کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو نیوز کے پروگرام ’جرگہ ‘ میں میزبان سلیم صافی سے گفتگو کرتے ہوئے علماء کرام نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ایران کی دوستی سے امت مضبوط ہوگی ، پاکستان میں امن آئے گا۔ علامہ عارف حسین واحدی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان دوستی ہو جاتی ہے تو ایک تو امت مضبوط ہوگی اور دوسرا پاکستان میں امن آئے گا پاکستان میں استحکام یہ جو پراکسیز کی جنگ چل رہی ہے پاکستان میں کوئی سعودی عرب کی حمایت میں ہے کوئی ایران کی حمایت میں ہے میں سمجھتا ہوں اس کو کنٹرول کرنے میں ہمیں مدد ملے گیسعودی عرب چاہتا ہے ایران میں سرمایہ کاری کرے ، امارات اور ایران کے درمیان رابطہ بھی نیک شگون ہے دونوں ممالک میں تڑپ موجود ہے۔ علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ سعودی عرب کا بڑا کلیئر وژن ہے، وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں امن و استحکام ہو، عرب دنیا میں کہا جارہا ہے کہ محمد بن سلمان امن کی اور سلامتی کے قائد کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ ساری کوششیں اسی طرف ہیں، اس میں منفی کے بجائے مثبت سمت دیکھنا چاہئے۔ ماہر بین الاقوامی امور کامران بخاری نے کہا کہ سعودیہ اور ایران کا ہاتھ ملانا چھوٹا موٹا سیز فائر ہے کیونکہ یہ دونوں جانب کی ضرورت ہے، میں نہیں سمجھتا سعودیہ ایران پر اعتماد کرے گا، اگر چین کچھ کر سکتا ہے تو پھر ٹھیک ہے امریکی اپناپانچواں بحری بیڑہ وہاں سے ہٹانے اور چین اپنا بھیجے ، چین اپنے اڈے بنائے چین خطے کی سیکورٹی کو انڈر رائٹ کرے ۔ پروگرام کے آغاز میں سلیم صافی کے سوال کہ ایران اور سعودی عرب کو تعلقات کی بحالی پر کس چیز نے مجبور کیا؟ کامران بخاری نے کہا کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ تعلقات بحال ہوں گے ، کیونکہ سعودی عرب کے بیانات آئے ہیں کہ ہم اعتماد تب کریں گے جب verify کریں گے کہ واقعی ایران کے رویے میں تبدیلی آئی ہے، میری اپنی رائے یہ ہے کہ ان کا طویل conflict چل رہا ہے جسے میں geosecterian conflict کہتا ہوں، اس میں زیادہ سے زیادہ یہ جو اپنا معاہدہ ہوا ہے یہ جو ہاتھ ملایا گیا ہے یہ ایک چھوٹا موٹا سیز فائر ہے کیونکہ دونوں جانب ضرورت ہے۔ سلیم صافی: اس میں تو یہ ہے کہ دو مہینے کے اندر سفارتخانے بھی کھولے جائیں گے اور اس سے پہلے جو تجارتی اور اسٹریٹجک معاہدے ہیں وہ بھی بحال ہوجائیں گے؟ کامران بخاری: سفارتخانہ تو بھارت کا بھی ہے پاکستان کے اندر، پاکستان کا ہے بھارت کے اندر، لیکن حالات سب کے سامنے ہیں، اس سے دوستی نہیں ہوتی، وہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ نے ٹمپریچر کم کردیا ہے جو بڑے عرصہ سے ہائی چل رہا ہے، دونوں طرف کو تھوڑی respite کی ضرورت ہے۔کیا سعودی عرب ایران پر اعتماد کرتا ہے کہ وہ دستبردار ہوجائے گا؟ میں نہیں سمجھتا کہ سعودی عرب اعتماد کرے گا، یہ دیکھو اور انتظار کرو کا کھیل ہے۔ سلیم صافی کے سوال کہ کیا سمجھتے ہیں یہ خیر کا معاملہ آگے بڑھے گا یا دوبارہ تنازع کی طرف چلا جائے گا؟ علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خطے کے اور عالمی حالات جو ہیں اس میں آج ایران بھی چاہتا ہے خطے کے ممالک کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھائے اور سعودی عرب کی بھی یہی خواہش ہے، جنگیں زیادہ طولانی رکھنا عقلمندی نہیں ہوتی، ہر قوم تھک جاتی ہے، میں سمجھتا ہوں اب تک دونوں ممالک کو کافی تجربہ ہوچکا ہے اور خطے کی ضرورت بھی یہی ہے، سعودی عرب اورا یران کے تعلقات جب بحال ہوجائیں گے، سعودی عرب سرمایہ کاری بھی کرنا چاہتا ہے، معاشی حوالے سے خطے میں جو بحران ہے اس میں سعودی عرب کو بھی ضرروت ہے ، ایران کو بھی ضرورت ہے، ایران کی بہت بڑی مارکیٹ ہے، جس وقت سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال ہوجائیں گے، اب شام کی خبریں بھی آرہی ہیں کہ شام بھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کررہا ہے، بحرین بھی ایران کے ساتھ تعلقات بحال کرے گا، یہ جو امارات وزیرخارجہ کا رابطہ نوروز کے دنوں میں ایران کے وزیرخارجہ کے ساتھ ہوا یہ بھی ایک اچھا شگون ہے، میں سمجھتا ہوں اس طرف دونوں طرف ایک تڑپ موجود ہے۔ سلیم صافی: تڑپ موجود ہے لیکن ماضی بھی بہت تلخ ہے، اس کے ہوتے ہوئے آپ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ آگے بڑھ کر دوستی کے تعلقات میں بدل سکتا ہے؟ علامہ طاہر اشرفی: ہم پچھلے تین چارماہ دیکھیں تو عراق میں جو مذاکرات شروع ہوئے تھے جس میں اس وقت وزیردفاع امیر خالد جو امیر محمد بن سلمان کے بھائی ہیں انہوں نے بہت اچھے انداز میں عراق میں ایرانی قیادت سے جو بات چیت کی اور اس کے بڑے مثبت اثرات یہ ہوئے کہ حوثیوں کے سعودی عرب پر حملے رک گئے، پھر چین کے صدر کو جس طرح ویلکم کیا گیا اور پورے عالم عرب کو امیر محمد بن سلمان نے مدعو کیا شاہ سلمان کی سرپرستی میں اور وہاں پر آگے بڑھنے کی معاشی اور اقتصادی اعتبار سے، امیر محمد بن سلمان کا جو وژن ہے 2030ء کا یا ویسے اقتصادی اور معاشی، وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اقتصادی اور معاشی طور پر مضبوط ہوں گے پھر ہی کام چلے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سعودی عرب کا بڑا کلیئر وژن ہے، وہ چاہتے ہیں کہ خطے میں امن و استحکام ہو، اسی لیے ترکی کے ساتھ پچھلے سال رمضان میں معاملات بہتر ہوئے، پانچ ارب ڈالرز انہوں نے ترکی کو امداد کے طور پر دیے، سعودی عرب کی قیادت کی ایک سوچ ہے، دوسری طرف ایرانی قیادت نے بھی سب کچھ ایک طرف رکھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے، تیسری سمت بھی آپ دیکھیں کہ سعودی عرب کے وزیرخارجہ دو ہفتوں کے دوران یوکرائن بھی گئے ہیں، روس بھی گئے ہیں، برطانیہ میں بھی انہوں نے جاکر بات کی ہے،عرب دنیا میں کہا جارہا ہے کہ محمد بن سلمان امن کی اور سلامتی کے قائد کے طور پر کردار ادا کرنے کی کوشش کررہے ہیں، میں سمجھتا ہوں یہ ساری کوششیں اسی طرف ہیں، اس میں منفی کے بجائے مثبت سمت دیکھنا چاہئے۔ کامران بخاری نے کہا کہ اگر چین کچھ کر سکتا ہے تو پھر ٹھیک ہے امریکی جو ہے اپنا fifth feedجو ہے وہاں سے withdraw کر لیتی ہے چین اپنا بھیجے چین اپنے اڈے بنائے چین جو ہے خطے کی سیکورٹی کو انڈر رائٹ کرے دیکھیں یہ ساری باتیں ہیں اصل میں حقیقت یہ ہے کہ ۔ سلیم صافی :--نہیں اگر تو ایران کے خطرے کی وجہ سے تھی تو جب ایران کا خطرہ ٹل جائے گا عرب ممالک کو تو پھر تو ان اڈوں کی ضرورت نہیں ہوگی ناں ان کی ناں ۔ کامران بخاری :--کیا خطرہ ٹل رہا ہے مجھے تو نہیں لگ رہا دیکھیں ظاہر ہے درجہ حرارت کم کرنا پڑتا ہے ہر وقت intenseحالات نہیں رہ سکتے آپ کو جو ہے اپنا دونوں طرف سے ایک panelistنے کہا کہ ایک تھکن ہو جاتی ہے ایک فاٹیک ہوجاتی ہے تو اس کے زمرے میں پھر آپ کو تھوڑا سا پل بیک کرنا پڑتا ہے۔ جہاں معاشی جو ضروریات ہیں وہ لازمی طور پر دوستی یا جو ہے normalizationکی طرف نہیں لے جاتے اس میں ٹرسٹ کا بھی ایشو ہوتا ہے اچانک ٹرسٹ نہیں جو ہے جو ایک عدم اعتماد کا جو ہے ایک فضاء تھی جو کئی دہائیوں پر محیط ہے ٹھیک ہے وہ ختم نہیں ہوگی۔اس موقع پر علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ امید تو اچھی کرنی چاہیے ، ایک اچھا آغاز ہوا ہے جو غیر متوقع چیز تھی وہ ہو گئی ہے اب اگر حوثیوں کے ساتھ بھی اگر بات چیت ہو رہی ہے اور ہوتی ہے اور یمن کے اندر کوئی معاملہ طے پا جاتا ہے اور آپ نے دیکھا بشار الاسد جو ہے وہ ابو ظہبی پہنچے ہیں اور ابھی یہ خبریں آرہی ہیں کہ سعودی عرب کے بھی شام سے تعلقات جو ہیں وہ بہتر ہونے جارہے ہیں تو یہ ساری چیزیں جو ہیں یہ ایک مثبت سمت میں جا رہی ہیں اور لازمی بات ہے کہ ان کے سامنے بھی یہ سارے عوامل موجود ہیں اور جو ایک مین پوائنٹ ہے کہ اگر یہ جو دہشت گردی ہے یا انتہا پسندی ہے یا ان تنظیموں کی عسکری کارروائیاں ہیں یہ بند ہو جاتی ہیں اور ٹیبل کے اوپر آ کر سارے بیٹھ جاتے ہیں تو اس کے مثبت نتائج نکلیں گے اور معاشی اعتبار سے بھی یہ اگر ان کا آپس میں اتفاق ہوتا ہے جس طرح تیل کے مسئلے میں آپ دیکھیں کہ سعودی عرب اور روس کا آپس میں کئی معاملات پر اتفاق ہوتا ہے تو اس سے تو یہ معاشی اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو ایران اور سعودی عرب اور عرب ممالک آپس میں بیٹھ کر اگر کچھ چیزوں پر اتفاق کر لیتے ہیں اور پھر اس میں اگر آپ دیکھتے ہیں قطر کے ساتھ بہت اچھے ایران کے تعلقات ہیں وہ ایک جو ہیں وہ درمیان میں ہے اس کے کوئی برے نہیں ہیں ابھی جب یہ مذاکرات ہوئے تو فوراً چین سے جو ایران کے نیشنل سیکورٹی کے جو ایڈوائزر ہیں وہ ابوظہبی پہنچے انہوں نے وہاں شیخ محمد بن زید سے ملاقات کی اسی طرح بحرین ایک رہ جاتا ہے بحرین سے بھی بات چیت کسی ناں کسی معاملے میں لازمی بات ہے سعودی عرب نے اعتماد میں لیا ہوگا اور بات ہو رہی ہوگی تو میں یہ بات سمجھتا ہوں کہ جب یہ آپس میں بڑے مل بیٹھیں گے تو جو چھوٹے ہیں وہ بھی اپنی اپنی جگہ پر آجائیں گے اور اس کا فائدہ سب سے بڑا یہ ہے میں سمجھتا ہوں جو امیر محمد بن سلمان کا ویژن ہے جو ان کی سوچ ہے وہ یہی ہے کہ جو مداخلتیں ہیں یہ ختم ہوں ۔ سلیم صافی کے سوال کہ پاکستان کا کوئی کردار بنتا ہے اور اگر صلح ہوجاتی ہے ان کی تو پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا ۔ علامہ عارف حسین واحدی نے کہا کہ میں کئی مرتبہ یہ بیان دے چکا ہوں کہ اگر سعودیہ عرب اور ایران جو پاکستان کے دونوں برادر اور اچھے دوست ملک ہیں ایران ہمسایہ بھی ہے سعودی عرب بھی ہمارا مرکز ہے اور دوست ہے ہر مشکل ٹائم پر سعودی عرب کام آیا ہے اگر ان کے درمیان دوستی ہو جاتی ہے تو ایک تو امت مضبوط ہوگی اور دوسرا پاکستان میں امن آئے گا پاکستان میں استحکام یہ جو proxiesکی جنگ چل رہی ہے پاکستان میں کوئی سعودی عرب کی حمایت میں ہے کوئی ایران کی حمایت میں ہے میں سمجھتا ہوں اس کو کنٹرول کرنے میں ہمیں مدد ملے گی، ہم جو ہمیشہ اتحاد و وحدت کے حوالے سے فعال ہیں اور کام کر رہے ہیں بہت بڑی مدد ملے گی اور پاکستان میں امن آنا میں سمجھتا ہوں وہاں جب ان دونوں کے درمیان اچھے تعلقات ہوں گے تو یہ جو عرب ممالک ہیں چین کی طرف یا روس کی طرف رجحان رکھتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کے تسلط سے تنگ آچکے ہیں۔ سلیم صافی :بخاری صاحب ایک چیز کہ اگر اسرائیل اور یو اے ای کے تعلقات ہو سکتے ہیں اگر امریکا اور طالبان کی دوستی ہو سکتی ہے تو آپ اس معاملے میں اتنے نا امید کیوں ہیں ؟ کامران بخاری :--دیکھیں نہ ہی امریکا اور طالبان کی کوئی دوستی ہوئی ہے امریکا جو ہے وہ افغانستان کے اندر جو حل چاہتا تھا اس میں ناکام ہوا طالبان غالب آگئے آسان سی بات ہے جہاں تک یو اے ای اور اسرائیل کے تعلقات کی بات ہے تو دیکھیں وہ کوئی انہونی نہیں ہے وہ ان کی آپس میں کوئی لڑائی نہیں تھی ان کے کسی قسم کے بھی کوئی جھگڑے نہیں تھے اس لئے اس وجہ سے ان کے لئے بڑا آسان تھا یہاں تک کہ اردن نے 1994میں تعلقات قائم کر لیے تھے 1978میں مصر نے تعلقات قائم کیے تھے ترکی کے تعلقات اسرائیل میں 1948سے چلے آرہے ہیں تو یہ جو ملک جو آپ بات کر رہے ہیں ناں کہ سعودی عرب کی اور ایران کی دوستی کیوں ہو سکتی دیکھیں ممکنات میں تو سب کچھ ممکن ہے لیکن تجزیے کے کاروبار میں ہم امکانات کے ساتھ ڈیل کرتے ہیں ہم انٹرسٹ کو دیکھتے ہیں مفادات کو دیکھتے ہیں دیکھتے ہیں کہ ایک جو ہے طاقت کے کیا strainsہیں کیا imperativeہیں کیا ایران جو ہے اپنا اثر و رسوخ عرب دنیا میں کم کرے گا ۔سلیم صافی : سعودی عرب تو ابھی بھی امریکا کی طرف دیکھ رہا ہے تو ایران سے کیسے صلح کرے گا ؟ علامہ طاہر اشرفی : میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے حالات نے بتادیا ، جوبائیڈن کے دورے نے اور چین کے دورے نے بھی بتادیا اور ایک اور بات میں عرض کروں کہ سعودی عرب فلسطین کی آزاد خود مختار ریاست کے بغیر کبھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا ۔