• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:اسرار احمد راجہ۔۔۔۔لوٹن
جس طرح قانون اخلاقیات کی پرواہ نہیں کرتا ویسے ہی روایات قانون کے احترام سے مبرا ہوتی ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل، بچپن اور وٹے سٹے کی شادیاں اور دیگر درجنوں ایسی رسومات اور روایات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کی روک تھام کیلئے قوانین تو موجود ہیں مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے چاہے اُنہیں جیل ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ سیاسی انتقام ، ریاستی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور عزتِ نفس کا کھلواڑ ہمیشہ آئین اور قانون کی آڑ میں ہی ہوتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہر چیز کی ایک حد اور انتہا ہو تی ہے ، ایسے قوانین اور ایسا آئین جس کی کوئی حدو د وقیود نہ ہوں اورجو ظلم وجبرکا ہتھیار ہو آخر کار مسترد اور بے کار ہو جاتا ہے، پٹوار خانے اور تھانے ہی نہیں بلکہ ادارے بھی اب ایسی روایات قائم کر رہے ہیں جو مستقبل میں آئینی ریاست کی مکملتباہی اور آپسی یا شخصی راج کی راہ ہموار کر رہے ہیں ۔ پولیس کے سپاہی سے لے کر ادارے کے سربراہ اور سڑکچھاپ موالی ، گلی کے غنڈے ، جیب کترے اور مسجد کے جوتی چور سے لیکر وزیروں اور مشیروں تک کی اگر ایک ہی سوچ ہو تو معاشرہ اور ریاست کبھی یکجاہ نہیں رہ سکتا۔ وہ لوگ جو خود کو قانون سے مبرا سمجھتے ہیں اور جبر وظلم کرتے ہیں اُن کا خاتمہ ایسے ہی لوگوں کے ہاتھوں ہوتا ہے جو قانون کی پروا نہیں کرتے۔پاکستان کا آئین اسلامی قرار دیا گیا مگر عملاً سب کچھ اسلام سے متصادم اور اخلاقیات سے مبرا ہے ۔ دینی اورمذہبی جماعتیں ہر حکومت کا حصہ ہوتی ہیں اور حکومتی جبر، کرپشن، بد اخلاقی اور دیگر جرائم میں بھی حصہ داری کا معاوضہ وصول کرتی ہیں ۔ پچھلے چار سال سے جو ہائبرڈ نظام کایا گیا اور پھر اس کے بعد جو دس ماہ سے پاکستان میں 14جماعتی اتحادحکمرانی کر رہا ہے اور قانون کی آڑ میں نہ صرف ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے بلکہ سیاسی اخلاقیات اور انسانی حقوق کا بھی جنازہ نکل چکا ہے ۔ پاکستان میں حکومت چاہے کسی کی بھی مگر صحافیوں اور انسانی حقوق کی بات کرنے والوں پر ہمیشہ ظلم و جبر ہی ہوتا رہا ہے، پہلی بار ایک غریب ،پسماندہ اور عالمی سطح پر مقروض ملک کی کابینہ اسی سے زیادہ وزیروں اور مشیروں پر مشتمل ہے۔ برہنہ، نیم برہنہ اور اخلاق سے گری گفتگو کی ویڈیوز اور آڈیوز ہماری سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ آج عمران خان اور ان کی جماعت اس آڈیو ویڈیو لیکس کا شکار ہیں تو کل تک مریم نواز جیل میں ویڈیو بنائے جانے کی شکایت کرتی نظر آئیں،عمران خان کل تک جب وزارت عظمی کی کرسی پر براجمان تھے اور ایک پیج کا ورد جاری تھا تو ان آڈیو ویڈیوز کو جائز قراردے رہے تھے ،مگر آج اس کے سخت مخالف ہیں ۔ مریم نواز شریف اعلانیہ کہہ چکی ہیں کہ اُن کے پاس بہت سی اہم شخصیات کی ویڈیوز موجود ہیں، باخبر صحافیوں کے مطابق سابق آرمی چیف نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو ریکارڈ کرائی جب کہ عمران خان کا کہنا کہ ان کے پاس بھی سابق آرمی چیف کی ویڈیوز موجود ہیں، جرم اسلام آباد میں ہوتا ہے تو ایف آئی آرز چمن سے پشاور اور کراچی سے بلتستان تک درج ہو جاتی ہیں ۔ یہ سب اس لیے ہے چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین اس کی اجازت دیتا ہے یا پھر خاموش ہے۔ عدلیہ کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی چونکہ آئین سے بالاتر ادارے اسے پسند نہیں کرتے۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس پنہور کی عدالت میں انکشاف ہوا کہ اغوا کاری ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جسے حکومتی وزرا کی آشیر باد حاصل ہے۔ مغویوں سے نہ صرف تاوان وصول کیا جاتا ہے بلکہ اُن کی عورتوں اور بچوں کی برہنہ تصویریں اور بد عملی کی ویڈیوز بنا کر ڈارک ویب پر ڈالروں میں فروخت کی جاتی ہیں ۔ انسانی تاریخ میں ایسے افعال کی کم ہی مثالیں ملتی ہیں ۔سوال یہ ہے کہ یہ سب اب حکومتِ پاکستان محض سیاسی مخالفت اور پسند و نا پسند کی بنیاد پر اپنے ہی لوگوںکیساتھ کیوں کر رہی ہے، لوگوں کی برہنہ ویڈیوز بنانا دُنیا کے کسی بھی سیاسی اور سماجی کلچر کا حصہ نہیں اور نہ ہی ایسے لوگ سیاستدان کہلوانے کے حق دار ہیں ۔ ستم تو یہ ہے کہ یہی لوگ ملک کے حکمران اور طاقتورشخصیات ہیں جو کاروبار ریاست بھی چلا رہے ہیں، سوال یہ بھی ہے کہ آخر کار حکومت اور حکومتی شخصیات قانون اور آئین کی آڑ میں ایسی روایات کیوں ڈال رہی ہیںجو آنے والے وقت میں خود ان کے لیے مصیبت کا باعث بن سکتی ہیں ۔ اعلٰی عدلیہ میں تقسیم بھی پاکستان کی سلامتی و یکجہتی کیلئے کوئی اچھا شگون نہیں اور نہ ہی دیگر اداروں کارویہ ملکی سلامتی کے حق میں ہے۔ اداروں کے اندر ٹوٹ پھوٹ اور خاموشی کسی بڑے سانحہ کا باعث بن سکتی ہے۔ کل عمران خان نے آج کے حکمرانوں کوجیلوں میں رکھا تو آج عمران خان پر جگہ جگہ پرچے کٹ رہے ہیں تو آنے والے کل میں کوئی دوسرا بلکہ ہر وزیر اعظم مصر کے بادشاہوں کی طرح جان بچاتا پھرے گا یا پھر روایات اور قوانین کی بھینٹ چڑھا دیا جائے گا۔ 
یورپ سے سے مزید