• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیوب ٹرین ملازمین کی ہڑتال، مانچسٹر، راچڈیل، برمنگھم، لیسٹر سے لندن آنے والوں کو مشکلات

راچڈیل (ہارون مرزا) ٹیوب ٹرین ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کیلئے ہڑتال کے باعث مانچسٹر، راچڈیل،برمنگھم، لیسٹر سمیت مختلف علاقوں سے لندن آنے والے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،ریل مسافروں نے ہڑتال پر غم وغصے اور سنگین مسائل سے متعلق سوشل میڈیا پر اپنے تاثرات کا اظہار کیا اور کہا کہ ریل ملازمین عوام کے صبر کو آزما رہے ہیں، ہڑتالوں سے ملکی معیشت متاثر اور لندن میں سفر کرنے والے مسافروں کو اذیت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے باالخصوص برطانیہ کے مختلف علاقوں سے لندن آنے والے افراد جو لندن میں ٹیوب ٹرین کے ذریعے سفر کرتے ہیں، مسائل کا شکار ہیں، ہڑتال کی وجہ سے اسٹیشن بند اور سروسز معطل رہیں جس کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک کے دبائو میں اضافہ دیکھا گیا،14آپریٹرز پر مشتمل ریل میری ٹائم اور ٹرانسپورٹ یونین ( آر ایم ٹی) کے اراکین تنخواہ، ملازمتوں اور شرائط پر طویل عرصے سے جاری تنازع پر واک آؤٹ پر ہیں جو ٹرینیں چل رہی ہیں وہ عام طور پر صبح 7.30بجے سے شام 6.30بجے تک محدود شیڈول پر چلتی ہیں بعض ٹرین فرموں نے لوگوں پر زور دیا کہ صرف انتہائی ضروری ہو تو ریل سے سفر کریں قومی سطح پر 40سے 50فیصد کے درمیان خدمات کے چلنے کی توقع تھی لیکن پورے نیٹ ورک میں وسیع تغیرات ہوں گے اور کچھ علاقوں میں کوئی خدمات نہیں ہیں قومی سطح پر تمام ریل مسافروں کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ 30مارچ اور 1 اپریل کو مستقبل کی ہڑتال کی تاریخوں میں خلل کی توقع رکھیں، انگلینڈ میں اساتذہ اور یونیورسٹی کا عملہ بھی کل واک آؤٹ کے تسلسل میں ہڑتال پر ہوگا جب انہوں نے ایک دہائی میں سب سے بڑے دنوں میں سے ایک میں حصہ لیا ،ڈیڑھ ملین تک اساتذہ، لیکچررز، جونیئر ڈاکٹرز، سرکاری ملازمین، لندن انڈر گراؤنڈ ڈرائیورز، بی بی سی کے صحافیوں اور ایمیزون کے ملازمین نے بجٹ کے دن کام روک دیا، یونین کے عہدیداروں نے لندن میں ایک ریلی میں جس میں ہڑتالیوں اور حامیوں نے شرکت کی کہا کہ ہڑتال نے حکومت کو تنازعات سے نمٹنے کے حوالے سے ایک سخت پیغام بھیجا ہے۔ سٹیو مونٹگمری جو ریل ڈیلیوری گروپ کے سربراہ ہیں نے کہا کہ ہڑتالوں کا یہ تازہ ترین دور ہمارے صارفین کے لیے مزید تکلیف کا باعث ہو گا جو پہلے ہی مہینوں کی رکاوٹ کا سامنا کر چکے ہیں ہمارے لوگوں کو اس وقت اور بھی زیادہ پیسے خرچ کرنا پڑیں گے جب وہ کم سے کم برداشت کر سکتے ہیں۔

یورپ سے سے مزید