• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عبید اللہ علیم 12جون 1939کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ 18 مئی1998 کو کراچی میں آخری سانس لی. ان کے والد رحمت اللہ بٹ سیالکوٹ سے نقل مکانی کرکے بھوپال میں آباد ہوگئے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی پدری زبان پنجابی اور مادری زبان اردو تھی۔ بچپن سے انھیں اچھے شعر یاد کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔

تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے ۔ میٹرک کے بعد پوسٹ آفس کے سیونگ بینک میں ڈیڑھ سال تک ملازمت کی، پھر تقریبا" دوسال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں کام کیا۔1959ء سے باقاعدگی سے شعر کہنا شروع کیے۔ کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ گیارہ سال پاکستان ٹیلی وژن کراچی میں پروگرام پروڈیوسر رہے۔ اپنا ماہ نامہ ’’نئی نسلیں‘‘ بھی شائع کرتے رہے۔

ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں‘‘ 1974ء میں شائع ہوا ،جس پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ دوسرا شعری مجموعہ ’’ویراں سرائے کا دیا‘‘ 1986ء میں چھپا۔ ایک اور مجموعہ’’ نگار صبح کی امیدیں‘‘ (1999) اور کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘(2000) کے نام سے شائع ہوئی. ایک نثری تصنیف"میں کھلی ہوئی ایک سچائی" 2001 میں شائع ہوئے

ذیل میں عبید اللہ علیم کےچند اشعار ملاحظہ کریں۔

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم

جو بجھ گئے تو ہوا سے شکائتیں کیسی

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی

لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

……٭٭……٭٭……

بنا گلاب تو کانٹے چبُھا گیا اِک شخص

ہُوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اِک شخص

……٭٭……٭٭……

عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے

اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے

……٭٭……٭٭……

مجھے کمالِ سخن سے نوازنے والے

سماعتوں کو بھی اب ذوق ِ آشنائی دے

……٭٭……٭٭……

اندر بھی زمیں کے روشنی ہو

مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے

……٭٭……٭٭……

اے میری روشنی تو مجھے راستا دکھا

بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی

……٭٭……٭٭……

میں اُس کو بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا

تَو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی

……٭٭……٭٭……

کہاں تک اور بھلا جاں کا ہم زیاں کرتے

بچھڑ گیا ہے تو یہ اُس کی مہربانی ہوئی

……٭٭……٭٭……

اب تُو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا

ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافر تو مجھے کیا

مَیں نے اُسے چاہا تھا تو چاہا نہ گیا مَیں

چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا

…چاند چہرہ، ستارہ آنکھیں…

ميرے خدايا

ميں زندگی کے عذاب لکھوں

کہ خواب لکھوں

يہ ميرا چہرہ، يہ ميری آنکھيں

بُجھے ہوئے سے چراغ جيسے

جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں

وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں

وہ مہرباں سايہ دار زلفيں

جنہوں نے پيماں کيے تھے مجھہ سے

رفاقتوں کے، محبتوں کے

کہا تھا مجھ سے

کہ اے مسافر رِہ وفا کے

جہاں بھی جائے گا

ہم بھی آئيں گے ساتھہ تيرے

بنيں گے راتوں ميں چاندنی ہم

تو دن ميں تارے بکھير ديں گے

وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں

وہ مہرباں سايہ دار زلفيں

وہ اپنے پيماں

رفاقتوں کے، محبتوں کے

شکست کرکے

نہ جانے اب کس کي رہ گزر کا

مينارہِ روشنی ہوئے ہيں

مگر مسافر کو کيا خبر ہے

وہ چاند چہرہ تو بجھ گيا ہے

ستارہ آنکھيں تو سو گئی ہيں

وہ زلفيں بے سايہ ہو گئی ہيں

وہ روشني اور وہ سائے مری عطا تھے

سو مری راہوں ميں آج بھی ہيں

کہ ميں مسافر رہِ وفا کا

وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں

وہ مہرباں سايہ دار زلفيں

ہزاروں چہروں، ہزاروں آنکھوں، ہزاروں زلفوں کا

ايک سيلابِ تند لے کر

ميرے تعاقب ميں آرہے ہيں

ہر ايک چہرہ ہے چاند چہرہ

ہيں سارہ آنکھيں ستارہ آنکھيں

تمام ہيں مہرباں سايہ دار زلفيں

ميں کِس کو چاہوں، ميں کس کو چُوموں

ميں کس کے سايہ ميں بيٹھہ جاؤں

بچوں کہ طوفاں ميں ڈوب جاؤں

کہ ميرا چہرہ، نہ ميری آنکھيں

ميرے خدايا ميں زندگی کے عذاب لکھوں، کہ خواب لکھوں

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔

ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی