتے ہیں اور اکثر رات کے ایسے پہر جاگتے ہیں جب والدین نیند کی وادی میں پہنچ چکے ہوتے ہیں یا ان پر نیند کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ تاہم، ماہر اطفال ڈاکٹر ایلیسن نائیبینک کہتی ہیں کہ بچے ایک متوقع نیند کے معمول پر لائے جاسکتے ہیں، جس کے لیے تھوڑی سی حکمت عملی ترتیب دینا ہوگی۔

ابتدا میں کیا کریں؟

4ماہ سے کم عمر بچوں میں خود کو پُرسکون کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ جب انہیں جھولے یا پالنا میں تنہا چھوڑ دیا جاتا ہے تو وہ خود کو پرسکون محسوس کرسکتے ہیں۔ والدین کیلئے اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو گود میں لیں، پیار کریں، اور پھر جب وہ سو رہے ہوں تو انہیں آہستہ سے نیچے گدے پر لٹا دیں۔ ڈاکٹر ایلیسن کہتی ہیں کہ شیرخوار بچوں کو روتا چھوڑ کر نہیں چلے جانا چاہیے۔ 

ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کو اس کے اپنے جھولے یا پالنے میں سلانا چاہیے، اگر آپ کو بچے کو اپنے ساتھ بستر پر سلانے کا دل کرتا ہے تو ایسا نہ کریں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پہلے چھ ماہ تک بچے کا اپنے بستر میں سونا ٹھیک ہے جبکہ کچھ تو ایک سال تک اس مشق پر عمل کرنے کی سفارش کرتے ہیں، کیونکہ یہ اچانک بچوں کی موت کے سنڈروم (SIDS) کے خطرے کو 50فیصد کم کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر ایلیسن نائیبینک کہتی ہیں کہ والدین کا بستر مختلف وجوہات کی بنا پر بچوں کے لیے محفوظ نہیں ہوتا، جس میں نیند کے دوران والدین کا بچے کے اوپر آجانا اور دیگر خطرات میں نرم بستر کے نیچے دم گھٹنا یا بستر سے گرنا شامل ہے۔

بچے کو لپیٹنا

بچوں کو سونے میں مدد دینے یا نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے ایک دیرینہ مشق انہیں مضبوطی سے کپڑے میں لپیٹنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تکنیک شیر خوار بچوں کو ایسا محسوس کر واکے پُرسکون کرنے میں مدد کرتی ہے جیسے کہ وہ ماں کی کوکھ میں واپس آ گئے ہیں۔ لپیٹنے کے بارے میں ماہرین کی رائے اور تحقیق ملی جلی ہے، اور کچھ تشویش پائی جاتی ہے کہ کپڑے میں لپٹے بچے کو جب اپنے اوپر لٹایا جاتا ہے تو ایسے میں SIDS کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ 

اگر آپ بچے کو لپیٹنا چاہتے ہیں، تو ماہر امراض اطفال سے مشورہ کریں کہ یہ عمل صحیح طریقے سے کیسے کیا جائے اور کس عمر تک لپیٹنا مناسب ہو سکتا ہے۔ عام طور پر، لپیٹے ہوئے شیر خوار بچوں کو صرف پیٹھ کے بل سونا چاہیے اور جب بچہ بڑا ہو جائے تو اس عمل کو ترک کردینا چاہیے۔

مستقل نیند کا شیڈول تیار کریں

4سے 6 ماہ کی عمر میں بہت سے بچے رات بھر سو سکتے ہیں (8 اور 12 گھنٹے کے درمیان) اور وہ نیند کی تربیت کے لیے بھی تیار ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر نائیبینک کہتی ہیں، ’’اس عمر میں بچہ اپنے بیرونی ماحول کو پہچاننا شروع کر رہا ہوتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کس کمرے میں ہیں اور کمرے کے معمولات کیا ہیں‘‘۔ 

اگر اب تک کا معمول یہ رہا ہے کہ آپ بچے کو پیسیفائر دیں یا سونے کے وقت پویم وغیرہ سنائیں تو وہ اس معمول کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیےایک شیڈول ترتیب دیں، جیسے کہ غسل کروائیں، اس کے بعد کچھ دیر گلے لگائیں اور سونے کے وقت کہانی پڑھیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ سونے کا وقت اتنا جلدی شروع ہو کہ آپ کا بچہ زیادہ تھکا ہوا اور پریشان نہ ہو۔ جب بچہ سونے لگے تو اسے اپنے پالنے میں لٹائیں تاکہ وہ اس کا عادی ہوجائے۔

بچوں کو کب رونے دینا چاہیے؟

ڈاکٹر نائیبینک زور دیتی ہیں، ’’یہ واقعی اہم ہے کہ بچے خود ہی سونا سیکھ جائیں تاکہ اگر وہ آدھی رات کو جاگیں، تو گھر کے باقی لوگوں کو نہ جگائیں۔ بچے کی نیند کی تربیت کیلئے اسے بتائیںکہ سونے کا وقت ہو گیا ہے۔ پھر اسے لٹا کر کمرے سے باہر چلے جائیں اور کچھ دیر بعد واپس آکر دیکھیں کہ کیا بچہ ابھی تک جاگ رہا ہے۔ اگر جاگ رہا ہو تو بچے سے اپنی بات چیت مختصر اور میٹھی رکھیں۔ پالنا کے پاس کھڑے ہو جائیں اور اسے بتائیں کہ سونے کا وقت ہو گیا ہے، اسے جلدی سے تھپکی دیں، اور دوبارہ باہر چلے جائیں۔ 

ہر بار، کمرے میں واپس آنے کا دورانیہ بڑھائیں جب تک کہ آپ کا بچہ مزید رونے والا نہ ہو‘‘۔ یکے بعد دیگرے راتوں میں، آپ بتدریج وقت کے وقفوں کو ضرورت کے مطابق بڑھا سکتے ہیں، اس مقصد کے ساتھ کہ آپ کا بچہ آخرکار کچھ دنوں یا ایک ہفتے کے دوران سیکھ لے اور آپ کی مدد کے بغیر سو جائے۔

 بہت سے والدین کے لیے سب سے مشکل مرحلہ اپنے بچے کے رونے کو سننا ہے، لیکن یاد رکھیں کہ یہ کوئی تکلیف دہ رونا نہیں ہے۔ ڈاکٹر نائیبینک کہتی ہیں، ’’وہ بھوکے یا درد میں نہیں ہیں۔ آخرکار، وہ اتنے تھک جائیں گے کہ وہ سو جائیں گے‘‘۔ یاد رکھیں کہ یہ غیر معمولی بات نہیں ہے کہ جن بچوں نے رات بھر سونا سیکھ لیا ہے وہ کبھی کبھار رات کے وقت جاگنا شروع کر دیں۔

اچھی نیند کی عادات پر عمل

نیند کی تربیت کے ساتھ ساتھ، اور بھی چیزیں ہیں جو اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کے لیے کی جاسکتی ہیں کہ آپ اور بچے دونوں کو اچھی نیند آئے۔

دن کو کھائیں، رات کو سو جائیں۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ اپنی خوراک کا زیادہ تر حصہ دن کے وقت حاصل کریں، تاکہ بچہ جان لے کہ دن کا وقت کھانے اور رات کا وقت سونے کے لیے ہے۔ یہ عام طور پر 4 ماہ کی عمر میں ممکن ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نائیبینک کہتی ہیں کہ ایک استثنیٰ دودھ پلانے والی ماؤں کو ہو سکتا ہے، جو اکثر یہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کے بچے رات کو دودھ پینا پسند کرتے ہیں تاکہ وہ ماں کے قریب ہو سکیں۔

زیادہ دیر سونے کیلئے پہلے سو جائیں۔ سونے کے وقت کو تھوڑا سا پیچھے کرنے کی کوشش کریں۔ ’’کام کرنے والے والدین اکثر کام سے گھر آنے کے بعد شام کے وقت اپنی دلچسپی کی مختلف سرگرمیوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر آپ بچے کو بہت دیر سے جگاتے ہیں، تو وہ بہت زیادہ تھک جائیں گے اور انہیں سوتے رہنے میں زیادہ پریشانی ہوگی‘‘، ڈاکٹر نائیبینک بتاتی ہیں۔ سونے کا وقت طے کرتے وقت نیند آنے کی علامات ظاہر کرنا مدد کرتا ہے، جس میں جمائی لینا، جھنجھلانا، دور دیکھنا اور آنکھیں ملنا شامل ہیں۔

بالآخر، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر بچہ اور ہر خاندان مختلف ہے۔ کوئی بھی نیند کا طریقہ سب کے لیے یکساں طور پر کام نہیں کرے گا، اس لیے مثالی حکمت عملی تلاش کرنے سے پہلے کچھ آزمائش اور غلطی کی گنجائش ہے۔ ماہر اطفال سے مشورہ کر کے، آپ ایک ایسا شیڈول تیار کر سکتے ہیں جس سے آپ کے بچے کو نیند کی اچھی عادتیں قائم کرنے اور آپ کو مطلوبہ نیند (کم از کم کچھ) حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔

صحت سے مزید