یمن کے قدیم شہر صنعا میں اکثر عمارتوں کی تعمیر گندھی ہوئی مٹی یا گارے سے ہوئی ہے جن کو دلکش طریقے سے سجایا گیا ہے۔ اپنے رنگ کی وجہ سے یہ عمارات شہر کے قریب ہی واقع بھورے رنگ کی پہاڑیوں سے کافی مشابہت رکھتی ہیں۔ اس شہر کا یہی فن تعمیر اتنا منفرد ہے کہ اس کو عالمی ثقافتی ورثے کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جسے یونیسکو ورلڈ ہیریٹیج سائٹ کا درجہ کہا جاتا ہے۔
صنعا شہر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے یونیسکو نے لکھا کہ ’یہ شہر مقامی طرز تعمیر کی شاندار مثال ہے جو اسلام کے ابتدائی برسوں کی خصوصیات کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہاں کی عمارات، جو غیر معمولی حد تک فنکارانہ اور تصویری معیار کی حامل ہیں، مقامی سامان اور تکنیک کے استعمال کی مہارت کا بہترین نمونہ ہیں۔‘
واضح رہے کہ ان قدیم عمارات میں اب بھی لوگ بستے ہیں اور اکثریت نجی رہائشگاہ کے طور پر استعمال کی جاتی ہیں۔
ان عمارتوں نے نہ صرف اپنی افادیت برقرار رکھی ہوئی ہے بلکہ یہ پائیدار بھی ہیں اور جدید دور میں استعمال کے لیے موزوں بھی۔ یہاں تک کہ ماہرینِ تعمیرات انھیں ’مستقبل کا فن تعمیر‘ قرار دیتے ہیں۔
دنیا بھر میں معمار یا آرکیٹیکٹس ایسی پائیدار عمارتیں بنانا چاہتے ہیں جو شدید گرمی یا سیلاب جیسے موسمی حالات کا سامنا کر سکیں اور اسی لیے اب وہ مٹی سے تعمیر کی جانب لوٹ رہے ہیں۔ کیا قدیم فن تعمیر کی یہ قسم مستقبل کے مکانوں اور شہروں کے ڈیزائن پر اثر انداز ہو سکتی ہے؟ کیا موسمیاتی تبدیلی کا حل ایک پرانی تکنیک کے استعمال میں پوشیدہ ہے؟
تعمیر کا ماحولیاتی مسئلہ
موجودہ دور میں کنسٹڑکشن انڈسٹری کا عالمی طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 38فیصد حصہ ہے۔ اگر دنیا نے 2050ء تک اس اخراج کو صفر تک پہنچانے کا ہدف حاصل کرنا ہے، تاکہ عالمی درجہ حرارت کو ڈیڑھ ڈگری سینٹی گریڈ کے حساب سے بڑھنے سے روکا جا سکے تو تعمیراتی شعبے کو اس میں اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔
سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی اہداف حاصل کرنے کے لیے کنکریٹ کی جگہ کم آلودگی پیدا کرنے والا متبادل درکار ہے۔ کنکریٹ سے بنائی جانے والی عمارات کاربن ڈائی آکسائیڈ کے عالمی اخراج کے سات فیصد تک کی ذمہ دار ہیں۔ دنیا بھر میں سالانہ تقریباً چار ارب ٹن سیمینٹ تیار کیا جاتا ہے۔ آرکیٹیکٹ اور مصّنفہ سلمیٰ ثمر کہتی ہیں کہ ’ہم اب ان کنکریٹ کے جنگلات میں نہیں رہ سکتے۔ ہمیں ماحول اور حیاتیاتی تنوع کا خیال رکھنا ہو گا‘۔ ان کے مطابق مٹی، کنکریٹ کا بہترین متبادل بن سکتی ہے کیوںکہ اس کا ماحول پر منفی اثر بہت کم ہوتا ہے اور اسے دوبارہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
ایک قدیم روایت کی تجدید
مالی کا جنے شہر، نجر ڈیلٹا کے خطے میں واقع ہے جس کی بنیاد 800ء میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت سوڈان اور صحارا سے آنے والے تاجروں کے لیے یہ شہر ایک اہم مقام تھا۔ آج اس شہر کو مٹی کے عالی شان فن تعمیر کی وجہ سے شہرت حاصل ہے جس میں دنیا کی مٹی سے بنی سب سے بڑی مسجد بھی شامل ہے جو تقریباً 20 فٹ اونچی اور 91فٹ طویل پلیٹ فارم پر بنائی گئی ہے۔ اس شہر کے باسی ماہر کاریگروں کی نگرانی میں ہر سال اس مسجد کی گارے سے لِپائی کرتے ہیں۔ مٹی سے بنی عمارات اس پورے عمل کی وجہ سے اپنی ہیئت بھی بدلتی رہتی ہیں۔ مٹی سے بنے گھر کو تبدیل کرنا آسان ہوتا ہے۔ ’اگر خاندان بڑھ رہا ہو تو باآسانی مکان میں مزید تعمیر ہو سکتی ہے اور اگر یہ چھوٹا ہو رہا ہو تو پھر عمارت کو دوبارہ مٹی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
پائیدار تعمیر
سربیئن ماہر تعمیرات ڈراگنا کوجک کا شمار بھی ایسے افراد میں ہوتا ہے جو اس قدیم فن تعمیر سے متاثر ہو کر جدید طرز کی عمارات کی بنیاد مٹی سے رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہمارے آباو اجداد ہوشیار تھے۔ انھوں نے وہی استعمال کیا جو ان کے آس پاس موجود تھا۔ مٹی ہر جگہ تھی اور اسے دیواریں، چھتیں، فرش ہر چیز بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا‘۔ کوجک نے سینٹر فار ریسرچ اینڈ اپلیکیشن آف ارتھ سے ٹریننگ مکمل کی ہے اور اب سربیا میں پرانے طرزِ تعمیر پر گھر بناتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’مٹی کا ایک نشہ ہے۔ یہ پہلی بار چھونے والے پیار کی طرح ہوتا ہے۔ آپ کو کسی طرح کی حفاظت کی ضرورت بھی نہیں۔ آپ بس اس کے ساتھ کھیل سکتے ہیں‘۔ ہیرنگر کہتی ہیں کہ ’مٹی پائیدار طرز تعمیر کے مستقبل کی چیمپئن ہے اور یہ واحد چیز ہے جسے ہم کسی قسم کی توانائی استعمال کیے بغیر جب چاہیں دوبارہ استعمال کر سکتے ہیں بلکہ اسے جتنا زیادہ استعمال کریں، یہ اتنا بہتر ہوتی ہے‘۔ ہینگر کہتی ہیں کہ ’یہ دراصل آٹے کی مانند ہے جو شکل بدلتا ہے اور اس پر جتنا زیادہ کام ہو، یہ بہتر ہوتا جاتا ہے‘۔
صحت مند عمارات
مٹی کی عمارات کی بہترین بات یہ ہے کہ وہ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈی رہتی ہیں۔ ماہر تعمیرات کے مطابق مٹی سے بنی دیواریں گرمی کو آہستہ آہستہ جذب کر تی ہیں اور مکان کو زیادہ گرم ہونے سے بچاتی ہیں۔ پامیلا جیروم ایک امریکی آرکیٹیکٹ ہیں جو دنیا بھر میں عمارات کی بحالی کا کام کرتی ہیں۔
پامیلا کا کہنا ہے کہ مٹی کی دیواریں دن میں سورج کی روشنی جذب کرتی ہیں اور رات کے وقت اسے خارج کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے درجہ حرارت بدلتا نہیں بلکہ آرام دہ حد تک رہتا ہے۔ اس خوبی کی وجہ سے ایسی عمارات میں ایئر کنڈیشنر کی ضرورت کم ہو جاتی ہے جو بجلی کی بچت کا باعث بن سکتا ہے اور ساتھ ہی ایسی گرین ہاوس گیسز کے اخراج کو کم کیا جا سکتا ہے جو ایئر کنڈیشنر میں موجود ریفریجرنٹس کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
2021ء کی ایک رپورٹ میں برطانیہ کی ماحولیاتی آڈٹ کمیٹی نے تجویز دی تھی کہ مٹی اور لائم پلاسٹرز جیسے پائیدار اور سانس لینے والے قدرتی اجزا کے استعمال سے مکانات کو زیادہ محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔
کنکریٹ یا تانبے سے بنی عمارات کے مقابلے میں مٹی سے تیار عمارات اندرونی درجہ حرارت کو قدرے مستحکم رکھتی ہیں اور ان کے مکین بہتر محسوس کرتے ہیں۔ مٹی کی دیواروں کا ایک اور فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ باہر کے شور کے اثر کو بھی کم کر دیتی ہیں۔
مٹی کے سانس لینے کی قدرتی خوبی کے اور فوائد بھی ہیں۔ یہ نمی کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جس سے ہوا کا معیار بہتر ہوتا ہے۔ مٹی میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ یہ ہوا سے اضافی نمی کو کھینچ لیتی ہے اور اگر ضرورت ہو تو اسے دوبارہ ہوا میں خارج کر دیتی ہے، ’اسی وجہ سے ہم کہتے ہیں کہ ایسے مکان سانس لیتے ہیں‘۔
سلمیٰ ثمر کہتی ہیں کہ ’یہ صحت مند عمارتیں ہوتی ہیں جو اسی طرح سانس لیتی ہیں جیسے ہم اور ان کی ایسی ہی جِلد ہوتی ہے جو گرم اور سرد موسم کے حساب سے بدلتی ہے۔ ان کی تعمیر اسی طرح ہوتی ہے جیسا کہ انسانی جسم‘۔