بھارت پر ان دِنوں پھر جنگی جنون طاری ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں پہلگام کے مقام پر سیاحوں پر حملہ ہونے کے بعد نریندر مودی کی حکومت اور بھارتی ذرایع ابلاغ پاکستان کے خلاف نہ صرف زہر اگل رہے ہیں بلکہ پاکستان کو سبق سکھانے کی بات ہذیانی انداز میں کی جارہی ہے۔ بھارتی حکومت تمام بین الاقوامی معاہدے اور سفارتی آداب بھلاکر جنونی انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔
وہ بغیر کسی ٹھوس ثبوت اور شواہد کے پاکستان کو اس حملے کا ذمے دار قرار دے رہی ہے۔ اس جنونی کیفیت میں نریندر مودی کبھی پاکستان کو سبق سکھانے کی بات کررہے ہیں، کبھی انہوں نے سندھ طاس معاہدہ ختم کرکے پاکستان کو بنجر بنانے کا سوچا، کبھی پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کرنےکی بات کی اور لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کئی روز سے بلاجواز فائرنگ کررہی ہے۔
ماضی میں مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے مقام پر واقع بھارتی فوج کے مرکز پر حملہ ہونے کے بعد بھی بھارتی وزیرِ اعظم نے سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی سے متعلق اجلاس کے بعد کہا تھا کہ خون اور پانی ساتھ ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ انہوں نے بھارت کے آبی وسائل سے متعلق محکمے کے اعلٰی اہل کاروں سے ملاقات میں پانی کی تقسیم پر پاکستان کے ساتھ معاہدے پر غور کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
اب بھی بھارت نے یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدہ معطّل کردیا ہے۔تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ساتھ دریاؤں کے پانی کی تقسیم کے اس معاہدے کے سلسلے میں بھارت کوئی نہ کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔
بھارت کےسخت گیر موقف رکھنے والے ماہرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق اس معاہدے کے تحت بھارت کو جتنا پانی استعمال کرنا چاہیے وہ اتنا پانی استعمال نہیں کر رہا، لیکن اب وہ اپنے حصے کا پورا پانی استعمال کرے گا۔
بھارت کے جنگ جُو سیاست دانوں کا موقف ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین پانی کے مسئلے کے حل کے لیے 1960 میں ہونے والے دو طرفہ معاہدے پر اس وقت تک کسی بھی نوعیت کے مذاکرات نہیں کرنے چاہییں جب تک پاکستان بھارت میں دہشت گردی کی سرپرستی بند نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں اُڑی کے حملے کے بعد بھارت کےسخت گیر عناصر بھارت سے پاکستان جانے والے دریاؤں کے پانی کارخ بدلنے پر زور دے رہے تھے۔
سندھ طاس معاہدے کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ چوں کہ عالمی بینک، چین، روس سمیت کئی اہم ممالک اس معاہدے کے ضامن ہیں اس لیے بھارت اس میں یک طرفہ طور پر کوئی ردوبدل نہیں کرسکتا۔ بھارت اس میں تبدیلی کے لیے پاکستان کو ساتھ لیے بغیر عالمی بینک سے بھی رجوع نہیں کرسکتا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس حقیقت کا ادراک ہونے کے بعد بھارت نے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ اب اس نے پالیسی تبدیل کرلی ہے جس کے تحت وہ پاکستان کے لیے مخصوص دریاؤں، سندھ، چناب اور جہلم کا زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کرے گا تاکہ پاکستان کو نقصان پہنچایا جاسکے۔
ذرایع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق اُڑی کے واقعےکے بعد نریندر مودی نے جب معاہدے کی دستاویز دیکھی تو ان کے ارمانوں پر اوس پڑگئی تھی۔ انہیں بتایا گیا کہ معاہدے کی خلاف ورزی پر پاکستان کا دیرینہ دوست چین اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیوں کہ دریائے سندھ کا سرچشمہ چین ہی کے علاقے میں ہے۔بھارتی میڈیا کے مطابق چین بھارت کو پہلے ہی یہ پیغام دے چکا ہے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے والے کو نتائج بھگتنا ہوں گے۔
رپورٹس کے مطابق چین یہ عندیہ دےچکا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ ٹوٹنے کی صورت میں وہ سندھ اور ستلج کے دریاؤں کا پانی بھارت کی طرف جانے سے روکنے میں آزاد ہوگا۔ معاہدہ ختم ہونے کی صورت میں چین دریائے سندھ کا رخ موڑ سکتا ہے۔ اس سے بھارت دریا کے 36فی صد بہاؤ سے محروم ہو جائے گا۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اس صورت حال میں مودی سرکار سندھ طاس معاہدہ تو نہیں توڑ سکتی، لیکن مقبوضہ کشمیر میں بہتا خون ضرور روک سکتی ہے۔ یعنی وہ پانی بہنے دے اور مقبوضہ کشمیر میں بہتا خون روکے۔
بھارت کی پاگل پن کی حدتک یہ خواہش ہے کہ وہ مقبوضہ اور آزاد جموں و کشمیر کو باقاعدہ طورپر بھارت کا حصّہ بناکر اور دیگر اقدامات کے ذریعے پاکستان کی طرف آنے والے دریاوں کا پانی بند کرکے پاکستان کو بنجر بنادے۔ حالاں کہ ستمبر 1960میں دونوں ملکوں کے درمیان پانی کی تقسیم کا بین الاقوامی معاہدہ طے پایا تھا جسے سندھ طاس معاہدہ کہا جاتا ہے۔
قِلّتِ آب دنیا بھر کا مسئلہ
یہ صورت حال ہمارے لیے بہت اہم پیغام ہے۔ ہمیں اسے پوری طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔بہت واضح پیغام یہ ہے کہ میٹھے پانی کی قِلّت صرف ہمارا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔
مختلف ممالک میں بڑے بڑے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے والے لاتعداد ڈیمز اور نہروں کی تعمیر کی وجہ سے اِن دریاؤں کے زیریں حصے پر واقع ممالک پانی سے محروم ہو رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان ملکوں میں جنگوں کے خطرات بڑھ رے ہیں۔ دنیا کی ایک چوتھائی آبادی کو اب سال میں سے کم از کم ایک مہینہ پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے اور بہت سے لوگوں کو دوسرے ممالک میں زیادہ محفوظ زندگی گزارنے پر مجبور کر رہا ہے۔
ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی ہائیڈروپولیٹکس کی ماہر کٹی وان ڈیر ہیجڈن کا کہنا ہے کہ اگر کہیں پانی نہیں ہے تو لوگ وہاں سے نقل مکانی شروع کر دیں گے۔پانی کی قلت دنیا کی چالیس فی صد آبادی کو متاثر کرتی ہے اور اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک کی پیش گوئیوں کے مطابق2030تک خشک سالی 70 کروڑ افراد کو بے گھر ہونے کے خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر پانی نہیں ہے تو سیاست دان اس معاملے پر اپنی سیاست کرنے کی کوشش کریں گے اور وہ اس پر لڑنا شروع کر سکتے ہیں۔
بیسویں صدی کے دوران عالمی سطح پر پانی کا استعمال آبادی میں اضافے کی شرح سے دگنا بڑھ گیا۔ آج پانی کی یہ کمی کئی شہروں کی سیاست میں کلیدی معاملہ بنتا جا رہا ہے۔ روم سے کیپ ٹاؤن، چنئی سے لیما تک، اور اب پانی کی راشننگ تک کا مرحلہ درپیش ہے۔
پانی کے بحران کو ورلڈ اکنامک فورم کے عالمی خطرات کے لحاظ سے ’’امپیکٹ لسٹ‘ ‘میں 2012کے بعدسے پہلے پانچ بڑے معاملات کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ 2017 کی شدید خشک سالی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد کے دور کا بدترین انسانی بحران پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس دوران افریقا اور مشرق وسطیٰ کے دو کروڑ افراد خوراک کی کمی اور تنازعات کے باعث گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
پانی کی وجہ سے تنازعات بڑھ رہے ہیں
امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر اوکلینڈ میں قائم پیسیفک انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ پیٹر گلیک نے تین دہائیوں میں پانی کی قلت، تنازعے اور ہجرت کے درمیان تعلق کا مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پانی پر تنازعات بڑھ رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بہت ہی کم استثنیٰ کے ساتھ، کوئی بھی پیاس سے نہیں مرتا۔ لیکن زیادہ تر لوگ آلودہ پانی یا پانی تک رسائی کے تنازعات میں مر رہے ہیں۔گلیک اور ان کی ٹیم پانی کے تنازعات کی تاریخ کا مطالعہ کر رہی ہے۔
ان کی تحقیق کے مطابق پانی کے 929 بڑے اور چھوٹےتنازعات کا ایک سلسلہ بابل کے بادشاہ حمورابی کے دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے، جو طے نہیں پائے۔ محققین کہتے ہیں کہ اس فہرست کے مطابق، درج کردہ تنازعات مکمل طور پر جنگوں سے لے کر پڑوسیوں کے درمیان تنازعات کی مختلف صورت اختیار کرتے رہے ہیں۔ لیکن جو بات وہ ظاہر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ پانی اور تنازعے کے درمیان تعلق کافی پے چیدہ معاملہ ہے۔
گلیک کہتے ہیں کہ ہم نے پانی کے تنازعات کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔اوّل، تنازع ایک محرک کے طور پر،جہاں تشدّد پانی کی رسائی اور کنٹرول کے تنازعات سے منسلک ہوتا ہے۔ دوم، تنازع تصادم میں ایک 'ہتھیار کے طور پر، جہاں پانی یا پانی کے نظام کو تنازعات میں ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، جن میں ڈیمز کے ذریعے زیریں علاقوں کے سیلابی بہاؤ میں رہنے والی آبادیوں کو پانی سے محروم کیا جاتا ہے۔ سوم، جہاں تنازعات کے دوران آبی وسائل یا ٹریٹمنٹ پلانٹس یا پائپ لائنز کو تنازعات میں 'تباہ کیا جاتا ہے یا 'اہداف کے طور پر نشانہ بنایا جاتا ہے۔
تاہم ان کے اور ان کے ساتھیوں نے جو ریکارڈ مرتب کیا ہے اس سے پتا چلتا ہے اور یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تنازعات کا بڑا حصہ زراعت سے متعلق ہے۔ یہ شاید حیرت کی بات نہیں ہے کیوں کہ زراعت میں میٹھے پانی کے استعمال کا70فی صدحصہ ہے۔
مثال کے طور پر افریقا کے نیم بنجر ساحلی علاقے میں چرواہوں اور فصلوں کے کاشت کاروں کی اپنے جانوروں اور فصلوں کے لیے درکار پانی کی کم فراہمی پر شدید جھڑپوں کی باقاعدہ اطلاعات ہیں۔ یعنی جیسے جیسے پانی کی مانگ بڑھتی ہے، ویسے ویسے ممکنہ تنازعات کے امکانات بھی بڑھتے ہیں۔
ورلڈ ریسورس انسٹی ٹیوٹ کی 'اس موضوع پر تحقیق واقعی پانی کے تنازعات سے وابستہ تشدد کے واقعات کی تعداد کو وقت کے ساتھ بڑھتا ہوا دکھاتی ہے۔ آبادی میں اضافے اور معاشی ترقی کی وجہ سے دنیا بھر میں پانی کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ دریں اثنا آب و ہوا کی تبدیلی پانی کی فراہمی کو کم کر رہی ہے اور کئی جگہوں پر بارشوں کو بے ترتیب بنا رہی ہے۔
ترکی، شام، عراق اور مغربی ایران پر مشتمل وسیع دجلہ و فرات کے دریائی نظام کے مقابلے میں پانی کے دباؤ اور آب و ہوا کی تبدیلی کا دہرا اثر کہیں اور زیادہ واضح نہیں ہے۔ سیٹلائٹ امیجری کے مطابق، یہ خطہ دنیا کے کسی بھی مقام کے مقابلے میں تیزی سے زمینی پانی کھو رہا ہے۔ اور جب کچھ ممالک پانی کی فراہمی کو محفوظ بنانے کے لیے مایوس کن کوششیں کرتے ہیں، تو ان کے اقدامات ان کے پڑوسیوں کو متاثر کر تے ہیں۔ شمالی بھارت کے میدان دنیا کے بہترین زراعتی علاقے میں شمار ہوتے ہیں، لیکن آج وہاں کے دیہات کے درمیان پانی کی کمی کی وجہ سے اکثر و بیش تر لڑائیاں ہوتی رہتی ہیں۔
جون 2019 میں جب عراقی شہر 50 ڈگری سینٹی گریڈ (122 فارن ہائیٹ) کی لُو کی لپیٹ میں آئے تھے تو ترکی نے کہا کہ وہ دجلہ کے ابتدائی حصے میں اپنے الیسو ڈیم کو دریا کا پانی روک کر بھرنا شروع کر رہا ہے۔ یہ دجلہ اور فرات کے کنارے 22 ڈیموں اور پاور پلانٹس کی تعمیر کے لیے ترکی کی جانب سے ایک طویل عرصے سے چلنے والے منصوبے میں سے ایک تھا۔
فرانس کے 'انٹر نیشنل آفس فار واٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق، ترکی کی ان تعمیرات اور شام کی ریاست کے اپنے اقدامات کے اثرات کو بھی شامل کر لیا جائے تو انہوں نے دجلہ کے زیریں حصے کے ملک عراق میں پانی کے بہاؤ کو نمایاں طور پر متاثرکیا ہے۔اور اسی سلسلے میں ایران کا دعویٰ ہے کہ جب ترکی کا 'گونی دوگو انادولو پراجیکٹ مکمل ہو جائے گا تو اس میں90ڈیم اور60پاور پلانٹس شامل ہوں گے۔
پانی کی تقسیم کے معاہدے اس قسم کے تنازعات کو کم کرنے کا ایک عام طریقہ ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد اس قسم کے 200 سے زیادہ معاہدوں پر دست خط ہو چکے ہیں، جیسے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960کا سندھ طاس معاہدہ اور اسرائیل اور اردن کے درمیان ایک معاہدہ، ان کے امن معاہدے سے پہلے طے پا چکا تھا۔ لیکن اقوام متحدہ کی طرف سے ایک دہائی سے زائد عرصے سے کوشش کی گئی ہے کہ وہ بین الاقوامی دریاؤں اور جھیلوں پر عالمی آبی کنونشن متعارف کرائے جس کے نتیجے میں صرف 43 ممالک اس کی پابندی کرنے پر راضی ہوئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جدید معاہدوں میں خشک سالی کے خاتمے کے پروٹوکول کو شامل کرنے کی بھی ضرورت ہوگی تاکہ جب حالات بدتر ہوجائیں تو زیریں ممالک کے بحرانوں میں پانی میں کمی کے خدشات اور تنازعات کے حل کے طریقہ کار کو یقینی بنایا جاسکے۔
شدید تر ہوتا مسئلہ
دنیا بھر میں 66 کروڑ 30 لاکھ افراد ایسے ہیں جو صاف پانی سے محروم ہیں اور ان میں اسّی فی صد یعنی 52 کروڑ 20 لاکھ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں۔ان کی اکثریت ایسے ملکوں میں بستی ہے جنہیں پہلے ہی شدید موسمی حالات مثلاً سمندری طوفانوں، سیلابوں اور خشک سالی کا سامنا رہتا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں سے متوقع شدید موسمی حالات کی صورت میں ان افراد کے لیے مشکلات میں کئی گناہ اضافہ ہو سکتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا میں ایسے تقریباً 400علاقے ہیں جہاں کے رہنے والے شدید آبی مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی آبادی، گوشت خوری میں اضافے اور بڑھتی ہوئی اقتصادی سرگرمیوں نے دنیا کے پانی کے ذخائر پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پانی کی کمی لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کر دے گی اور اس کی وجہ سے کشیدگی اور سیاسی عدم استحکام پیدا ہو گا۔
چلی سے لے کر میکسیکو تک، افریقا سے لے کر جنوبی یورپ کے سیاحتی مقامات تک آبی مسائل میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ آبی مسائل سے درپیش علاقوں یعنی ’’واٹر اسٹریسڈ‘‘ علاقوں کا تعین اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ وہاں موجود پانی کے وسائل کے مقابلے میں وہاں زیرِ زمین ذخائر اور دیگر سطحی ذخائر سے کتنا پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔
ڈبلیو آر آئی کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی، یعنی تقریباً 2.6 ارب لوگ، ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جو کہ ’’ہائیلی واٹرا سٹریسڈ‘‘ (شدید آبی مسائل کے شکار) ممالک قرار دیے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 1.7 ارب افراد 17 ایسے ممالک میں ہیں جنہیں ’’انتہائی شدید آبی مسائل‘‘ کا سامنا ہے۔
آبی مسائل کے لحاظ سے مشکل ترین حالات کا مشرقِ وسطیٰ کے درجن بھر ممالک کو سامنا ہے۔ پاکستان، اریٹیریا اور بوٹسوانا کو بھی انتہائی شدید آبی مسائل کے شکار ممالک قرار دیا جا چکا ہے۔ تاہم بھارت کے بارے میں نشان دہی کی گئی ہے کہ اسے پانی کےاستعمال اور اس کی انتظام کاری کے حوالے سے انتہائی اہم چیلنجز کا سامنا ہے جو اس کی عوامی صحت اور اقتصادی ترقی سمیت ہر چیز پر اثر انداز ہوں گے۔
ڈوسری جانب مستقبل کے بارے میں ماہرین کی تیارکردہ رپورٹس کہتی ہیں کہ مستقبل میں ہیضہ، ملیریا اور ڈینگی جیسی بیماریوں کے زیادہ پھیلنے کے خطرات بڑھ جائیں گے اور زیادہ لوگ خوراک کی کمی کا شکار ہوں گے۔درجہ حرارت میں اضافے کے ساتھ کسانوں کو خوراک پیدا کرنے اور مال مویشیوں کو پالنے میں مزید مشکلات پیش آئیں گی۔
ہم کہاں کھڑے ہیں؟
پاکستان میں میٹھا پانی روز بہ روز کم ہوتا جارہا ہے ۔ یہ بات ہم برسوں سے سنتے چلے آرہے ہیں، لیکن اس مسئلے کےپائے دار حل کے لیے کسی موثر یا ٹھوس انتظام کی بابت ریاست کیا کررہی ہے، بد قسمتی سے اس بارے میں کچھ خاص اشارے نہیں ملتے۔ لیکن جس طرح یہ بحران بڑھ رہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے کہ جلد ہی نلوں سے نکلنے والے پانی کا نظارہ صرف امیروں کو نصیب ہو۔
ہمارے ہاں آب پاشی میں قیمتی پانی بے دریغ استعمال ہوتا ہے، لیکن فائدہ بہت کم ہوتا ہے۔ ہمارا تقریباً پچّانوے فی صد تازہ پانی زراعت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن میں زرعی پیداوار سب سے کم ہے۔ فصلوں کو بہت زیادہ پانی دینے کے باوجود پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار بہت کم ہے۔ اس کے برعکس بھارت میں پیداوار کی شرح 0.39 کلوگرام فی مکعب میٹر اور چین میں 0.82 کلوگرام فی مکعب میٹر ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان نے اپنے آب پاشی کے علاقے کو (برطانوی سامراج کے زمانے سے) بڑھانے کا آغاز کیا، لیکن پھر وقت کے ساتھ ان قطعوں سے مزید فائدہ اٹھانے کے بجائے، زیادہ زمین کو سیراب کرنے کی کوشش کی۔ چناں چہ آج زراعت کے پانی کو دیگر سماجی اور اقتصادی شعبوں میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرنا ریاست کا بہت بڑا چیلنج ہے۔ لیکن یہ آسان نہیں ہے کیوں کہ اس میں پانی کے بہتر انتظام اور سائنسی علوم میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی اور اس سب کے لیے عزم کے علاوہ وسائل کی بھی ضرورت ہے۔
حالاں کہ ایسے کئی ممالک ہیں جن میں پاکستان کے مقابلے میں کم پانی ہونے کے باوجود جی ڈی پی اور معیار زندگی بہت بہتر ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پانی کی قلت ہوتے ہوئے بھی اچھا معیار زندگی ممکن ہے۔ دراصل ان ممالک میں بہتر معیار زندگی معیشت میں زراعت کا تناسب کم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں ایسے کئی ممالک ہیں۔
پھر مصر کی مثال لے لیں جہاں پانی کی دست یابی کا کوٹا کم ہوتے ہوتے سالانہ بنیاد پر 666 مکعب میٹر ہوگیا ہے، یعنی تینتالیس برسوں میں ساٹھ فی صد سے زاید کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود مصر میں 2016ء میں جی ڈی پی 3,685 ڈالر فی کس تھا، جبکہ پاکستان میں صرف 1,441 ڈالر تھا۔یادرہے کہ مصر کی معیشت میں زراعت کا حصہ محض دس فی صد ہے۔
اسرائیل صحرا کے بیچوں بیچ واقع ہے، لیکن وہ جدید ٹیکنالوجی، اقتصادی وسائل اور سیاسی عزم کے بل بوتے پر اپنی زمین کے تقریبا چالیس فی صد حصےکو فضلے کے پانی سے سیراب کرنے کی صلاحیت پیدا کرچکا ہے۔ ہم ان کے شفدان ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ فیسیلٹی سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اس منصوبےکے ذریعے جنوبی اسرائیل میں واقع صحرائے نقب کو سالانہ چودہ کروڑ مکعب میٹر پانی فراہم کرکے پچاس ہزار ایکڑ زمین کو سیراب کیا جاتا ہے۔
ماہرین ماحولیات ہمیں متنبہ کرچکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی کے زیرِ اثر دنیا بھر میں درجۂ حرارت بڑھنے کے باعث گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، لیکن پاکستان کے شمالی علاقوں کی برفانی چوٹیوں پر درجۂ حرارت کم ہونے کی وجہ سے گلیشیئرز بڑھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پر سائنس دانوں کے لیے تو شاید یہ اچھی خبر ہو، لیکن عام پاکستانیوں کے لیے یہ خبر اس لیے اچھی نہیں ہے کہ گلیشیئرز پگھلنے کی رفتار کم ہونے کی وجہ سے دریاؤں میں پانی کم آ رہا ہے اور آنے والے برسوں میں پاکستانی دریاؤں میں پانی کی سات فی صد تک کمی دیکھی جا سکتی ہے۔یادرہے کہ یہ گلیشیئرز دنیا بھر میں بر اعظم انٹارکٹیکا کے علاوہ دنیا بھر میں سب سے بڑے گلیشیئرز مانے جاتے ہیں اور پاکستان کو پانی کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان پانی کی شدید قلت والے ممالک میں سے ایک ملک ہے جو پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے ۔ پاکستان میں 1947میں پانی کی دست یابی 5600 کیوبک میٹر فی کس تھی جو اب کم ہو کر 1100کیوبک میٹر فی کس تک آ گئی ہے اور اگر پانی ذخیرہ کرنے کے بہتر انتظامات نہ کیے گئے تو 2050تک پانی کی دست یابی مزید کم ہو کر 900کیوبک میٹر فی کس تک آ جائے گی جس سے صنعت و تجارت سمیت معیشت کے تمام شعبے مزید مشکلات کا شکار ہو ں گے۔
ماہرین کے مطابق پانی کی بڑھتی ہوئی قلت سے ملک کی اقتصادی ترقی پر بہت منفی اثرات مرتب ہوں گے کیوں کہ اس سے زرعی شعبہ جو ملک کی قومی ترقی میں21فی صد حصہ رکھتاہےاس کی پیداوار بری طرح متاثر ہو گی ۔پانی کی کمی کی وجہ سے خوراک اور توانائی کا بحران بھی شدت اختیار کر جائے گا۔
وہ حکومت پر زور دیتے ہیں کہ ہہ ہنگامی بنیادوں پر اس مسئلے کے پائے دار حل کے لیے کام کرے کیوں کہ اگر مزید تاخیر کی گئی تو معیشت کی ترقی کا پہیہ رک سکتا ہے۔ ہمارا آب پاشی کا نظام تقریبا 97فی صد پانی استعمال کرتا ہے، لہذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ حکومت اس نظام کو جدید بنائے تا کہ پانی کے غیر ضروری زیاں کو روکا جا سکے۔