• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر: ہارون مرزا ۔۔۔۔ راچڈیل
امریکی ڈالر کی اونچی اڑان اور پاکستانی روپے کی مسلسل گراوٹ نے جہاں پاکستان کی معیشت کو کمزور کیا ہے وہیں پاکستان پر آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور دیگر عالمی قرضوں کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے، کسی بھی ملک کی کرنسی کی گراوٹ سے معیشت کو دھچکا پہنچتا ہے مگر بین الاقوامی دنیا کے ساتھ لین دین ، کاروبار، قرضوں کی ادائیگیاں اور دیگر معاملات چلانے کیلئے بیساکھیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے، کرنسی کو مستحکم کرنے کیلئے امپورٹ میں کمی ایکسپورٹ کو بڑھانے سمیت دیگر کئی اہم اقدامات جاری ہیں مگر اس کے باوجود پاکستانی کرنسی مسلسل زوال پذیر ہے جس کی وجہ سے ملک میں مہنگائی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں ، برطانیہ، امریکہ ، یورپ ، عرب ممالک اور افریقی ممالک میں لاکھوں پاکستانی بسلسلہ روزگار، تعلیم ، کاروبارکیلئے سفر کرتے ہیں کچھ عرصہ قبل پاکستان کی قومی ائر لائن پر بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوئیں تو غیر ملکی ائر لائن نے پاکستانی تارکین وطن کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے تاہم اب پاکستانی کرنسی کی گراوٹ کے باعث تارکین وطن کے اخراجات میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہو چکا ہے ، بدترین مہنگائی کے دور میں بھاری بھرکم فضائی کرایوں نے اپنوں کو اپنوں سے دور کر دیا ہے، اوورسیز پاکستانی سفری اخراجات کے باعث اپنوں سے ملنے سے محروم ہو رہے ہیں، ڈالر کا ریٹ 285روپے سے تجاوز کر چکا ہے جس میں آئی ایم ایف کے ساتھ حالیہ معاہدوں کے سبب مزید اضافے کی توقع کی جا رہی ہے ،عازمین حج کو بھی سفری اخراجات میں بے پناہ اضافے کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا ہے، آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط نے جہاں پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کے طوفان کو جنم دیا ہے وہیں روپے کی مسلسل گراوٹ سے معاشی بحران دن بدن بڑھتا جارہا ہے،حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کے مطالبہ پر ملک میں شرح سود میں بھی نمایاں اضافہ کیا ہے ڈالر کی قیمت میں اضافے سے معاشی بحران کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی بھی بڑے خطرے کی گھنٹی ہے، حکومتی ذرائع کے مطابق چائنہ نے پاکستان کی مدد کا فیصلہ کیا ہے اور ابتدائی طو رپر ایک خطیر رقم بھی دی ہے تاکہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لائی جا سکے مگر آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور معاشی دباؤ کی وجہ سے مستقبل قریب میں بہتری کے آثا انتہائی معدوم ہیں،تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے ڈالر کا ریٹ فکس رکھنے کی پالیسی کو ترک کر دیا ہے اور اب آئی ایم ایف کی شرط مان لی ہے تاکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے ساتھ مزاکرات کو کامیاب بنایا جا سکے ،روپے کی قدر میں کمی کے معیشت اور ایک عام آدمی پر کتنے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اسکا اندازہ تو ملک میں مہنگائی کی بدترین لہر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے گوشت، پھل فروٹ ،سبزیاں غریب طبقے کی پہنچ سے دور ہیں ،آٹا ، کوکنگ آئل، گھی کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہیں،ملک کے دو بڑے صوبوں میں الیکشن کا شیڈول جاری ہوچکا ہے اپوزیشن کا واویلا ہے کہ موجودہ حکومت معاشی استحکام کی بجائے انتقامی کارروائیاں پر زور دے رہی ہے، حکومت کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کی راہ میں رکاوٹیں جان بوجھ کر کھڑی کی جا رہی ہے جس سے معاشی بحران بڑھے گا ۔ ماہر معاشیات عبدالصمد کا کہنا ہے روپے کی قدر اب اتنی جلد بحال نہیں ہو گی وجہ یہ بھی بنی ہے لوگ گھبرا کر ڈالر ذخیرہ کر رہے ہیں،عالمی مارکیٹ میں ہماری ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے کیونکہ ہم آئی ایم ایف کے معاملے میں بار بار حماقتیں کر رہے ہیں،ڈالر کی قیمت میں معمولی کمی آ بھی جائے تو اس سے عام آدمی کے مسائل کم نہیں ہوں گے عام آدمی کی مشکلات میں کمی نہیں بلکہ زندگی مشکل ہی ہو گی،ایک اور ماہر معیشت مزمل اسلم نے بھی موجودہ حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عام آدمی ڈالر کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی بالواسطہ اور بلا واسطہ متاثرضرور ہوتا ہے، ماہرین معیشت کے تبصرے کو موجودہ حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بالکل صحیح ہے، غیر ملکی سفر کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کو ڈالر کی قیمت میں اضافے اور پاکستانی کرنسی کی گراوٹ کی وجہ سے سفری اخراجات میں لاکھوں روپے کے اضافے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ضر ورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت مل کر پاکستانی معیشت میں استحکام لانے کیلئے ٹھوس اور موثر اقدامات یقینی بنائے۔
یورپ سے سے مزید