پولیس کی مجرمانہ خاموشی اور مبینہ سرپرستی میں عروس البلاد کراچی کے پوش علاقوں کے چوراہے ،ٹریفک سگنلز،مساجد فٹ پاتھوں،بازاروں،فوڈ اسٹریٹس اور دیگر مقامات یُوں تو سال بھر خواتین اور بچوں سمیت ہٹےکٹے پیشہ ور گدا گروں کے نرغے میں رہتے ہیں، لیکن شعبان المعظم کے مقدس ماہ کے آغاز سے ہی اس مافیا کے ٹھیکے دار،اندرون ملک سے رقم لگا کربسوں اورٹرین کے ذریعے تازہ دم دستے روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی نہ صرف منتقل کر دیتے ہیں، بلکہ یومیہ اور گھنٹوں کی بنیادوں پر حساب بھی چکتاکر لیتے ہیں۔ ان کے مکروہ دھندے کا آغاز شب برات کو قبرستانوں سے ہوکر عیدالفطرکے اختتام تک طوفان کی مانند جاری رہتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ان پیشہ ورگدا گروں کی اکثریت غیر مسلم ہوتی ہے، آج مہنگائی کے ہوش ربا دور میں، جہاں سفید پوش طبقہ جس کے لیے مشقت اورجدوجہد کے باوجود دو وقت کی روٹی کا حصول محال ہو چکا ہے۔ پولیس نے گزشتہ دنوں کراچی پولیس آفس ( کے پی او ) پر حملے میں ملوث ماسٹر مائنڈ سمیت2دہشت گردوں کو ہلاک اور 2 کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس حوالے سے وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے سی ٹی ڈی افسران کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ17 فروری کی شام3 مسلح دہشت گردوں نے کراچی پولیس آفس پہ حملہ کیا، پولیس اور قانون نافذ کرنےوالے ادارے بروقت حرکت میں آئے اور اس سے پہلے کہ کوئی بڑا نقصان ہوتا 2خودکش بمباروں کو مقابلے میں ہلاک کر دیا ،جب کہ ایک خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اڑالیا، دہشت گردی کے نتیجے میں5 افراد نے جام شہادت نوش کیا اور 20 کے قریب لوگ زخمی ہوگئے۔
اس نیٹ ورک کا قلع قمع کرنے کے لیے سی ٹی ڈی پولیس، وفاقی حساس اداروں اوردیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے اس نیٹ ورک کا کام یابی سے سراغ لگایا،معلومات حاصل ہوئیں کہ دہشت گردوں کا یہ نیٹ ورک کراچی اور بلوچستان کےسرحدی علاقے کے درمیان میں روپوش ہے اور کے پی او پر خودکش حملہ کرنےوالوں کی مدد اور پلاننگ اور ریکی کا کام اسی نیٹ ورک نے سرانجام دیا تھا، جس پر سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے مذکورہ گروہ کے خلاف جاسوسی کا نیٹ ورک مضبوط کیا۔
گزشتہ شب اطلاع ملی کہ اس نیٹ ورک کے مزید دہشت گرد کراچی میں حب کے کچے راستوں سے داخل ہوں گے، لہذا گزشتہ رات قریب 3 بجے حب کے کچے راستوں سے دو موٹرسائیکلوں پر چار دہشت گرد داخل ہوئے، جنہیں تھانہ منگھوپیر کے علاقے مائی گاڑی پر تعینات سی ٹی ڈی پولیس کی ٹیم نے روکنے کی کوشش کی ، جس پر دہشت گردوں نے سی ٹی ڈی ٹیم پر فائرنگ کردی، کیوں کہ ٹیم چوکنا اور محفوظ طریقے سے ہوشیار تھی، جس نے جوابی کارروائی کی ،اس دوران2دہشت گرد موقع پر شدید زخمی ہوگئے، جب کہ دیگر دہشت گردوں نے کچھ مقابلہ کے بعد گرفتاری دے دی ، زخمی ہونے والے دونوں دہشت گرد بعد ازاں ہلاک ہوگئے، گرفتار دہشت گردوں کے پاس موجود خود کش جیکٹ کوبم ڈسپوزل یونٹ کی ٹیم نے پولیس کے ہمراہ ناکارہ بنایا۔
ہلاک دہشت گردوں کی شناخت آریاد اللہ عرف حسن اور وحیداللہ عرف خالدعرف حذیفہ کے نام سے ہوئی، انہوں نے بتایا کہ آریاد اللہ عرف حسن اور وحیداللہ عرف خالد عرف حذیفہ کے پی او حملے کے ماسٹرمائنڈ تھے، جب کہ گرفتار ہونے والے دہشت گردوں کی شناخت عبدالعزیز عرف محمد علی اور مہران عرف مہربان کے نام سے ہوئی ہے۔
ہلاک ہو نےوالے دہشت گرد احسن آباد کراچی کے رہائشی ہیں اور گرفتار ہونے والوں میں ایک دہشت گرد گلشن حدید فیز 2 جب کہ دوسرا دہشت گرد شاہ لطیف ٹاؤن کا رہائشی ہے جودہشت گردی کے واقعے کے بعد بلوچستان میں روپوش ہوگئے تھے، گرفتار دہشت گردوں نے انکشاف کیا ہے کہ ہلاک ہونے والے دہشت گردوں اور ان کا تعلق تحریک طالبان پاکستان سے ہے اور اس حملہ میں استعمال ہونےوالی گاڑی حملہ سے ایک دن قبل خود کش حملہ آور کفایت اللہ عرف انس اور گرفتار ملزم عبدالعزیز عرف محمدعلی نے حب کے ایک شوروم سے 10 لاکھ روپے میں خریدی تھی، جب کہ گاڑی خرید نے کی رقم آریاد اللہ عرف حسن اور عبدالوحید عرف خالد عرف حذیفہ نے فراہم کی تھی۔
شرجیل میمن نے کہا کہ خودکش حملہ آور وقوعہ سے ایک ہفتہ قبل بسوں کے ذریعے کراچی آئے تھے اور ہلاک دہشت گرد عبدالوحید عرف خالد عرف حذیفہ کے گھر احسن آباد میں روپوش رہے ، جب کہ خود کش حملے میں استعمال ہونے والا اسلحہ، جیکٹس اور دیگر اسلحہ ٹرک کے ذریعے کے پی کے کے علاقے ٹانک سے پہنچایا گیا تھا، گرفتار دہشت گردوں سے مزید انکشافات کے لیے مزید تفتیش جاری ہے۔ دہشت گردوں سے ایک خودکش جیکٹ، 3 پستول، 2 موٹر سائیکلیں اور 80 راؤنڈ بھی برآمد کیےگئے ہیں۔ اس موقع پرانہیں صحافیوں کے تیکھے سوالات کا سامنا بھی کر نا پڑ۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں دہشت گردی کے جتنے بڑے واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں سے بیش تر وارداتوں کے ملزمان ہلاک اور گرفتاربھی کیے گئے ہیں۔ اس سوال پر کہ دہشت گرد 8 ماہ سے حملے کی پلاننگ کر رہے تھے اور کے پی او میں داخل ہوکردہشت گردی بھی کرڈالی کیا، یہ پولیس اور انٹیلی جنس کی ناکامی نہیں ہے؟ دہشت گردوں کو بارڈر پرہی کیوں نہیں روکا گیا؟ انہوں نے بر ملاکہا کہ شہر میں روازنہ ہزاروں گاڑیاں آتی ہیں، ہر گاڑی کی تلاشی نہیں لے سکتے۔ تاہم اب صوبے کے داخلی و خارجی راستوں پر اسکینرز لگائے جائیں گے، ان کا کہنا تھا کہ اسلحہ کراچی میں نہیں بنتا ،بلکہ دیگر صوبوں سےیہاں آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کے پی او حملے میں اگر کسی کی غفلت ثابت ہوئی تو فیکٹ فائنڈنگ کمیشن اس کا جائزہ لے گا۔اس موقع پرسی ٹی ڈی کے افسر راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کراچی پولیس پر حملے میں ہلاک ہونے والے تیسرےدہشت گرد کا پاکستان میں کوئی ریکارڈ نہیں ملا ہے،اس کا کوڈ نام یاسر ہے اور ممکنہ طور پر اس کا تعلق افغانستان سے ہے،انہوں نےکہاکہ بی ایل اے سے ان دہشت گردوں کے تعلق کے حوالے سے اب تک کوئی انکشاف نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب سی ٹی ڈی پولیس کا مبینہ مقابلہ اس وقت مشکوک ہو گیا، جب مبینہ مقابلے مارے جانے والے افراد کے اہل خانہ نے منظر عام پر آکر اسے جعلی قرار دیتے ہوئے ایف ٹی سی کےقریب واقع فلاحی ادارے کے سرد خانے کے باہرشدید احتجاج کیا۔
اہل خانہ کا کہنا تھا کہ سی ٹی ڈی پولیس کے ہاتھوں مبینہ مقابلے مارے جانے والے ہمارے دونوں بچوں کو پولیس نے جعلی مقابلے میں مارا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والے مبینہ دہشت گرد عبدالوحید نے مفتی کورس مکمل کیا ہے، جب کہ آریاد اللہ حافظ قرآن تھا،لواحقین نے مطالبہ کیا کہ ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مارے جانے والے عبدالوحید کو 7 مارچ کو سہراب گوٹھ مچھر کالونی میں گھر سے اٹھایا گیا تھا، جب کہ مارے جانے والے ملزم اریاد اللہ کو بھی 7 مارچ کو سہراب گوٹھ جمالی گوٹھ سے گھر سے اٹھایا گیا، 9 مارچ کو آریاد اللہ کے کزن حسن ولد عجب نور کو بھی اس کے گھر سے اٹھایا جو تاحال لاپتہ ہے، جب کہ جن گرفتار ساتھیوں کا ذکر کیا گیا ،جن کے نام مہران اور عبدالعزیز بتائے گئے۔
7 مارچ 7:30 بجے کو شاہ لطیف ٹاون میں مہران کے گھر پر پولیس کی گاڑی میں سادہ لباس میں ملبوس افراد نے چھاپہ مارا، مہران اور اس کے 2 بھائیوں محمد رحمان اور آفتاب، جب کہ ایک بھانجے ابرار کو مبنیہ طورپر اٹھا کر لے گئے ،ان کے گھر والوں نے مبینہ طورپر 9 مارچ کو شاہ لطیف تھانے میں ابتدائی رپورٹ کروائی کہ ہمارے 4 بندوں کو اٹھایا گیا ہے،3 دن بعد مہران کے دونوں بھائی محمد رحمان ، آفتاب اور ان کے بھانجے ابرار کو شارع فیصل پر اتار کر رہا کردیا اور محمد رحمان کو کہا گیا کہ 2 دن بعد آپ کے بھائی مہران کو بھی رہا کر دیں گے، جب کہ دوسرے گرفتار ساتھی عبدالعزیز کی فیملی سے ابھی تک ہمارا رابط نہیں ہوا ۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ عبدالوحید 5 فروری کو عالم بنا ہے، جس کی دستار بندی کی تمام تصاویر بھی موجود ہیں۔
احتجاج میں شامل پی ٹی ایم کے رہنما نے بتایا کہ ہم آر یاد اللہ اور وحید کی لاشیں لینے آئے ہیں ،انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن قائم کیا جائے۔دوسری جانب سی ٹی ڈی پولیس کے افسر راجہ عمر خطاب کا کہنا ہے کہ اگر کسی کو شک ہے، تو ہم سے رابطہ کرے،ہم اس ملک کے بچوں کی جان بچاتے ہیں، جن کو یہ دہشت گرد یتیم کرتے ہیں ،اس کے لیے ہم اپنی زندگی اور فیملی کی زندگی کو دائو پر لگاتے ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ماضی گواہ ہے، جب ہم نے دہشت گرد گرفتار کئے یا مقابلے میں مارے گئے۔ دہشت گردی ختم ہوئی تھی ،اگر ہم دہشت گردی اور دہشت گردوں کے سامنے صرف اس لیے جھک گئے کہ اس کو سیاسی معاملہ بنا لیا جائے گا، تو پھر ہم سب غیر محفوظ ہوں گے ،ان کا کہنا تھا کہ امید ہے ہماری محنت اور نیت پر شک نہیں کیا جائے گا۔ بے روز گاری اورمہنگائی کی چکی میں پسی عوام کودہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اور اسٹریٹ کرائمز کی تاحال نہ رکنےوالی وارداتوں نے دہری اذیت میں مبتلا کر کے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔
اس کے برعکس کراچی پولیس کی جانب وزیر اعلیٰ سندھ کو شہرمیں یومیہ درجنوں مبینہ پولیس مقابلوں زخمی ملزمان کی گرفتاریوں اور جرائم کی واداتوں کے حوالے سے اور میڈیا کو ویکلی ’’سب اچھا ہے‘‘، کی کہانیوں پر مبنی رپورٹس ارسال کر نےکےباوجود بے چارے عوام تاحال ڈاکوؤں اور اسٹریٹ کرمنلز کے رحم وکرم ہے۔