• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک مشہور شعر ہے:

چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے ستم گاری میں

کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں

شاعر نے تو آسمان کا نام لے کر معشوق اوردرحقیقت قسمت کی شکایت کی ہے۔ اس پردۂ زنگاری یعنی نیلے آسمان میں کو ئی چُھپا ہو یا نہ چھپا ہو، لیکن بہت سے شاعر اور ادیب خود فرضی اورقلمی ناموں کے پردے میں چھپتے رہے ہیں۔ اور یہ تخلص کا ذکر نہیں ہے (تخلص پر پھر کبھی بات ہوگی)۔

لکھنے والوں نے بعض وجوہ کی بنا پر فرضی ناموں کے پردے میں چھپنا مناسب سمجھا۔ ان کی وجوہ سیاسی بھی تھیں اور آپس کی معاصرانہ چشمکیں بھی۔ کبھی حکومت کی گرفت سے بچنے کے لیے فرضی نام سے لکھا جاتا تھا اورکبھی حریفوں پر چوٹ کرنے کے لیے قلمی نام کے پردے میں چھپنا پڑتا تھا ۔ کبھی دال روٹی کا بندوبست کرنے کے لیے بھی فرضی ناموں کا سہارا لیا گیا۔ایک دور میں خواتین نے سماجی دبائو کے تحت فرضی ناموں سے لکھا۔ بعض بڑے ادیبوں نے ریڈیو ، اخبارات اور ٹی وی کے لیے مختلف ناموں سے لکھا۔

کچھ لوگ روزی کمانے کے لیے اپنی غزلیں بیچا کرتے تھے ۔صرف آج کے دور میں نہیں بلکہ پہلے بھی مجبور لکھنے والوں کو معمولی معاوضہ دے کر ان کی شاعری خرید لی جاتی تھی اورمشاعروں میں اپنے نام سے پڑھی جاتی تھی۔ محمد حسین آزاد نے آب ِ حیات میں لکھا ہے کہ مصحفی غزلیں لکھ کر نوجوان شعرا کو فروخت کرتے تھے اور لوگ چُن کر اچھی غزلیں لے جاتے اور جو کچھ بچ جاتا اسے مصحفی اپنے نام سے مشاعرے میں پڑھ دیتے۔ البتہ محققین نے جہاں آزاد کی بہت سی مبالغہ آرائیوں اور غلط بیانیوں پر گرفت کی ہے وہاں اس بیان پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

لیکن فرضی ناموں سے لکھنے والوں کی خاصی بڑی تعداد اردو ادب میں موجود رہی ہے۔مثلاً غالب کے خلاف لکھی جانے والی ایک کتاب کا جواب لطائف ِ غیبی کے نا م سے چھپا۔ اس پر مصنف کا نام میاں داد خاں سیاح ہے۔ لیکن غلام رسول مہر کا خیال ہے کہ وہ کتاب غالب نے خود ہی لکھی تھی اور اپنے دوست کے نام سے شائع کروادی کیونکہ اس کا اسلوب سراسر غالب کے رنگ میں ہے۔

 
مرزا فرحت اللہ بیگ ،مرزا الم نشرحکے نام سے لکھتے تھے
مرزا فرحت اللہ بیگ ،مرزا الم نشرح
کے نام سے لکھتے تھے

معروف مزاحیہ جریدے اودھ پنچ کے مزاح نگاروں کی ایک پوری فوج تھی جو فرضی ناموں سے لکھتی تھی، خاص طور پر اس کے مدیر منشی سجاد حسین کاکوروی مختلف ناموں سے لکھا کرتے تھے ۔بعد کے دور میں بھی کئی مزاح نگاروں اور کالم نگاروں نے فرضی ناموں سے لکھا۔ فرحت اللہ بیگ مرزا الم نشرح کے نام سے لکھتے تھے لیکن یہ راز بھی الم نشرح ہوگیا۔ سجاد حیدر جوش نقیب میں جان بل کے نا م سے لکھتے تھے۔ 

چراغ حسن حسرت نے اپنی کتاب مردم دیدہ میں لکھا ہے کہ بابا رولدو کے نام سے لکھے گئے مضامین لاہور کے مشہور طبیب حکیم چشتی کے قلم سے نکلے تھے۔خودچراغ حسن حسرت نے جب کلکتے کے اخبار نئی دنیا میں لکھنا شروع کیا تو نئی دنیا (جو امریکا کو کہتے تھے)کی مناسبت سے کولمبس کا فرضی نام اختیار کیا۔وہ اسی اخبار میں کوچہ گرد کے نام سے کلکتے کی باتیں کے عنوان سے فیچر لکھتے تھے۔احسان نامی اخبار میں سند باد جہازی کے نام سے بھی چراغ حسن حسرت لکھا کرتے تھے۔

ابن ِ انشا کا اصل نام تو خیر شیرمحمد تھا لیکن انھوں امروز اور بعض دوسرے اخبارات میں مختلف فرضی ناموں سے لکھا ، جیسے درویش دمشقی، حاجی بابا اصفہانی اور پہلا درویش۔ معروف صحافی اور کالم نگار نصراللہ خان نے اپنی خود نوشت’’ اک شخص مجھی سا تھا‘‘ میں لکھا ہے کہ امروز میں چہار درویش کے قلم سے مزاحیہ کالم چھپتا تھا ، وہ کبھی ابن انشا ، کبھی طفیل احمد جمالی لکھتے اور کبھی میں (یعنی نصراللہ خان) لکھتا۔ 

شمس زبیری کے رسالے’’ نقش ‘‘میں شوخی ِ تحریر کے عنوان سے مزاحیہ مضامین چھپتے تھے اور لکھنے والے کانام پیارے میاں تھا۔ نصراللہ خان نے لکھا ہے کہ یہ مضامین بھی وہی لکھا کرتے تھے۔ روزنامہ امروز میں ریڈیو پاکستان کے پروگراموں پر تبصرہ’’ ہوا کے دوش پر‘‘ کے عنوان سے چھپتا تھا اور اس کے مصنف کا نام فلک پیما چھپا ہوتا تھا لیکن یہ بھی نصراللہ خان لکھا کرتے تھے۔ اس دور کے دوسرے بڑے لکھنے والوں میں احمد ندیم قاسمی عنقا کے فرضی نام سے کالم لکھتے رہے۔

اقبال کا شعر ہے :

سچ کہہ دوں اے برہمن، گر تو برا نہ مانے

تیرے صنم کدوں کے بت ہوگئے پرانے

اسی مناسبت سے بت شکن کے نام سے گر تو برا نہ مانے کا کالم معروف صحافی اور کالم نگار طفیل احمد جمالی لکھتے تھے۔

پنڈت ہری چند اختر،دوزخی کےنام سے لکھتے تھے
پنڈت ہری چند اختر،دوزخی کے
نام سے لکھتے تھے 

جب یوپی کے اہل قلم اور پنجاب کے اہل قلم کے درمیان ادبی معرکے بپا ہوئے، خاص کر زبان کے مسئلے پر، تو نیاز مندان ِ لاہوٍر کے نام سے ایک غیر رسمی ادبی حلقہ بنایا گیا جس میں پطرس بخاری، عبدالمجید سالک، امتیاز علی تاج، حفیظ جالندھری، ایم ڈی تاثیر ، صوفی تبسم، پنڈت ہری چند اختر اور بعض دیگر اہل ِقلم شامل تھے۔ ان میں سے بعض نے فرضی ناموں سے بہت سے ادبی معرکے سر کیے۔ حلقے کے نقطۂ نظر کو پیش کرنے کے لیے پنڈت ہری چند اختر دوزخی کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے۔ تاثیر نے نظامی قدوسی کے علاوہ اور بھی کئی فرضی ناموں سے لکھا۔

پریم پجاری، عندلیب شادانی ہی تھے
پریم پجاری، عندلیب شادانی ہی تھے  

سچی کہانیاں کسی زمانے میں بڑی مشہور ہوئیں جس پر مصنف کا نام پریم پجاری چھپاہوتا تھا۔ صبیح محسن نے اپنی کتاب داستاں کہتے کہتے میں لکھاہے کہ پریم پجاری کے نام سے دراصل اردو اور فارسی کے معروف شاعر، ادیب، نقاد اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے صدر ِ شعبۂ اردو عندلیب شادانی لکھا کرتے تھے۔ عندلیب شادانی کا اصل نام وجاہت حسین تھا اور وہ شاداں بلگرامی کے شاگرد تھے۔خود شاداں بلگرامی کا اصل نام اولاد حسین تھااور ان کی شرحِ دیوان ِ غالب مشہور ہے۔

عبدالماجد دریاآبادی نے اپنی کتاب معاصرین میں لکھا ہے کہ ولایت علی قدوائی علیگ ،جو بارہ بنکی میں وکیل تھے اور کامریڈ کے مستقل مضمون نگار تھے ، انگریزی میں مزاحیہ مضامین لکھتے تھے ۔ ان کا قلمی نام بمبوق تھا۔

ہمارے کچھ لوگوں نے انگریزی میں بھی قلمی نام اختیار کیے۔ ریڈیو پاکستان کے ڈائریکٹر اور مزاح نگار صبیح محسن انگریزی روزنامے ’’ڈان‘‘ میں دیسنوی کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ ڈان ہی میں خاد م محی الدین کے نام سے کالم لکھنے والے اصل میں انور عنایت اللہ تھے(اور یہ بات انھوں نے خود راقم کو بتائی تھی)۔ انور صاحب کی کتاب’’ اور قلعہ مضبوط تھا‘‘ کسی زمانے میں بہت مشہور ہوئی۔

مشفق خواجہ اپنے نام کے بجائےخامہ بگوش لکھواتے تھے
مشفق خواجہ اپنے نام کے بجائے
خامہ بگوش لکھواتے تھے  

ڈاکٹر وحید قریشی نے راقم کو ایک بار بتایا کہ روزنامہ جنگ (لاہور) کے ادبی صفحے پر طنزیہ کالم جو میر جملہ لاہور ی کے نام سے شائع ہوتا تھا دراصل وہ وحید قریشی صاحب ہی لکھا کرتے تھے۔ طنزیہ ادبی کالم کا ذکر آئے اور مشفق خواجہ صاحب یاد نہ آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے۔ اپنے کالم پر وہ اپنے نام کے بجائے مصنف کی حیثیت سے خامہ بگوش لکھواتے تھے۔ لیکن یہ بات جلد ہی سب کو معلوم ہوگئی۔

خواتین کے لکھے ہوئے کئی ناولوں (جن کو اس زمانے میں ’’اصلاحی، رومانی، گھریلو ‘‘ناول کہا جاتا تھا ) کے اصل مصنف مرد تھے۔ایک رومانی سا نسوانی نام قارئین ،خواہ قاری کا تعلق صنف ِ نازک سے ہو یا صنف ِ کرخت سے ، کے لیے زیادہ پُر کشش اور کتاب کی فروخت میں اضافے کا سبب سمجھا جاتا تھا۔ اور اس میں کچھ حقیقت بھی تھی۔ خاص کر جب پردے کی پابندی تھی، یعنی تقریباً سوسال پہلے تک ،توکسی خاتو ن کا لکھنا اوررسائل و جرائد میں چَھپنا بڑی عجیب او ر حیرت ناک بات تھی اور اسے معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 

نیاز فتح پوری، قمر زمانی بیگمکے نام سے لکھتے تھے
نیاز فتح پوری، قمر زمانی بیگم
کے نام سے لکھتے تھے

اسی لیے کچھ لوگوں نے زنانہ ناموں سے لکھا اور بڑے مشہور بھی ہوگئے ، مثلاً نیاز فتح پوری نے قمر زمانی بیگم بن کر لکھا اورکئی لوگ انھیں حقیقی خاتون سمجھتے تھے اور ان کی تحریروں کے شیدائی تھے۔ بلکہ ادبی رسالے نقاد (آگرہ) کے مدیر شاہ نظام الدین دلگیر انھیں سچ مچ کی خاتون سمجھے ،حتیٰ کہ ان پر عاشق ہوگئے۔ اس کی تفصیل فرمان فتح پوری نے لکھی ہے۔ طاہرہ دیوی شیرازی کے نام سے فضل ِ حق قریشی لکھا کرتے تھے۔ ہمارے دور کی کئی شاعرات کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں کچھ شاعر حضرات لکھ کر دیتے ہیں۔ لیکن چند ایک کے بارے میں یہ بات درست ہوسکتی ہے، سب کے بارے میں نہیں۔

لیکن کچھ خواتین تو ایسی بھی تھیں کہ اپنا نام چھپوانا پسند نہیں کرتی تھی۔ مثلاً قرۃ العین حیدر کی والدہ بنتِ نذر الباقر کے نام سے لکھا کرتی تھیں۔لاشوں کا شہر اور دوسرے خوفناک افسانوں سے مشہور ہونے والی افسانہ نگار مسز عبدالقادر کا اصل نام بہت عرصے تک لوگوں کے علم میں نہیں آسکا۔ وہ مشہور شاعرسراج الدین ظفر کی والدہ تھیں اور ان کا اصل نام زینب تھا۔ زاہدہ خاتون شیروانیہ ہمیشہ ز۔خ۔ ش کے پردے میں مستور رہیں۔ یہ باکمال شاعرہ نواب مزمل اللہ کی صاحب زادی تھیں اور صرف اٹھائیس سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ مولانا ظفر علی خان کی بہن اور راجا مہدی علی خان کی والدہ حُبّیہ خانم شاعرہ تھیں اور ان کا مجموعہ ٔ کلام نوائے حرم کے عنوان سے شائع ہوا۔ وہ اپنا نام دینے کے بجائے ح ۔خ کے مخفف سے لکھتی تھیں۔

یہ وہ چند فرضی اور قلمی نام ہیں جو سرسری طور پر یاد آگئے ورنہ اس موضوع پر بہت تفصیل سے لکھا جاسکتا ہے اور لکھا جانا چاہیے۔

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی