• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طلبا کی ذہنی صلاحیتوں کو جانچنا ضروری ہے

زاہد محمود

قُدرت کی طرف سے عطا کردہ صلاحیت‘ بچپن سے ہی شخصیت اور کردار میں نظر آنے لگتا ہے۔ آرٹسٹ پیدائشی آرٹسٹ ہوتا ہے، سائنسدان کی جبلت میں ہی جستجو ہوتی ہے، کھلاڑی کا جنون اور جسمانی خدوخال بتاتے ہیں کہ وہ کس کام کے لیے بنا ہے، کاروباری ذہن بچپن سے ہی فرد کو پیسہ بنانے کے طریقے بتانے لگتا ہے اور لیڈر جبلتاََ لیڈر ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی درست ٹیلنٹ کا سراغ لگانا ہمیشہ سے مشکل رہا ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سماجی سسٹم میں تعلیم کا انتخاب ماں باپ کی مرضی سے ہوتا آرہا ہے جو کبھی کبھار بچوں کے لئے بہتر ی پیدا کرتا ہےتو بعض اوقات نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ اس کی وجہ ماں باپ کے غلط اندازے ہوتے ہیں جو بچوں میں چھپُی صلاحیتوں کے بارے میں لگائے جاتے ہیں۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد انسان جب دیکھتا ہے، اس میں قدرتی طورپر کھلاڑی بننے کی صلاحیت ہے لیکن اس نے سائیکالوجی میں تعلیم حاصل کی۔ اکاؤنٹنگ پڑھنے کے بعد جب بزنس فیلڈ میں قدم رکھتا ہے تو پریشان ہو جاتا ہے جو اکاؤنٹنگ اسے پڑھائی گئی تھی اس کا بزنس میں کوئی کردار نہیں، اسے فیصلہ کرنا مشکل ہوجا تا ہے آخر کس شعبے میں اپنی صلاحیتوں کو آزمائے۔ وہ خود کو بند گلی میں کھڑا محسوس کرتا ہے اور ماں باپ کے ذوقِ پہچان کو کوستا ہے۔ ذہنی خلفشار کا شکار اور درست رہنمائی نہ ہونے کے باعث وہ ساری زندگی غیر مطمئن رہتا ہے۔ 

آگے بڑھنے اور ترقی حاصل کرنے کے لیے اُسے بڑی تگ و دو کرنی پڑتی ہے یا تو وہ کامیاب ہوجاتا ہے یا پھر ناکامی اور نااُمیدی میں پھنستا چلا جاتا ہے۔ لیکن جنہیں اپنی صلاحیتوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کے مواقع مل جائیں تووہ اپنے ٹیلنٹ کو جلا بخشتے ہوئے تیزی سے کامیابی کا سفر طے کرتے ہیں اور ذہنی طور پر مطمئن رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں اربوں انسان ہیں ہر انسان کے اندر فطری صلاحیتیں اور خوبیاں ہیں۔ خوبیاں وہ ہوتی ہیں جو انسان کو فطری طور پرتفویض ہوتی ہیں۔

کسی نہ کسی صلاحیت کا گوہر ہر بچےکے اندر چھپا ہوتا ہے اس کو کیسے پہچاننا ہے، اسے خوبصورتی سے تراش کر کیسے انمول بنانا ہے۔ یہ والدین اور اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ خصوصی مہارت کو ان کی روز مرہ کی سر گر میوں میں تلاش کریں۔کوئی ایسا کام یا عمل ضرور ہو گا جسے دلچسپی اور خوشی سے ماہرانہ انداز میں انجام دیتے ہوں گے۔ کس کیٹگری میں ان کی دلچسپی زیادہ ہے۔ اسے سامنے رکھ کر راستے کا تعین کر نا ہو گا۔

جب ہی وہ کامیابی کی منازل طے کر پائیں گے آسانیاں خود بخود پیدا ہونے لگیں گی۔ اساتذہ اوروالدین کا باہمی رابطہ ان کی گاہے گاہے ملاقاتیں دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔ دونوں فریقوں کے ملنے اور تبادلہ خیال کرنے سے ایسے نتائج مرتب ہوسکتے ہیں جو بچے کی زندگی پر خوشگوار اثر ڈالیں اور جن سے اُسے مفید رہنمائی حاصل ہوسکےاور وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق اپنے راستے کا تعین کرسکے۔ موجودہ دور میں تعلیم اور اس کا مقصد ہی بچے کی تمام صلاحیتوں کی تربیت اس کی کل جبلتوں کی تسکین یعنی اس کی بھرپور نشوونما ہے۔

بعض بچے تعلیم کے ابتدائی مدارج میں اپنی ذہنی کارکردگی کا لوہا منوا لیتے ہیں، تاہم جہاں تک آئی کیو لیول کی بات ہے تو اس خام خیالی سے نکل جانے کی ضرورت ہے کہ مروجہ تعلیمی نصاب میں سند امتیاز پانے والا ہی آئی کیو کے لحاظ سے ممتاز ہے۔ ذہانت اور ذہنی کارکردگی کو مخصوص پیمانے سے جانچنا درست نہیں اور نہ ہی اس کے نتائج کو سند کا درجہ دیناچاہیے۔ ضروری نہیں کہ ہر بچہ ہر میدان میں اپنا لوہا منوا سکے، لہٰذا مستقبل کے معماروں پر بے جا تنقید کر کے ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو زنگ نہ لگائیں۔

بچے کی دل چسپی کے میدان کا اندازہ نہیں کر پا رہے تو کم از کم ایک مخصوص تعلیمی دوڑ میں نمایاں پوزیشن لانے کے لیے ان پر دباؤ بھی نہ ڈالیں۔ نیز دو مختلف دائرہ کار میں ذمہ داری ادا کرنے والوں کو ایک ہی نسخے پر تیار نہ کریں، ورنہ بچوں کو مادّی سہولیات تو مل جائیں گی لیکن وہ شعور سے بے بہرہ ہی رہیں گے۔ اگر بچہ مروجہ تعلیمی نظام میں خود کو ڈھال نہیں پا رہا تو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں، ایسا نہیں کہ وہ نالائق ہے بلکہ اُسے اس کی دل چسپی اور رحجانات کے برعکس تعلیم دی جا رہی ہے ، وہ اپنے آپ کو بند پنجرے میں محسوس کرتا ہے اور اپنے رحجانات کے میدان میں پرواز کے لیے اس کی آزاد فطرت اسے مضطرب رکھتی ہے۔ لہٰذا بچوں کو اعتماد دیں ،ان کی حوصلہ شکنی ، دل آزاری سے بچیں۔

معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی

پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر اس ہفتے سے تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے ۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔ یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔

ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید

میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل

آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی

ای میل: razia.fareed@janggroup.com.pk