• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
روز آشنائی … تنویر زمان خان، لندن
سائنس نے انسان کی زندگی پر اور اس کے تبدیلی کے عمل پرگزشتہ 100 برسوں میں گہرے اثرات مرتب کئے ہیں لیکن 50برسوں میں باالخصوص صنعتی اور ٹیکنالوجی کے انقلاب نے جو ایک سے بڑھ کر ایک نئی نئی ایجادات اورانکشافات کا انقلاب برپا کیا ہے اس نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو تیزی سے بنیادی سطح پر تبدیل کرکے رکھ دیا ہے جس سے ہم خود کو خوش قسمت بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایسے دور میں پیدا ہوئے ہیں جب ہم نے دنیا کو پرانے رہن سہن اور ٹیکنالوجی کو قدیم دور سے جدید دور میں داخل ہوتے دیکھا ہے بلکہ ہم خود اس میں جئے ہیں گو کہ ہم اس ترقی کی تیز رفتاری میں اپنی پرانی ساخت اور سانچے کی وجہ سے خاصے پیچھے بھی رہ گئے ہیں بلکہ ہم خود کو اپنی نوجوان نسل سے بھی خاصا پیچھے محسوس کرتے ہیں، یہ بات صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے سیاق و سباق میں عرض کر رہا ہوں وگرنہ پرانے وقتوں میں جھانک کر دیکھیں تو صدیوں تک لوگوں کے رہن سہن میں کوئی خاص تبدیلی رونما نہیں ہوئی،بیل گاڑی کی سواری یا گھوڑوں پر لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے کیلئے بھی کئی کئی مہینوں کے سفر کی تیاری کرکے نکلتے تھے، حج و عمرے پر جانے والے جب بحری جہازوں پر سفر کرتے تو سب رشتہ داروں اوردوستوں کو یوں مل کے جاتے گویا واپسی کا امکان بجھ بھی سکتا ہے، لوگ اپنے قرضے ادا کرکے یا معاف کروا کے جاتے کہا سنا کی معافی مانگ لیتے، رشتہ داروں اور دوستوں میں جس کے ساتھ کوئی ناراضگی ہوتی تو جانے والا ان سے معافی مانگ کے راضی کرکے جاتا پھر یہ موٹر گاڑیاں عام ہونے لگیں، گھوڑے ،تانگے کی جگہ رکشے ،ٹیکسیاں اور پبلک ٹرانسپورٹ عام ہوگئی،اب چند ہی دھائیوں میں ہر کچھ بجلی سے چلنے لگا ہے، نیوی گیشن نظام جو پہلے فقط دفاعی ضروریات اور ہوابازی میں استعمال ہوتا تھا ، اب گھر بھر بچے بچےکے ہاتھوں میں نظر آتاہے، موٹرکار کے اندر اتنی خودکاری یا آٹومیشن آچکی ہے کہ اب اس طرف توجہ مرکوز ہے کہ کب انسان خودکار یابغیر کسی ڈرائیور کے گاڑی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو سکے، فقط نیوی گیشن میں ایک جگہ سےدوسری جگہ یعنی منزل مقصود کا پتہ ڈالنے کی دیر ہے گاڑی خود آپ کو منزل مقصود تک پہنچا دے گی، ایسی بغیر ڈرائیور کے کاروں کے تجربات تو کامیاب ہو چکے ہیں ،ساتھ ہی فلائنگ کار کی ٹیکنالوجی بھی تیزی سے ترقی کر رہی ہے کیونکہ جس طرح زمین پر آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے سڑکوں پر ٹریفک بھی اسی رفتار سے بڑھتی جارہی ہے ، اس ضرورت نے فضا میں اڑنے والی کاریں بنانے پر مجبور کر دیا ہے، وہ وقت بھی دور نہیں جب بغیر ڈرائیورکے فلائنگ کاریں بھی ہمیں ایک جگہ سے دوسری جگہ اڑتی ہوئی لے کر جایا کریں گی، البتہ سڑکوں پر چلنے والی بغیر ڈرائیور کے گاڑیاں ابھی ڈرائیورز کے ہمراہ چلنے والی ٹریفک کے ساتھ ربط اور قواعد میں ہم آہنگ نہیں ہو سکیں جس کی وجہ سے ابھی حادثات کے امکانات موجود ہیں بلکہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں تو ابھی ایسا ممکن نہیں ہو سکا کہ خود کار، کاریں جگہ جگہ پہنچ سکیں ،جہاں ابھی غریب آدمی مشکل سے بائیسکل خرید پاتا ہے وہاں ابھی بغیر ڈرائیور کار کا تصور ہی محال ہے، فی الوقت ترقی یافتہ دنیا کے بعض شہروں میں بغیر ڈرائیور کے کار میں سفر کا آغاز تو ہو چکا ہے لیکن ابھی اس کی نوعیت تجرباتی ہے، اس ٹیکنالوجی پر 10برسوں میں کئی کمپنیاں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر چکی ہیں اور کئی کمپنیاں دیوالیہ ہوکر مارکیٹ سے آؤٹ ہو چکی ہیں البتہ سائنس اس بات سے مایوس نہیں ہے بلکہ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور کینیڈا، امریکہ اور یورپ کے کچھ ممالک میں آئندہ 05 سے 10 برسوں میں یہ بغیر ڈرائیور والی کاریں ہمیں عام ہوتی ہوئی نظر آنے لگیں گی، اس وقت ڈرائیور والی کار اور بغیر ڈرائیور کے چلنے والی کار یں سڑک پر محفوظ طریقے دریافت کئے جا رہے ہیں تاکہ حادثات کے امکانات کو کم سےکم کیا جاسکے۔ ساتھ ساتھ جو اہم اور مہنگا کام ہو رہا ہے وہ اس ٹیکنالوجی کو ماحولیات کے ساتھ دوستانہ بنانا ہے کیونکہ ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی کی تابکاری ہر شعبہ زندگی پر بہت برے اثرات مرتب کر رہی ہے، ابھی ایسی کاروں کو نظام اور ٹریفک کے اشاروں اور علامات سے بھی ہم آہنگ کرنا ہے، البتہ سائنسدانوں کو یقین ہے کہ اس بغیر ڈرائیور کے کاروں کے عام ہونے سے بھی سڑکوں پر حادثات بھی نہ ہونے کے برابر ہو جائیں گے اور نہ تو ڈرائیور کی ضرورت رہے گی نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس کی جس میں آئی ڈی کیلئے کچھ اور سوچنا پڑےگا یا پھر انسانوں میں ایسی چپ لگ جائے گی جو ہر جگہ آئی ڈی سکین کرتی جائے گی۔
یورپ سے سے مزید