تعلیم کا موضوع پاکستان میں سب سے زیادہ زیرِبحث رہنے والے موضوعات میں شامل ہے۔ حکومتیں مسلسل اس موضوع پر بات کرتی ہیں، اپنے اقدامات کا ذکر کرتی اور یہ دعویٰ کرتی نظر آتی ہیں کہ وہ تعلیمی صورت حال کو بہتری کی طرف لے جارہی ہیں۔ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ اپنے مسائل اور کارکردگی پر گفتگو کرتی ہے، اساتذہ اپنے مسائل کی طرف متوجہ کرتے ہیں، والدین تعلیم سے وابستہ اپنی خواہشات اور توقعات پر زور دیتے نظر آتے ہیں، طالبعلم اپنی دشواریوں اور مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ زیادہ سنجیدگی سے تعلیم کے موضوع پر غور کرنے والے لوگ نصاب کو بھی زیربحث لاتے ہیں۔ غرض تعلیم ایک ہمہ جہت موضوع ہے جو معاشرے کے مختلف حلقوں کو تحسین و تنقید دونوں حوالوں سے اپنی طرف متوجہ رکھتا ہے۔
تعلیم کا مجموعی منظرنامہ
بحیثیت مجموعی پاکستان کی گذشتہ پچھتر سالہ تعلیمی کارکردگی پر غور کیا جائے تو ایک بات جو بہت واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں تعلیم کے شعبے میں وسعت تو آئی ہے،تعلیمی اداروں کی تعداد بڑھی ہے، اساتذہ اور طلبہ کی تعداد میں بھی سات عشرے قبل کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، اور جو مضامین ماضی میں پڑھائے جاتے تھے ان کے علاوہ اب بہت سے نئے مضامین تعلیمی نظام کا حصہ بن چکے ہیں۔
جن مضامین کو ’اسٹیٹ آف دی آرٹ‘مضامین کہا جاتا ہے یعنی جو جدید ترین مضامین ہیں اور جن کی عملی اور کاروباری زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے، وہ بھی ہمارے سب اداروں میں نہ سہی ، لیکن بہت سے اداروں میں پڑھائے جانے لگے ہیں، اور ایسے اداروں کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی بھی جارہی ہے۔
تعلیم میں اس وسعت کے باوجود ہمارے پورے تعلیمی نظام کا ایک دوسرا رخ بھی ہے، وہ یہ کہ، آزادی کے سات ساڑھے سات عشرے گزرنے کے بعد،آج بھی ہماری شرح خواندگی62.8 فیصد سے زیادہ نہیں ہے، جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے کئی ملک 95فیصد سے زیادہ شرح خواندگی حاصل کرچکے ہیں۔پاکستان دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے جو تعلیم پر بہت کم خرچ کرتے ہیں۔’پاکستان اکنامک سروے (2021-22) کی رو سے پاکستان نے مالیاتی سال2021میں تعلیم پرمجموعی قومی پیداوار(GDP)کا محض 1.77فیصد خرچ کیا۔تعلیمی صورت حال کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں5سے 16سال تک کی عمرکے ایسے بچوں کی تعدادجو اسکول جانے کی عمر میں تو پہنچ چکے ہیں مگر اسکولوں میں داخل نہیں ہیں، 2 کروڑ30لاکھ ہیں۔
یہ تعداد اس عمر کے بچوں کی کُل تعداد کا 44فیصد ہے۔ہماری یہ کارکردگی اُن دعووں کے باوصف ہے جو مختلف حکومتیں تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے صبح و شام کرتی رہی ہیں۔ 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل 25-Aشامل کیا گیا تھا، جس نے ریاست کو اس بات کا پابند کیا تھا کہ وہ پانچ سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم کو یقینی بنائے گی ۔اس سلسلے میں قومی اسمبلی اور مختلف صوبائی اسمبلیوں نے قانون سازی بھی کی، لیکن ان قوانین پر عملدرآمد کی کوئی قابل اطمینان تصویر تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی اب تک سامنے نہیں آسکی۔
ایشین ڈیولپمنٹ بینک کی فروری2022 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد بلحاظِ عمر کچھ یوں ہے کہ 5 سے 9 سال تک کے بچے 50 لاکھ 10 ہزار، 10 سے 12 سال کی عمر کے بچے 65 لاکھ، اور 13 سے 16 سال تک کے بچے 1کروڑ13لاکھ کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان اعداد سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ بڑی تعداد میں ایسے بچے ہیں جو پانچ یا کچھ زیادہ سال کی عمر میں اسکولوں میں تو داخل ہوجاتے ہیں لیکن جوں جوں عمریں بڑھتی جاتی ہیں ان کی اسکولوں میں موجودگی کم ہوتی جاتی ہے، یہ وہ بچے ہیں جو پرائمری یا سیکنڈری تعلیم جار ی نہیں رکھ سکے، جس کی بڑی وجہ ان کے ماں باپ کی غربت ہے جس کی وجہ سے وہ بچوں کو اسکول سے اٹھانے اور ان کو کسی کام دھندے میں لگا کر دو پیسے کمانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
تعلیم کے مقاصد
کسی بھی معاشرے کے اندر تعلیم کس نہج پر استوار ہوتی ہے، تعلیم کے مقاصد کون طے کرتا ہے، ان مقاصد کے حصول کے لیے نظام کیا وضع کیا جاتا ہے، اس نظام کی تشکیل میں ترجیحات کیونکر طے ہوتی ہیں، یہ وہ بنیادی امور ہیں جو کسی بھی تعلیمی نظام کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں۔ تعلیم کے بارے میں یہ بات تو طے ہے کہ یہ ہر ملک اور معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے لیکن تعلیم کے مقاصد کون طے کرتا ہے او ر یہ کیا ہوسکتے ہیں۔
تعلیم کے شعبے سے وابستہ مفکرین کا خیال ہے کہ، تعلیم کا ایک مقصد تو واضح طور پر یہ ہے کہ طالبعلم میں مختلف مضامین کی استعداد پیدا کی جائے، اس کے علم میں اضافہ کیاجائے، اس میں تحقیق اور جستجو کا جذبہ پیدا کیا جائے اوراِس لائق بنایا جائے کہ وہ اپنے لیے کسی ایسے پیشے کا انتخاب کرسکے جو اس کے ذوق کے مطابق ہو۔
اس کے ساتھ ہی وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی پسند کے شعبے کے لیے کارآمد فرد بن سکے،اُس کو اچھی ملازمت مل سکے جو اُس کے خاندان کے لیے خوشحالی کا پیغام لاسکے۔ یہ تو تعلیم کے مادی اور اقتصادی پہلو ہیں ،لیکن تعلیم کا ایک دوسرا، اہم پہلو یہ بھی ہے کہ تعلیم فرد کے اندر ایک اچھے انسان کی تخلیق کرسکے۔
وہ محض اپنی خوشحالی اورترقی کو پیش نظر نہ رکھے بلکہ اس میں ایک اچھے انسان کے اوصاف بھی پیدا ہوسکیں، ایک ایسا انسان جو زندگی کے ہر مرحلے پر اپنے لیے فیصلے کرتے وقت صحیح اور غلط کی تمیز کرسکے،وہ دوسرے انسانوں کے حقوق کاپاس کرتا ہو،دوسروں کے لیے اس میں درد مند ی ہو اور وہ معاشرے کا ایک اچھا فرد بن سکے۔ غالب نے کتنے پتے کی بات کہی تھی کہ ؎
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
گویا انسان بننااصل آزمائش کی بات ہے ،کیونکہ انسان اقدارِ حیات کا مظہر ہوتا ہے۔ اس کے دل میں درد مندی ہوتی ہے،روشن خیالی اور معاشرے کو بہتر بنانے کی خواہش ہوتی ہے۔ ان معنوں میں تعلیم کا مقصدآدمی کو انسان کے درجے پر فائز کرنا ہوتا ہے، یہ نہ ہو تو معاشرہ مادی اور طبعی وجودوں کا مجموعہ بن کر رہ جاتا ہے۔
تعلیم کی طرف ریاست اور حکومتوں کا رویہ
اگر تعلیم کے مقاصد یہ ہیں تو لازماً اس کے لیے ایک جمہوری فضا کا ہونا ضروری ہے، ایک ایسی فضا جس میں طالبعلم اپنے حقوق اور فرائض کو سمجھتا ہو، حقوق اور فرائض کا یہ احساس اس کوتعلیمی ادارے کے اندر پائے جانے والے کلچر سے بھی حاصل ہو،وہ اپنی پسند کا مضمون منتخب کرسکے، اس کا نصاب اس کے لیے کوئی ایسی منجمند چیز نہ بن جائے جس کے بارے میں وہ اپنے ذہن سے کوئی رائے قائم نہ کرسکے، اس کو یہ ماحول فراہم کیا جائے جس میں وہ سوال کرنے کا اختیار رکھتا ہو،اس کو تنقیدی طرز فکر پر مائل ہونے کا ماحول فراہم ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں نہ ریاست کے امور میں اور نہ ہی معاشرے کی غالب اقدار میں، جمہوریت کو کوئی مقام حاصل ہوسکا۔
ہماری ریاست اور معاشرہ بحیثیت مجموعی مالک اور رعایا،حاکم اور محکوم ، سرپرست اور تابعدار، آجر اور مزدور، محسن اور احسان مندکی تقسیم کے حامل رہے ہیں، خود ہمارے خاندانی نظام میں بھی بچے کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنے کے بجائے عموماً اس کوبڑوں کے جائز و ناجائز احکام پر کاربند ہونے کی تعلیم اور تربیت دی جاتی ہے۔
یہ پورا نظام جو ذہن تیار کرتا ہے وہ تنقید کے بجائے تقلید کی طرف مائل ہوتا ہے۔وہ طالبعلم کو ، جب وہ کسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہوتا ہے، تو اس کے ہاتھ میں ایک ڈگری تو تھمادیتا ہے مگر اس کے اندر ایک عزت ِ نفس اور خود اعتمادی کے حامل انسان کی حیثیت سے اورتنقیدی نقطہ نظر سے دنیا کو دیکھنے اور تخلیقی انداز میں نئے راستے تلاش کرنے کی اہلیت مفقود ہوتی ہے۔
ہمارا تعلیمی نظام ایک ایسے ڈھانچے پر بھی استوار ہوا ہے جو ایک ایسی ریاست کا ڈھانچہ ہے جس کی اساس شدید قسم کی تحکم مزاجی اورمرکزیت پسندانہ سوچ پر استوار ہوئی ہے۔ اسی سوچ کے تحت تعلیم کومختلف النوع اداروں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ بحیثیت مجموعی دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں کی یہ تقسیم پہلی نظر ہی میں یہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ پورا نظام طبقاتی امتیازات کا حامل ہے۔یہ ایک ملک میں دو قومیں بنانے کا نظا م ہے۔ ایک وہ قوم جو اشراف پر مشتمل ہے اور دوسری قوم جو نچلے متوسط طبقے اور مختلف پسماندہ طبقوں پر مشتمل ہے۔
تعلیمی اداروں کی تقسیم دیکھیں تو ایک طرف کونوینٹ اسکول ہیں ، مہنگی فیسوں سے چلنے والے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں، کیڈٹ کالج اور آرمی پبلک اسکولز ہیں، جبکہ دوسری طرف پبلک اسکول ہیں جن میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی اکثریت داخل ہوتی ہے۔
پہلی طرح کے اسکولوں میں انگریزی ذریعہ تعلیم ہے،اچھے مشاہروں پر اساتذہ منتخب کیے جاتے ہیں، اسکولوں کا ماحول عمداً مغربی اسکولوں کے مطابق بنانے کی کوشش کی جاتی ہے، بچوں میں اردو اور پاکستان کی دیگر قومی زبانیں بولنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ بعض مثالیں تو ایسی بھی ہیں کہ اردو بولنے پر طالبعلموں کو سزائیں تک دی گئیں۔ اگر اردو کے ساتھ ان انگریزی میڈیم اسکولوں کا یہ رویہ ہے تو پاکستان کی دیگر زبانوں کے حوالے سے ظاہر ہے کہ ا س سے بھی زیادہ معاندانہ رویہ ان اسکولوں میں موجود ہوگا۔
ان اسکولوں سے نکلنے والے بچے، خاص طور سے وہ جو ان اسکولوں میں بھی بہترین اداروں سے نکلتے ہیں ان کو ملک میں قدرے بہتر ملازمتیں ملتی ہیں، وہ بینکوں ، کاروباری اداروں، میڈیا، سول سروس اور ایسے ہی سرکردہ اداروں میں ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہتے ہیں۔ جن کو ملک میں مناسب ملازمتیں نہ ملیں وہ بیرون ملک جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی نوجوانوں خاص طور سے اُن ڈگریوں اور استعداد (Skills) کے حامل نوجوانوں کی، بڑی تعداد بیرون ملک جاچکی ہے جن کی باہر کی مارکیٹ میں طلب پائی جاتی ہے۔
پبلک اسکولوں، سرکاری کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالبعلموں کی اکثریت بالعموم اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوتی۔ یہاں اُن کو میرٹ کے نام پر پچھاڑ دیا جاتا ہے۔اب یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ میریٹوکریسی (Meritocracy) دراصل ارسٹوکریسی (Aristocracy) ہی کی ایک شکل ہے ،کیونکہ میرٹ پہ وہی طالبعلم آگے آتے ہیں جن کی تعلیم اچھی ہوئی ہو، انہوں نے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھا ہو،مہنگی کتابیں جن کی دسترس میں رہی ہوں اور جنہیں انگریزی زبان زیادہ بہتر بولنی یا لکھنی آتی ہو۔کون کہہ سکتا ہے کہ پاکستان میں ہمارے نظامِ تعلیم نے قوم کو ان واضح دو گروہوں میں تقسیم نہیں کیا ہے؟ ہمارا نظامِ تعلیم ایک طبقاتی نظامِ تعلیم ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے شعبے کے طبقاتی امتیازات بڑھتے چلے جارہے ہیں۔
دینی مدارس
تعلیم کے شعبے کا ایک اور قابل توجہ پہلو ہمارے دینی مدارس ہیں جو روایتی طرز کی تعلیم دیتے رہے ہیں لیکن پچھلے کوئی دو عشروں سے بہت سے دینی مدارس میں روایتی مضامین کے علاوہ نئے مضامین بھی پڑھائے جارہے ہیں۔بہت سے مدارس کے اندر کمپیوٹر کا استعمال عام ہوچکا ہے۔ اساتذہ اور طالبعلم کوشش کررہے ہیں کہ اپنے آپ کو معاشرے کے لیے زیادہ سودمند بناسکیں اور خود بھی نئے شعبوں کے لیے تیار کرسکیں۔
اسکولوں،کالجوں اور جامعات کے فروغ میں عدم توازن
پاکستان کے تعلیمی نظام کا ایک اور بڑا تضاد مختلف مدارج کی تعلیم میں پایا جانے والا عدم توازن ہے۔ہمارے یہاں اسکولوں کی تعلیم کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی جاتی، حالانکہ مختلف مدارج میں یہ درجہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل اور توجہ کا مستحق ہے۔
اسکولوں میں زیادہ سے زیادہ طلبہ کو جگہ دینے اور ان کی بہتر سے بہتر تعلیم اس بات کی ضمانت فراہم کرتی ہے کہ کالج کی تعلیم بھی بہترہو جائے گی اور یونیورسٹیوں میں ان طلبا کو پہنچائے گی جو واقعی پرھنے اور اپنے علم کو جلا دینے میں کامیاب ہوسکیں گے۔بدقسمتی سے ہمارے یہاں اسکولوں اور کالجوں کی طرف تو کسی کی نظر نہیں جاتی البتہ یونیورسٹیوں کی تعداد بڑھانے اور انہی کو نظام تعلیم کی سرخروئی کا واحد ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ برسوں کی اس عدم توازن پر مشتمل حکمت عملی کے نتیجے میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے کالج اسکولوں کا منظر پیش کرنے لگے ہیں اور یونیورسٹیوں پر کالجوں کا گمان ہونے لگا ہے۔ ہماری یونیورسٹیاں اس وقت بہتر اساتذہ اور طالبعلموں کی حامل بن پائیں گی جب ایک طرف یہ اچھے نصاب کی تیاری میں کامیاب ہوں گی اور دوسری طرف کالجوں سے اچھے طالبعلموں کی آنے والی نسل کو مزید بہتر بناسکیں گی ۔یہی عمل کالجوں کی بہتری کا بھی ضامن ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے اسکولوں کو ا ن کی موجودہ پسماندگی سے نکالیں اور اسکولوں کے بچوں کو بہترین تعلیم سے آراستہ کریں۔
پاکستان میں تعلیم کے شعبے سے وابستہ بیشتر مایوسیوں اور انہی تضادات کا نتیجہ ہیں جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔ قیام پاکستان سے اب تک ملک میں نو، دس تعلیمی پالیسیاں جاری کی گئی ہیں، جن میں مختلف اہداف مقرر کیے، ان میں سے کچھ اہداف حاصل ہوئے، بہت سے حاصل نہیں ہوسکے۔ لیکن ان سب پالیسیوں کی قدرِ مشترک تعلیمی نظام کی موجود اساس، اور اس نظام کے اندر موجود تضادات سے ان کا تعرض ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تک تعلیم کو ایک روشن خیال،جمہوری، اور انصاف پر مبنی اساس فراہم نہیں کی جائے گی۔
معزز قارئین ایک نظر ادھر بھی
پروفیسر اور طلبا کی پُر زور فرمائش پر تعلیم کا صفحہ شروع کیا ہے۔ ہمیں خوشی ہے کہ اُنہوں نے ہمیں تجاویز بھی ارسال کیں اور مضامین بھی۔ یہ صفحہ اُن سب کے لیے ہے جو پڑھنا چاہتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بہتری کے خواہاں ہیں اور اپنے صفحے کے لیے لکھنا بھی چاہتے ہیں۔ ہمیں اپنی رائے کے ساتھ تعلیمی حوالے سے مضامین بھی ارسال کریں۔یہ صفحہ پندرہ روزہ ہے۔
ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید
میگزین ایڈیٹر، روزنامہ جنگ، اخبار منزل
آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی
ای میل: razia.fareed@janggroup.com.pk