ابھی تک ہم یہ جانتے ہیں کہ انسان پانچ حواس رکھتا ہے: دیکھنا، سُننا، چکھنا، محسوس کرنا اور سونگھنا۔ اب نیورو سائنس کا کہنا ہے کہ انسان کچھ اور اضافی حواس بھی رکھتا ہے یعنی پانچ نہیں بلکہ سات۔ ہمارے انداز اور ہمارا چہرہ ہمارے دماغ کو اہم اشارے بھیجتا ہے، اور یہ وہ معلومات ہیں جن پر ہمارا دماغ جواب دیتا ہے، جیسا کہ ہسپانوی نیورو سائنس دان نزارتھ کاسٹیلانوس نے وضاحت کی ہے۔ وہ نیراکارا-لیب لیبارٹری کی محقق ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’اگر میرے چہرے پر غصے کے تاثرات ہیں، تو دماغ اس سے اخذ کرتا ہے کہ یہ چہرہ غصے کے لیے مخصوص ہے اور اس لیے وہ غصے کے میکانزم کو متحرک کرتا ہے‘۔ اسی طرح، ’جسم اداس ہونے کے لیے مناسب انداز رکھتا ہے، تو دماغ اداس ہونے کے مخصوص اعصابی میکانزم کو متحرک کرنا شروع کر دیتا ہے‘۔ ہمارا دماغ باقی جسم کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ طریقوں سے رابطہ کرتا ہے جتنا پہلے سوچا گیا تھا۔ اور سائنسدان کے بقول’ ہمارے پاس صرف پانچ حواس نہیں، بلکہ یہ سات ہیں‘۔ اور پانچ مشہور حواس، ذائقہ، بو، وغیرہ دماغ کے لیے سب سے کم اہم ہیں۔‘
کس طرح انداز اور چہرے کے تاثرات دماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں، مسکراہٹ کی طاقت کیا ہے، اور ’جسم کی سرگوشیاں‘ سننے کے لیے کیا سیکھنا چاہیے: نزارتھ کاسٹیلانوس کہتی ہیں، میں نے 20 سال صرف دماغ پر تحقیق کرنے کے بعد نیورو سائنس پر دوبارہ غور شروع کیا۔ مجھے یہ بات عجیب لگ رہی تھی کہ انسانی رویے کو صرف ایک عضو سے سہارا ملتا ہے، یعنی سر میں موجود دماغ سے۔ اس سے پہلے میں نے دماغ پر آنت جیسے اعضا کے اثرات کا مطالعہ شروع کر دیا تھا، جس سے میں نے اخذ کیا کہ دماغ کے لیے یہ ایک جیسا نہیں ہو سکتا کہ میرا جسم جھکا ہوا ہو یا سیدھا ہو۔
چنانچہ انھوں نے تحقیق کرنا شروع کی، یہ دیکھنے کے لیے کہ سائنسی ادب کیا کہتا ہے؛ انھوں نے ایسی چیزیں دریافت کیں جو انھیں بالکل حیران کن لگ رہی تھیں اور سوچا، یہ سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ ’خارجی پانچ حواس سب سے کم اہم ہیں جبکہ داخلی حواس زیادہ اہم احساس ہیں۔‘
انٹرو سیپشن یا داخلی حواس کا کیا مطلب ہے؟ یہ وہ معلومات ہیں جو دماغ تک پہنچتی ہیں کہ جاندار کے اندر کیا ہوتا ہے اور اعضا کے اندر کیا ہو رہا ہے۔
ہم دل، سانس، معدہ، آنت کی بات کر رہے ہیں۔ یہ نمبر ون سینس ہے کیونکہ جو کچھ بھی ہوتا ہے، یہ وہی ہوتا ہے جسے دماغ سب سے زیادہ اہمیت دے گا، یہ دماغ کے لیے ترجیح ہے۔ اور دوسری ترجیح پروپیوسیپشن یعنی جسم کی پوزیشن اور حرکت کا ادراک یا احساس، وہ معلومات جو دماغ تک پہنچتی ہیں کہ ہمارا جسم باہر سے کیسا ہے انداز، تاثرات اور احساسات جو ہمارے پورے جسم میں ہیں۔ مثال کے طور پر، جب ہم گھبرا جاتے ہیں تو آنت میں ہونے والی حسیں، یا گلے میں ایک گانٹھ، یا جب ہم تھکے ہوئے ہوتے ہیں تو آنکھوں کا بوجھل ہونا۔ پروپیوسیپشن دوسرا سب سے اہم احساس ہے۔ اور پھر باقی کے پانچ حواس آتے ہیں۔ یہ تو پہلے ہی معلوم تھا کہ دماغ کو یہ جاننا ہوتا ہے کہ پورا جسم کیسا ہے، لیکن اس سے پہلے انہیں غیر فعال معلومات سمجھا جاتا تھا، اب تبدیلی یہ ہے کہ یہ ایک باقاعدہ احساس ہے۔ یعنی ایک احساس کہ جو معلومات دماغ حاصل کرتا ہے اسے اس کا جواب دینا ہوگا۔
چہرے کے تاثرات دماغ کو کس طرح متاثر کرتے ہیں؟
ہمارے چہرے پر جو کچھ ہوتا ہے اسے دماغ بہت اہمیت دیتا ہے۔ کئی ایسی چیزوں کا مشاہدہ کیا گیا ہے جو بہت اہم ہیں۔ ایک جانب یہ دیکھا گیا ہے جو لوگ گھورتے ہیں، جیسا کہ ہم اکثر موبائل فون دیکھتے ہوئے کرتے ہیں، اس سے ہم دماغ کے اس حصے کو چھیڑ دیتے ہیں جسے امیگڈلا کہا جاتا ہے۔ دماغ کی گہرائی میں واقع اس حصے کا تعلق ہمارے جذبات سے ہوتا ہے۔
آنکھوں کے ارد گرد عضلات کے علاوہ دماغ کے لیے چہرے کا دوسرا اہم حصہ منہ ہے۔ ہم اس کی طاقت سے واقف نہیں ہیں، لیکن یہ طاقت بڑی متاثر کن ہے۔ مثال کے طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب ہم مُسکراتے ہوئے لوگوں کو دیکھتے ہیں تو ہم زیادہ تخلیقی ہو جاتے ہیں اور ہماری علمی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دماغ ہمیشہ یہ کوشش کرتا ہے کہ دماغ اور جسم میں ہم آہنگی رہے۔
جب ہم کسی قسم کے جذبات میں ملوث ہوتے ہیں، اگر ہم اس لمحے رک جائیں اور اپنی توجہ جسم کے احساسات کی طرف موڑ دیں تو اس سے ہمیں بہت سکون ملتا ہے۔ یہ خود کو سکون دینے کا ایک طریقہ ہے جس سے ہم دماغ میں پیدا ہونے والے گرداب کو روک سکتے ہیں۔ اسی چیز کو اپنے باڈی اویئرنیس یا اپنے جسم کا ادراک کہتے ہیں۔
دماغ کے کس حصے میں ہم اپنے انداز اور تاثرات کو محسوس کرتے ہیں؟
ہمارے دماغ میں ایک ایسا حصہ ہوتا ہے جو اس ہیڈ بینڈ جیسا ہوتا ہے جس سے آپ اپنے بالوں کو باندھ کر رکھتے ہیں۔ اسے سوماٹوسینسری کورٹیکس کہا جاتا ہے ، اور دماغ کا یہ حصہ ہمارے جسم کی نمائندگی کرتا ہے کہ ہمارا جسم کیسا ہے۔
سوماٹوسینسری کورٹیکس کی دریافت 1952ء میں ہوئی تھا اور سائنسدانوں کا خیال تھا ہمارے جسم کا کوئی حصہ جتنا بھی بڑا ہوتا ہے، دماغ کے حصے میں اس کے لیے مخصوص نیورونز کی تعداد بھی اتنی زیادہ ہوتی ہے۔ اس مناسبت سے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ ہمارے دماغ میں سب سے زیادہ نیورون ہماری کمر سے متعلق ہوتے ہیں اور ہماری چھوٹی انگلی کے لیے سب سے کم نیوروز ہوتے ہیں۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ ہوتا یہ ہے کہ ہمارا دماغ جسم کے کچھ حصوں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے اور اس کا تعلق اس حصے کے حجم سے نہیں ہوتا۔
اس تحقیق کے نتیجے میں یہ سامنے آیا کہ ہمارا دماغ پورے جسم میں جس چیز کو زیادہ اہمیت دیتا ہے وہ ہمارا چہرہ، ہمارے ہاتھ اور ہمارے بیٹھنے کا انداز یا کمر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چونکہ ہمارے ہاتھ بہت اہم ہیں، اس لیے چھوٹی انگلی میں پوری کمر اور ٹانگ کے مقابلے میں سو گنا زیادہ نیورونز ہیں۔ جب ہم بولتے ہیں تو ہم اپنے ہاتھوں کا استعمال بکثرت استعمال کرتے ہیں جس سے ہم دماغ کے ان حصوں کو زیادہ فعال کر رہے ہوتے ہیں۔