• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نگراں و ترتیب: رضیہ فرید(میگزین ایڈیٹر، جنگ کراچی)

(تصاویر: بہ شکریہ، پی آئی ڈی ، اسلام آباد)

پیج ڈیزائنر: نوید رشید

آج کل پاکستان کا سیاسی منظر نامہ مایوسی کا شکار ہے۔ ہر طرف اضطراب اور ایک عجیب گو مگو کی سی کیفیت ہے۔ سیاست کے دریچے کوچۂ عدالت میں کھل رہے ہیں۔ قوم مضطرب ہے کہ آنے والے کل میں کیا ہونے والا ہے۔ سیاست اپنی کون سی قلابازی یا نیرنگی دکھاتی ہے۔ ایک طرف حکم راں اتحاد اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف تلخ، زہریلی سیاسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف ’’جشن آئین‘‘ کی تقریبات ہو رہی ہیں۔ گزشتہ پانچ برس سے سیاست کا چلن ہی بدل گیا ہے۔ 

سیاسی قائدین ایک دوسرے کے خلاف انتہائی غیر مہذب اور نامناسب زبان استعمال کر رہے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف تلخ اور نہ ختم ہونے والی سیاسی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے سے بات چیت سے گریزاں ہے۔ 1972-73ء میں جب پاکستان کا ائین بنایا جارہا تھا تو حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات میں سخت کشیدگی تھی، باہمی اعتماد کا فقدان تھا۔ اس کے باوجود فریقین ایک ایک قدم پیچھے ہٹ گئے۔ آئین کی تیاری سمیت تمام اہم قومی امور طے کرنے میں دونوں نے لچک کا مظاہرہ دکھایا۔ 

بھٹو اپوزیشن کی حمایت کے بغیر بھی آئین کی منظوری لے سکتے تھے، لیکن ان کی خواہش تھی کہ اپوزیشن بھی آئین کی منظوری کے عمل کا حصہ بنے اور پھر سب نے دیکھا کہ آئین 73ء اتفاق رائے سے منظور ہوگیا۔ آج جب ہم جشن آئین منا رہے ہیں تو حکومت اور اپوزیشن کے جھگڑے ’’ساس بہو‘‘ کے جھگڑوں سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لگتا ہے کہ سب ہی آئین کا تیا پانچہ کرنے میں مگن ہیں۔

ذرا ایک نظر ماضی میں جھانکیں۔ یہ حقیقت ہے کہ،ہر نئی سیاست کے لئے بنیادی پتھر آئین ہوتا ہے، اس کے بغیر، ریاست کا وجود غیر مستقل ہیچ میں معلق رہتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ، نو سال تک یہ سرزمین بے ائین رہی، اس آئینی خلا کے دور میں ایک گل یہ کھلا یا گیا کہ بعض سیاست دانوں کو آمادہ کیا گیا کہ اس سے پہلے کہ ملک کو آئینی راستے پر ڈال کر آگے چلیں، ایک دوسرےکی جڑ اکھاڑنے میں لگ جائیں۔ 

اس حرکت کی تہہ میں یقیناً یہ خیال کار فرما تھا کہ سیاست دانوں کی آپس کی کش مکش کا مجموعی اثر ہو گا کہ ملکی فضا مسموم، سیاست پراگندہ اور قومی تنظیم تتر بتر ہو جائے گی، اس طریقے سے آئینی خلا اس وقت تک قائم رہے گا جب تک وہ اپنے عزائم کی تکمیل نہیں کر لیں گے۔

ہرقوم کے لئے لازم ہوتا ہے کہ جب اس کو آزادی ملے تو اسے مستحکم اور باثمر بنانے کے لئے اپنے اندر اتحاد پیدا کرے، یہ ہرگز نہیں ہوتا کہ آزادی ملتے ہی اپنی باہمی کدورتوں کی بناء پر سیاسی اغراض کے لئے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو جائیں ،قوم کی اس مجموعی قوت کو نقصان پہنچائیں جو بغیر اتحاد و یگانگت کسی مقصد کو حاصل کرنے کے قابل ہی نہیں رہتی۔ غور کریں جب بھارت آزاد ہوا تو اس نے کوشش کی کہ ماضی کی تلخیاں بھلا کرمخالف اور موافق سے اس کی صلاحیت کے مطابق قوم کے لئے کام لیا جائے۔ 

اچھوتوں اور کانگریس کے درمیان کش مکش تھی۔ ڈاکٹر امبیدکر، اچھوتوں کے قائد تھے۔ انہوں نے گاندھی جی کی زندگی اس حد تک تلخ کر رکھی تھی کہ گاندھی کو ’’مرن برت‘‘ رکھنا پڑا تھا،مگر جب کانگریس راج شروع ہوا تو اسی دشمن ’’امبید کر‘‘ کو وزیر بنا کر بھارت کا آئین اس سے لکھوا گیا۔ راجہ گوپال آچاری گاندھی سے شاکی، نہرو اور پیٹل کی پالیسیوں کے شد ید مخالف تھےلکین نہرو نے انہیں آزاد ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنا دیا۔ 

سرگرجاشنکر باجپائی انگریز دور کا وہ افسر تھا جس نے قدم قدم پر کانگریس کی مخالفت کی تھی،اس میں کچھ خاص صلاحیتیں تھیں، لہٰذا اسے کانگریس کابینہ کا سیکرٹری جنرل بنا کر اس پوزیشن میں کر دیا گیا کہ ہر داخلی خارجی معاملے میں اس کا مشورہ حرف آخر سمجھا جاتا،نہ صرف یہ بلکہ اسی دور کی کانگریسی لغت سے ’’غدار، ملک دشمن، تخریب کار جیسے تفریق بڑھانے والے الفاظ نکال دیئے گئے اور اپنی حکمت عملی کی بنیاد اس اصول پرر کھی کہ ماضی میں سیاست میں اختلافات کا ہونا ناگزیر تھا، مگر اب جب بھارت آزاد ہو گیا ہے تواس کا کوئی باشندہ غدار، ملک دشمن یا تخریب کار نہیں ہو سکتا‘‘۔ لیکن ہمارے ہاں قائد کے انتقال کے فوراً بعد ہی غدار سازی کے کارخانے کھل گئے۔ 

اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ رہی کہ جس شخص کو آج غدار کہا گیا ، کل اسی کو بشرط ضرورت گلے لگا لیا، کوئی اہم عہدہ دے دیا گیا، غرض اکھاڑ پچھاڑ ، الٹ پلٹ، باہمی آبرو ریزی اور دل آزاری کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ایسا شروع ہوا کہ کسی نے نہ سوچا کہ اس کے نتائج آگے چل کر قومی اتحاد اور جمہوریت کے لئے کتنے بھیانک ہو سکتے ہیں۔ کہتے تو سب تھے کہ وہ قوم کو سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانا چاہتے ہیں، مگر عملاً اس دیوار میں ایسے شگاف ڈالتے رہے جس کی مرمت ہو سکی، نہ ہی ان کو چھپایا جا سکا۔

لمحہ بھر ہی کو سہی یہ بھی سوچیں کہ آئین جو فرد کے تحفظ ،آزادیٔ رائے اور منصفانہ عدالتی کارروائی کے حق کی ضمانت دیتا ہے ،تعلیم کے حق کی بات کرتا ،کیا ان پرعمل درآمد ہوا؟ آئین کی شق "35" کی رو سے ریاست کے ذمے خاندان، عورت اور بچوں کی حفاظت ہے۔ شق " 36" میں اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کی حفاظت کا ذکر ہے۔ شق " 37" سماجی انصاف کی فراہمی اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے سے متعلق ہے۔ کیا ان عبارات کا قلم بند کرنا ہی آئین کا مطمع نظر ہے۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس، غربت، تعلیم، صحت، بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور صنفی بنیادوں پر امیتاز کی پرکھ کرتا ہے۔ یہی دراصل وہ بنیادی حقوق ہیں جن کی ضمانت ہمارا آئین دیتا ہے،وہ آئین جوقومی سلامتی کی سب سے مضبوط ضمانت ہے۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ، متعدد تبدیلیوں، بنیادی حقوق کی پامالی کے باوجود آئین1973 اس لیے سخت جان رہا کہ اس میں متفقہ رائےکی طاقت ہے اور یہ اپنے اندر ملک کی چاروں اکائیوں کو متحد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسے منظور کر کے اس وقت کی سیاسی قیادت نے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر جمہوری سیاست کی پاس داری کر کے تاریخ رقم کی لیکن پھر کیا ہوا؟

اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1973ء کے آئین نے ملک کو استحکام دیا۔ قومی یک جہتی کے لئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کی۔ اگر اس آئین سے کوئی صدق دل سے رہنمائی لینا چاہے تو اسے مل سکتی ہے۔ جشن آئین ہم منا تو رہے ہیں، مگر صرف ’’بیان بازی‘‘ کی حد تک۔ کل بھی ایسا ہی ہوا، آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے، ہر دور میں مفاد پرستوں نے آئین میں ترامیم کر کے اس کا ’’بھرکس‘‘ نکال دیا اوربےبس عوام کو ’’بنیادی حقوق‘‘ تک سے محروم کر دیا ۔ وہ ’’حقوق‘‘ جن کی ایک مکمل شق آئین میں درج ہے۔ اب تو نفرت کی سیاست کا ایسا زہریلا کلچر پروان چڑھ رہا ہے کہ شاید حکم رانوں کی لغت میں ’محبت‘ مفاہمت، اتحاد کے الفاظ نہیں ہیں۔ 

اگر ہیں تو وقت ضرورت ان کے معنی بدل دیئے ہیں۔’’اس نے ہمارے ساتھ ایسا کیا، ہم بھی ایسا ہی کریں گے‘‘ کہہ کر یہ ثابت کر دیا اب تو انتقامی سیاست کا دور ہے۔ عوام روٹی، کپڑا، مکان کی آس میں اب تک خوار ہو رہے ہیں اور آئین جو بھوکے، ننگے، بے گھر، بدحال عوام کو سہولتیں دینے کی بات کرتا ہے، وہ صرف ’’آئین میں درج‘‘ ہیں، اس کا اندازہ کہیں آٹا لینے کی جدوجہد میں مرنے والوں کی لاشیں دیکھ کر تو کہیں تعلیم سے نابلد بچوں کو سڑکوں پر خوار ہوتے دیکھ کر ہوتا ہے۔

جشن آئین مناتے وقت مل جل کر جینا ہی سیکھ لیں۔ ایک دوسرے کے خلاف اخلاق باختہ زبان اور جملوں کا استعمال ترک کر دیں،بہ صورت دیگر جو چاہیں کریں مگر پھر جو ہوگا سب دیکھتے رہ جائیں گے، پھر کیسا جشن؟ لکین یہ بھی یاد رکھیں، پاکستان کے دسترخوان سے اب تک جس کو جو ملا وہ کھاتا رہا مگر، اب نہیں۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے۔ آمین

ایک قصّہ وقت میں سفر کا، تصویروں کے آئینے میں