• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانیہ میں بڑھتی قانونی امیگریشن، حکومت کا غیرملکی طلبہ پر خاندانوں کو برطانیہ لانے پر پابندی کا منصوبہ

گلاسگو (نمائندہ جنگ) بڑھتی ہوئی قانونی امیگریشن کم کرنے کے لئے برطانوی حکومت ایک ایسے منصوبے پر غور کر رہی ہے جس کے تحت سوائے پی ایچ ڈی کے دیگر تمام غیر ملکی طلبہ کو اپنےخاندانوں کو برطانیہ لانے پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔ البتہ سائنس، ہیلتھ اور انجینئرنگ کے طلبہ کو استثنیٰ دیا جا سکتا ہے۔ پی ایچ ڈی کے طلبہ کی تعداد صرف پانچ فیصد بنتی ہے، دوسرا یہ ریسرچ میں بھی اہم کردارادا کرتے ہیں، وزرا کا خیال ہے کہ اس پابندی سے امیگریشن کوایک ہی جھٹکے سے خاصی حد تک کم کیا جاسکتا ہے، اس ہفتے کے آخرمیں تارکین وطن کے نئے اعدادوشمار شائع کئےجا رہے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ گزشتہ سال نقل مکانی کرنے والوں کی کل تعداد سات سے دس لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے، غیرملکی طلبہ کی طرف سے برطانیہ لائےجانے والے شریک حیات اور بچوں کی تعداد 2018میں 12800 تھی جو کہ گزشتہ سال بڑھ کر ایک لاکھ چھتیس ہزار کے قریب چلی گئی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں بہت سےایجنٹس کم ہنرمند اور کم پڑھے لکھے افراد کو برطانیہ کا رہائشی ویزا دلانے کے لئے اسٹوڈنٹس ویزوں کو ایک اسکینڈل کی طرح استعمال کر رہے ہیں، وہ اپنے شریک حیات کو برطانیہ کی کسی یونیورسٹی میں داخلہ دلوا دیتے ہیں اور یوں خاندان کے ہمراہ آکر خود گروسری کی دکان یا ٹیک اوے وغیرہ پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ نئے قوانین کے نفاذ سے پاکستانی طلبہ بھی بہت زیادہ متاثر ہوں گے۔ نائیجریا سے آنے والے افراد کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ یونیورسٹیز کے حکام اور ممبران پارلیمنٹ نے حکومت کی نئی تجاویز کی سخت مخالفت کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ غیرملکی طلبہ ہماری معیشت میں سالانہ 35ارب ڈالر کاحصہ ڈالتےہیں، پابندیوں کی صورت میں وہ دیگرممالک کا رخ کریں گے۔

یورپ سے سے مزید