بحرِ اوقیانوس میں سیاحوں کو لے کر جانے والی آبدوز کمپنی ’اوشین گیٹ‘ نے آبدوز میں موجود مسافروں کی ہلاکت کا اعلان کردیا۔
امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ آبدوز کمپنی اوشین گیٹ نے اپنا بیان جاری کردیا، جس میں آبدوز کمپنی نے مسافروں کی ہلاکت کا اعلان کر دیا۔
آبدوز کمپنی اوشین گیٹ کا کہنا ہے کہ لاپتا آبدوز میں موجود افراد ہلاک ہوچکے ہیں، یقین ہے کہ ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کیلئے جانے والی آبدوز کے مسافر اب نہیں رہے، ہمیں مسافروں کو کھونے کا بہت افسوس ہے۔
اوشین گیٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اب ہمیں یقین ہے کہ ہم ہمارے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اسٹاکٹن رش، شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان داؤد، ہیمش ہارڈنگ اور پال ہنری نارجیولیٹ کو کھو چکے ہیں۔‘
آبدوز کمپنی اوشین گیٹ کے بعد امریکی کوسٹ گارڈز نے بھی آبدوز کے ساتھ حادثے کی تصدیق کردی ہے۔
اس سے قبل ریسکیو ماہر ڈیوڈ مارنز نے برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زیر سمندر آبدوز کے دو اہم حصے ملے ہیں تاہم وہ خول نہیں ملا جس میں مسافر ہیں، یہ باتیں تصدیق کرتی ہیں کہ ملبہ آبدوز کا ہے جس کے ساتھ کچھ برا ہوا ہے۔
ڈیوڈ مارنر کا کہنا تھا کہ صدر ایکسپلوررز کلب کا دعویٰ ہے کہ یہ ملبہ لینڈنگ فریم اور آبدوز کا پچھلا کور ہے، صدر ایکسپلوررز کلب سائٹ پر موجود بحری جہازوں سے براہ راست معلومات لیتے ہیں۔
ریسکیو ماہر ڈیوڈ مارنر نے بتایا تھا کہ ٹائٹن غیر روایتی آبدوز ہے جس کا پچھلا کور نوک دار ہوتا ہے، اس آبدوز کا پچھلا نوک دار کور لینڈنگ فریم پر ٹکا ہوتا ہے۔
خبر ایجنسی کے مطابق امریکا، کینیڈا اور فرانس کی ٹیمیں آبدوز کی تلاش میں مصروف تھیں، ٹائی ٹینک کا ملبہ دکھانے کیلئے سیاحوں کو لے جانے والی آبدوز اتوار کو لاپتہ ہوئی تھی۔
تلاش کے کام میں شامل 2 ڈرون سمندر کی تہہ تک پہنچے تھے۔
آبدوز ٹائٹن میں معروف پاکستانی بزنس مین حسین داؤد کے بیٹے شہزادہ داؤد اور پوتے سلیمان داؤد سمیت 5 افراد سوار تھے جو 18 جون کو ٹائی ٹینک کا ملبا دیکھنے کے لیے کینیڈا کے علاقے نیو فاؤنڈ لینڈ سے آبدوز کے سفر پر روانہ ہوئے تھے۔
48 سالہ برطانوی پاکستانی تاجر شہزادہ داؤد اور ان کے 19 سالہ بیٹے سلیمان داؤد کو سائنس اور دریافت کا شوق ٹائی ٹینک کے ملبے تک لے گیا۔
اہل خانہ اور دوستوں کا کہنا تھا کہ سفر اور سائنس سلیمان داؤد کے ڈی این اے کا حصہ تھا۔ اپنے والد کی طرح سلیمان داؤد بھی سائنس میں گہری دلچسپی رکھتے تھے۔