محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی آج 70ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے ۔ 27دسمبر 2007ء کو ان کی شہادت کے بعد یہ ان کی 15 ویں سالگرہ ہے ، جو ہم ان کے بغیر منا رہے ہیں ۔ جب وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے جدا ہوئیں تو ان کی عمر صرف 54سال تھی ۔ انہوں نے اپنی زندگی اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے قربان کر دی ۔ ان کی سالگرہ پر ہم انہیں یہ تحفہ دے سکتے ہیں کہ ہم بھی اپنی زندگیاں اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے لیے وقف کر دیں۔
آج سے 45 سال قبل 21جون 1978 ء کو ، جب شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی25 ویں سالگرہ تھی ، ان کے عظیم والد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے سینٹرل جیل راولپنڈی سے انہیں ایک خط لکھا تھا ۔ اس وقت شہید بی بی بھی خود جیل میں تھیں ۔ یہ ایک طویل خط تھا ، جو ’’ میری سب سے پیاری بیٹی ‘‘ کے عنوان سے کتابی صورت میں شائع ہوا ۔ اس خط میں شہید بھٹو نے اپنی سب سے پیاری بیٹی کو لکھا کہ ’’میں ایک سزا یافتہ قیدی کس طرح اپنی خوبصورت اور ذہین بیٹی کو اس کے یوم پیدائش پر مبارک باد کا خط لکھ سکتا ہے جبکہ اس کی بیٹی خود بھی قید میں ہے اور یہ جانتی ہے کہ اس کی والدہ بھی اس طرح کی تکلیف میں مبتلا ہے اور اپنے پاپا کی جان بچانے کے لیے جدوجہد میں مصروف ہے ۔ یہ خط رابطے سے زیادہ بڑا معاملہ ہے ۔ محبت اور ہمدردی کا پیغام کس طرح ایک جیل سے دوسری جیل اور ایک زنجیر سے دوسری زنجیر تک پہنچ سکتا ہے۔ میں تمہیں صرف ایک پیغام دیتا ہوں ۔ یہ پیغام آنے والے دن کا پیغام ہے اور تاریخ کا پیغام ہے ۔ صرف عوام پر یقین کرو اور ان کی نجات اور مساوات کے لیے کام کرو ۔ یہ اللّٰہ تعالیٰ کا پیغام ہے کہ صرف عوام پر یقین کرو ۔ اللّٰہ تعالیٰ کی جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے اور سیاست کی جنت عوام کے قدموں تلے ہے ۔ میں اس جیل کی کوٹھڑی سے تمہیں کیا تحفہ دے سکتا ہوں ، جس میں سے میں اپنا ہاتھ بھی نہیں نکال سکتا ۔ میں تمہیں عوام کے ہاتھ کا تحفہ دیتا ہوں ۔ میں تمہارے لیے کیا تقریب منعقد کر سکتا ہوں ۔ میں تمہیں ایک مشہور نام اور ایک مشہور یادداشت کی تقریب کا تحفہ دیتا ہوں ۔ تم وادی سندھ کی سب سے قدیم تہذیب کی وارث ہو ۔ اس قدیم تہذیب کو انتہائی ترقی یافتہ اور انتہائی طاقتور بنانے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرو ۔ ’’21جون 1978 ء کو عظیم بھٹو نے اپنی سب سے پیاری بیٹی کو تحفے میں عوام کا ہاتھ دیا اور شہید بی بی نے نہ صرف مرتے دم تک عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا بلکہ عوام سے اپنا رشتہ نبھانے کے لیے اپنی سب سے بڑی متاع اپنی زندگی قربان کر دی ۔ اپنے والد کی شہادت کے چند سال بعد اٹلی کی معروف خاتون صحافی اوریانا فلاسی کو ایک انٹرویو میں شہید بی بی نے کہا کہ ’’پاکستان کی سیاست میں بہت آزمائشیں ، دکھ اور تکالیف ہیں ۔ مجھے میرے خاندان کے کئی لوگوں نے کہا کہ میں سیاست چھوڑ دوں اور مغرب کے کسی ملک میں شاہانہ زندگی گزاروں کیونکہ میرے پاس سب کچھ ہے ۔ لیکن میں اپنے وطن اور اپنے عوام سے رشتہ توڑ کر ایسی زندگی سے کس طرح لطف اندوز ہو سکتی ہوں ۔ ’’پھر دنیا نے دیکھا کہ شہید بی بی نے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے ساتھ یہ رشتہ کس طرح نبھایا ۔ وہ ایک شاہی خاندان میں سونے کا چمچہ لے کر پید اہوئی تھیں ۔ وہ اس قدر نرم اور حساس دل کی تھیں کہ کسی کا دکھ برداشت نہیں کر سکتی تھیں ۔ موت کی کال کوٹھڑی سے لکھے گئے اسی خط میں شہید
بھٹو نے اپنی سب سے پیاری بیٹی شہید بی بی بچپن کا ایک واقعہ لکھا ہے ۔ وہ اپنی بیٹی سے مخاطب ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ 1957 کے موسم سرما میں جب تم چار سال کی تھیں تو ہم ’’ المرتضیٰ ‘‘ کے بلند چبوترے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ صبح کے وقت موسم بہت خوشگوار تھا ۔ میرے ہاتھ میں دو نالی بندوق تھی ۔ میں نے بغیر سوچے سمجھے ایک جنگلی طوطا مار گرایا ۔ جب طوطا چبوترے کے قریب آکر گرا تو تم نے چیخ ماری ۔ تم نے اسے اپنی موجودگی میں دفن کرایا ۔ تم برابر چیختی رہیں اور تم نے کھانا کھانے سے بھی انکار کر دیا ۔ ’’ایک پرندے کی موت پر اس قدر رونے والی لڑکی نے تاریخ میں نہ صرف دو فوجی آمریتوں کا مقابلہ کیا بلکہ بندوق بردار دہشت گردوں کو بھی للکارا ، جنہیں اندرونی اور بیرونی طاقتوں کی سرپرستی حاصل تھی ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو 25 سال کی عمر سے 54سال کی عمر تک پاکستان جیسے ملک میں سیاست کی ، جو سیاست کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک تھا ۔ ان کی 29 سالہ سیاسی زندگی کا یہ عرصہ ویسے تو پوری دنیا خصوصاً تیسری دنیا میں عوامی سیاست کرنے والوں کے لیے انتہائی بدترین دور تھا ۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا ۔ دنیا بھر میں قومی آزادی کی تحریکوں کے ساتھ ساتھ جمہوری تحریکیں کمزور ہو گئی تھیں ۔ اسی دوران سرد جنگ کے عہد کا خاتمہ ہوا اور امریکا دنیا کی واحد سپر طاقت بن گیا ، جس نے دنیا پر ’’ نیو ورلڈ آرڈر ‘‘ نافذ کیا ۔ اس نیو ورلڈ آرڈر میں غیر ریاستی عناصر خصوصا ًدہشت گرد تنظیمیں عالمی سیاست کے ضابطے وضع کر رہی تھیں ۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے ذریعہ تیسری دنیا میں عوام دوست ، روشن خیال اور جمہوریت پسند قوتوں کو کچل کر رکھ دیا گیا ۔ تیسری دنیا کے کئی ملکوں میں مقبول عوامی قیادت اور ان کی سیاسی جماعتوں کو ختم کر دیا گیا ۔ اسی عرصے میں پاکستان کے سیاسی حالات دنیا میں سب سے بدتر تھے کیونکہ پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے پاکستان کو عالمی طاقتوں کے گریٹ گیم میں جھونک دیا تھا ۔ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے ان حالات میں ظلم کی طویل ترین رات کی دہشت کا فولادی اعصاب کے ساتھ بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا ۔ انہوں نے نہ صرف شہید بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کو تاریخ کے بدترین ابتلاء کے دور میں قائم رکھا بلکہ ملک میں جمہوریت بھی بحال کرائی ۔جب 18 اکتوبر 2007 ء کو شہید بی بی 8 سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آ رہی تھیں تو انہیں دیگر ملکوں کے حکمرانوں اور اپنے ملک کے کئی باخبر لوگوں نے کہا کہ وہ پاکستان واپس نہ جائیں کیونکہ ان کے قتل کا منصوبہ بنا لیا گیا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ میں پاکستان ضرور واپس جائوں گی ۔ میں اپنے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتی ۔ میں اپنے ملک کو اس حال میں نہیں دیکھ سکتی ۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ’’ ہم دلائل پر بات کرنے والے مرد اور عورتیں ہیں ، ہمارے بھی نظریات ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ ہمیں کیسے زندہ رہنا اور کیسے مرنا ہے ۔ تاریخ شہیدوں سے عبارت ہے ۔ تاریخ کا تانا بانا انقلاب کے دھاگوں سے بنا جاتا ہے ۔ ہم نے اپنی زندگیاں ، اپنی آزادی ، اپنی جوانی اور اپنا ذہنی سکون جمہوریت کے لیے قربان کر دیا ہے ۔’’ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں اپنے آخری جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’’ ہمارا جینا اور مرنا عوام کے ساتھ ہے‘‘ اس خطاب کے بعد عوام کی موجودگی میں ہی دہشت گردوں نے انہیں شہید کر دیا ۔ اس طرح عوام کا ہاتھ تھامے ہی وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں ۔ انہوں نے اپنے باپ کے اس تحفے کو سنبھال کر رکھا ، جو شہید بھٹو نے ایک خط کے ذریعہ ان کی 25 ویں سالگرہ پر دیا تھا ۔ آج ہم ان کی 70 ویں سالگرہ پر یہ عہد کریں کہ ہم بھی عوام کا ہاتھ تھامے رہیں اور اپنی دھرتی اور اپنے عوام کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کریں ۔ یہی شہید بی بی کی سالگرہ پر ان کے لیے سب سے بڑا تحفہ ہے ۔
وزیر اطلاعات اور ٹرانسپورٹ ، حکومت سندھ