• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نہ دباؤ کا الزام، نہ اظہار یکجہتی، نہ مذمت اور نہ ہی پریس کانفرنس‘‘

اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) معروف قانون دان پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اور عمران خان کے قانونی مشیر سینیٹر بابر اعوان جو دو روز اسلام آباد سے ایک نجی پرواز کے ذریعے لندن چلے گئے تھے روانگی سے قبل انہوں نے اس تاثر کی تردید کی تھی کہ ’’وہ خود لندن نہیں گئے بلکہ انہیں لندن بھیجا گیا ہے‘‘ کی تردید کرتے ہوئے ایک ٹوئیٹر پیغام میں کہا تھا کہ میں پہلے سے طے شدہ ذاتی مصروفیات کے سلسلے میں لندن جارہا ہوں۔ 

یاد رہے کہ بابر اعوان کا شمار ماضی میں پیپلز پارٹی کے جیالوں میں ہوتا رہا ہے وہ آصف علی زرداری کے قانونی مشیر اور یوسف رضا گیلانی کی کابینہ میں وفاقی وزیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے ہیں اور پیپلز پارٹی سے ان کی وابستگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ 2013 میں انہوں نے وزیر قانون کی حیثیت سے محض اس لئے استعفیٰ دے دیا تھا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے عدالتی فیصلے کے خلاف دائر کئے جانے والے عدالتی ریفرنس میں وکیل کی حیثیت سے پیش ہونا چاہتے تھے۔ 

یہاں یہ ذکر بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں وہ واحد وزیر قانون تھے جنہوں نے اپنی مصروفیات کے جواز میں حکومت سے ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ 

بابر اعوان نے اس تاثر کی تردید تو کر دی ہے کہ’’وہ خود لندن نہیں گئے بلکہ انہیں بھیجا گیا ہے‘‘ لیکن ایک ایسی صورتحال میں جبکہ وہ عمران خان کے قانونی مشیر اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر بھی ہیں پھر انہوں نے نہ تو پاکستان تحریک انصاف چھوڑنے کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی سانحہ 9 مئی کی مذمت اور فوج سے اظہار یکجہتی کیلئے کوئی پریس کانفرنس کی ہے۔

 اور ان حالات میں جب پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے وابستگی رکھنے والے بڑی تعداد کے راہنماؤں کے نام ’’نو فلائی لسٹ‘‘ میں ڈال دیئے گئے، 9 سینئر راہنماؤں کے ڈپلومیٹک پاسپورٹ منسوخ کر دیئے گئے ہیں تو بابر اعوان ایک ’’آئیڈیل ماحول‘‘ میں ملک سے باہر کیسے چلے گئے۔ 

دوسری طرف تحریک انصاف کی خواتین ونگ کی صدر اور سابق رکن اسمبلی کنول شوزب کے بارے میں اطلاعات موجود ہیں کہ وہ بھی بیرون ملک جاچکی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید