سمندر قابل تجدید قدرتی وسائل کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان وسیلوں کا شمار ایسے قدرتی وسائل میں ہوتا ہے جسے بار بار استعمال کرنے کے باوجود دوبارہ حاصل کیا جاتا ہے۔ چوں کہ سمندر ان وسائل کا بنیادی ماخذ اور منبع ہے۔ اس وجہ سے قدیم زمانے سے ان کا استعمال ہونے کے باوجود ختم نہیں ہوا اور نہ ہی اس میں موجود غذائیت، نمکیات اور ماحولیات میں کوئی غیر متوازن کیفیت پیدا ہوتی ہے ،جس کی سب سے اہم وجہ وہ قدرتی حیاتیاتی اور کیمیائی کارندے ہوتے ہیں جن کی کارکردگی ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے غذائیت کی جتنی مقدار سمندر میں پانی سے الگ ہوتی ہے دوبارہ اتنی مقدار کی شمولیت ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان کے درمیان ایک قدرتی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
سمندر میں موجود تجدیدی وسائل کی موجودگی کی وجہ سے (بعض ناقابلِ تجدید وسائل بھی موجود ہوتے ہیں) ان کا استعمال روزِ اوّل سے بار بار کیا جا رہا ہے، کیوںکہ سمندر کو یہی ذخیرہ اندوز ساخت کی حیثیت حاصل ہے، جس میں مختلف اقسام کی غذائیت اور نمکیات حل پذیر اورنا حل پذیر دونوں صورتوں میں موجود ہوتے ہیں،جس کے بارے میں صدیوں پہلے یہ رائے قائم کی گئی تھی کہ پوری ارضیاتی دور یعنی ’’پرلی کیسبرین‘‘ اور ’’پیلوزویک‘‘ زمانے سے آج تک سمندر کے آبی وسائل اور اجزا ترکیبی ہیں یکسر کوئی تبدیلی نہیں ہوئی لیکن ابتدائی ’’پرلی کیسبرین‘‘ دور میں یہ معلومات واضح نہیں تھی ،کیوں کہ 2500 ملین سال پہلے آکسیجن اور نامیاتی زندگی کی نوعیت مختلف تھی لیکن 1873-76 کے درمیان ’’اوشونوگرافی‘‘ کی سائنس سامنے آئی تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ باوجود اس کے کہ عناصر کی شمولیت اور علیحدگی سمندرمیں بڑی برق رفتاری سے ہوتی ہے ،پھر بھی غذائیت نمکیات اور ماحولیات میں توازن برقرار رہتا ہے،جس کی وجہ مضبوط سپلائی سسٹم اور حیاتی کیمیائی (Bio chemical) تعاملات میں یکسانیت قراردی جاتی ہے۔ سمندر میں سپلائی سسٹم کا سب سے اہم ذریعہ دریا ہے۔
جو مختلف کیمیائی اور حیاتیاتی تحلیلی عمل سے غذائیت اور نمکیات کو سمندر تک پہنچاتا رہتا ہے۔ عمل تبخیر سے بھی خالص پانی سمندر میں واپس حل پذیر آئن کے ساتھ شامل ہوتا رہتا ہے۔ جو بہت کم ہوتی ہیں مجموعی طور پر ان ذرائع سے کل غذائیت اور نمکیات کی مقدار شامل ہوتی ہے جو سالانہ 2کروڑ ٹن شمار کی گئی ہے۔
یہ حد درجہ ممکن ہے کہ ماضی میں غذائیت اور نمکیات کی سپلائی میں کمی ہو لیکن زمینی نباتات کی افزائش اور بڑھتی ہوئی پیداواریت کی وجہ سے ’’ہیومک ایسڈ‘‘(Humic Acid)کی مقدار میں بھی اضافہ ہوا ہو ،جس سے کیمیائی عناصر کی سپلائی میں قابلِ قدر اضافہ ہو گیا ہو (خصوصی طور پر ’’ڈی ونیں‘‘ (Devonian) دور سے۔ بالائی کرسیٹیش دور (Upper Cretaceous) دور میں سطح سمندر بلند اورکشادہ ہوا ،جس کی وجہ سے خشکی کے علاقے تنگ ہوگئے اوراسی وجہ سے غذائیت اور شمولیت بھی کم ہوگئی۔ اسی طرزعمل سے شمولیت کے دوپہلو سامنے آتے ہیں۔ ایک تو کیمیکل اور غذائیت پانی میں شامل ہوتی ہیں ،پھر یہ کہ وہ کیمیائی اور حیاتیاتی تعامل کے ماتحت پانی میں حل پذیرہو کر کھلے سمندری پانی کا اٹوٹ انگ بن جاتی ہیں،جس کے بعد وہ سمندری پانی سے الگ ہو جاتی ہیں۔
مثلاً ’’ایڈزوپشن‘‘ (Adsorption)کے دوران کا جب اس کیمیائی عمل کا اثر ہوتا ہے تو اس کی سپلائی سمندری پانی میں ہو تی ہے جب یہ معدن سمندری پانی میں داخل ہوتا ہے تو ’’ایڈزوپشن‘‘یا آئن تبادلہ کی وجہ سے ایک تیز برقیہ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً کیٹائن (Cation)کی بندش کے معدن کے ساتھ ہوتی ہے۔
اس صورتحال میں ’’ایڈزوپشن‘‘ یا آئن تبادلہ (Ion Exchange) سے ایک معدن یا عنصر کا دوسرے کے ساتھ تفرق پیدا ہوتا ہے، جس کا انحصار زیادہ تر ’’آئن پوٹینشل‘‘ اور’’ہائیڈرشن‘‘ کے درجوں پر ہوتا ہے۔ سوڈیم چونکہ بہت ہی بلند’’ہائیڈراٹیڈ‘‘ ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا رجحان زیادہ جب کہ پوٹاشیم چونکہ بلند ’’ہائیڈرایٹڈ‘‘ (Hydrated)ہوتا ہے اور آسانی سے معدن کے ساتھ ایڈزوربڈ (Adsorbed) ہو جاتا ہے اور تیزی سے سمندری پانی سے الگ ہو جاتا ہے۔
سمندر میں غذائیت اور نمکیات کو شامل کرنے کا ایک اہم میکنیزم نامیاتی ترتیب کا بھی ہوتا ہے۔ نامیے اندرونی کیمیائی ماحول کو خود تیار کرتے ہیں اور اپنی توانائی کو ان معاون کی ترتیب میں استعمال کرتے ہیں جو عام طور پر سمندری پانی میں مستحکم نہیں ہوتے۔ کاربونیٹ اخراجی نامیے مثلاً فورامینی فیرا، موسکا معدن ’’آراگونائیٹ‘‘ یا لیکسایٹ کی تریب اُن حالت میں بھی کرتا ہے جب ان معدن کے حوالے سے پانی ٹھنڈا اور ناسیرشدگی کے مرحلے میں ہوتا ہے۔
ڈائی ایٹم (Diatom) سلیکا کی تریب میں بہت ہی موزوں ہوتا ہے یہ غیر متشکل سکیلن ڈائی آکسائیڈ ہوتا ہے جو تریب کے حوالے سے بااثر ہوتا ہے۔ جب کہ سمندری پانی ’’فوٹوزون‘‘ کے قریب عام طور پر سپلائی کی مناسبت سے تیزی کے ساتھ کم ہو جاتا ہے۔ نامیوں کی شکست و ریخت کا عمل ان کے دورِ حیات مکمل ہونے کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے اور نامیاتی نامیے’’تکشیدلی عمل کی زد میں آجاتا ہے۔ اگر پانی تحنیف ناہو مثلاً ڈائی ایٹم سمندر کی گہرائی والے حصوں میں پہنچنے سے پہلے 99.99 فی صد حل ہوجاتے ہیں۔ یعنی اگر سمندری پانی میں وہ معادن سیر شدحالت میں موجود نہ ہوں، جس سے ان کی تشکیل ہوتی ہے تو خول (Shells) بھی اس میں تحلیل ہو جاتے ہیں۔
ان کے کچھ مقدار میں رسوبوں (Sedements)میں محفوظ ہوتے ہیں۔ ضیائی تالیفی نامیے جو سطحی پانی میں موجود ہوتے ہیں۔کاربن ڈائی آکسائیڈ کو استعمال کرتے ہیں اور آکسیجن کے ساتھ نامیاتی مادّے پیدا کرتے ہیں۔ یہ پی ایچ (PH)کو بلندرکھتا ہے۔ اسی وجہ سے کاربونیٹس مستحکم رہتے ہیں یا پھرگرم پانی میں سست رفتاری سے حل ہوتے ہیں۔ لیکن گہرائی کے ساتھ درجۂ حرارت میں کمی واقع ہوتی ہے، جس سے کاربن ڈائی آکسائیڈ دبائو میں ہو تا ہے، جس کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی حل پذیری میں گہرائی کے ساتھ اضافہ ہو جاتا ہے البتہ ’’فوٹو زون‘‘ کے نیچے آکسیجن استعمال ہوتا ہے۔
جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور غذائیت آزاد ہو جاتے ہیں۔ وہ گہرائی جہاں پر کاربونیٹ کی حل پذیری نسبتاً تیزی سے بڑھ جاتی ہے۔ اسے ’’آیوسوکلائن‘‘ (Isocline)کہتے ہیں۔ جہاں پر محلول کی شرح کاربونیٹ کی رسوب کارلی کے مقابلے میں زیادہ ہو جائے تو اسے کاربونیٹ طلافیہ گہرائی (Carbonate Compensation Depth) کہا جاتاہے۔ محلول کا یہ عمل غذائیت کو آزاد کر دیتے ہیں۔ جو پانی کے اوپری اٹھان(Upwelling)کے ذریعہ سطح سمندر پرآجاتے ہیں۔ جو عام طور پر نائٹروجن، فاسفورس وغیرہ پر مشتمل ہوتے ہیں۔
اس طرح نمکیات اور غذائیت سمندری پانی میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔ جسے نامیے بار بار استعمال کرتے رہتے ہیں۔ ان ذرائع سے سمندر میں سالانہ حیاتی پیداواریت خشکی کے مقابلے میں نسبتاً کئی گنا زیادہ ہوتی ہیں۔ نامیاتی پیداوار کا کسری حصہ بھی جو سمندری چٹانوں کے رسوب میں محفوظ ہوتے ہیں الگ ہو کر غذائیت فراہم کرتے ہیں لیکن مزید غذا اور غذائیت خشکی سے دریا کے توسط سے شامل ہوتے ہیں جو مقدار میں یقینا ًکثیرمقدار میں ہوتے ہیں۔
یہاں پر ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ غذائیت اس وقت تک سمندر میں شامل نہیں ہوسکتا جب تک رسوب پانی سے اوپر آکر عمل تسرف (Erosion) اور موسم زدگی کے حیاتیاتی،کیمیائی اور طبعی تعاملات کی زد میں نہ آئے۔ نا میاتی پیداوار کی وہ مقدار جو رسوب میں تہہ نشین ہوتی ہیں ان کا تعلق پیداوار شرح کو محلولی شرح سے مختص کرنے کے بعد ہوتا ہے۔ سمندری تہہ پر نئی افزائش کی نشوونما (Authegenic) پانے والی معدن بھی سمندری تہہ پر نئی افزائش (Authegenic) پانے والی معادن بھی سمندری پانی سے عناصرکو الگ کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے سب سے اہم زیولائیٹ(Zeolite) ہوتے ہیں،جس کی نشوونما وہاں پر ہوتی ہے جہاں پر سمندر بلند سلیکیٹ یا ایلمونیم عنصر پر مشتمل ہوتا ہے۔
خصوصی طور پر آتشی معادن (گلاس) لیکن دورِ حاضر کی تحقیق نے اس حقیقت کو اور بھی واضح کردیا ہے کہ سمندر میں غذائیت کی فراہمی اور متوازن کیفیت برقراررکھنے میں صرف حیاتیاتی اور کیمیائی ترسیب کافی نہیں ہے بلکہ کچھ ارضی حیاتیاتی اورکیمیائی تعامل سمندری پہاڑی سلسلوں (Spreading Ridges)کے اطراف میں بھی دریافت ہوئی ہیں ،کیوںکہ بسالٹ (Basalt) سے خارج ہونے والے حرارت سمندری پہاڑی سلسلوں کے اوپر سے گزرتی ہیں۔ اس صورتحال میں سمندری پانی کا تعامل گرم بسالٹ سے ہوتا ہے ۔چونکہ سمندری پانی میں سلفر موجود ہوتا ہے جو دھاتوں کی ترسیب کا سبب بنتا ہے جو ’’بسالٹ‘‘ سے سلفائیڈ کی صورت میں حل ہوتا ہے۔ مثلاً آئرن سلفائیڈ اورکاپر سلفائیڈ۔