ایک ایسے دور میں جب ہر نئے دن کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نوکریاں آٹومیشن اور مصنوعی ذہانت کی نظر ہورہی ہیں، ایک سوال جسے شاید زیادہ اہمیت نہیں دی جارہی، جو کہ اسے دی جانی چاہیے، وہ ہے: جب مشینیں روز بہ روز پہلے سے زیادہ ذہین بنتی جارہی ہیں، ایسے میں تعلیم حاصل کرنے کا کیا مقصد باقی رہ جاتا ہے؟
ویریزون وائرلیس کے چیف ایگزیکٹو آفیسرہینس ویسٹبرگ کہتے ہیں، ’میں نے اپنے کیریئر میں، اقوام ِ متحدہ کےتحت، دنیا بھر کے صارفین اور معاشروں کو اختراع کے فوائد پہنچانے کے لیے دنیا کے چند بہترین ٹیکنالوجی انجینئرز اور انسان دوستوں (ہیومینیٹیرینز) کے ساتھ کام کیا ہے۔ اس میں تازہ ترین منصوبہ فائیو جی ٹیکنالوجی کا ہے، جس کی مدد سے، موجودہ فور جی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ برق رفتاری سے ڈیٹا منتقل کیا جاسکتا ہے۔
اس دوران، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا تعلیمی نظام فائیو جی اور چوتھے صنعتی انقلاب کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مواقع سے فائدہ اُٹھانے کے لیے لوگوں کو تیار نہیں کرپارہا‘۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’تعلیم دان، پالیسی ساز، غیرمنافع بخش ادارے اور کاروبارے طبقہ، ان سب کو اس حقیقت اور اس کے ہمارے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کو ماننے کے لیے تیار رہنا چاہیے‘۔
ایسے میں، جب کمپیوٹر اور مصنوعی ذہانت عمومی انسانی صلاحیت کے برابر آچکی ہے یا اس سے آگے نکل رہی ہے، تعلیم کا مقصد کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کے جواب میں ماہرین تین مقاصد بتاتے ہیں:
٭ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ(STEM)کے میدان میں مہارت حاصل کرنا، تاکہ بتدریج اور تیزی سے ٹیکنالوجی کو اپناتے معاشرے کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
٭ لوگوں میں شہری اور اخلاقی اقدار و شعور پیدا کرنا، تاکہ وہ ان طاقتور ٹیکنالوجیز کو اپنی ذہانت، نقطہ نظر کے مطابق دیگر انسانوں کے بہترفائدے کے لیے استعمال کرسکیں۔
٭ تمام عمروں اور زندگی کے ہر مرحلے پر، درج بالا دونوں ضروریات پر پورا اُترنے کے لیے، ہمارے تعلیم نظام میں اب تک جو طریقے اختیار کیے گئے ہیں، ان کے مقابلے میں زیادہ تخلیقی اور زیادہ پُرجوش طریقے اختیار کرنا۔
یہ بات سمجھنا آسان ہے کہ مستقبل کی تعلیم میں STEMکو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ دنیا کی کئی ٹیکنالوجی کمپنیوں میں بھی STEMکو ترجیحی حیثیت دی جارہی ہے۔گوگل سے لے کر ویریزون تک، دنیا کی ساری بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں STEMپر کام کررہی ہیں۔
ایک ایسی دنیا، جسے ٹیکنالوجی آگے لے کر چل رہی ہے، اس دنیا میں STEM مضامین کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ہمارے معاشرے، کم از کم جو چیز کرسکتےہیں اور کرنی چاہیے، وہ یہی ہے کہ آمدنی کے تمام طبقوں، عمروں اور دونوں صنفوں میں STEM تعلیم کو مساوی طور پر عام کرنا چاہیے۔
ہرچندکہ، دنیا کے کئی معاشروں کا STEMتعلیم میں رجحان بڑھ رہا ہے اور انھوں نے ان مضامین میں قابلِ ذکر کامیابی حاصل کی ہے، تاہم تعلیم کا ایک شعبہ ایسا ہے، جسے بالکل نظرانداز کیا جارہا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے، جو آنے والی نسلوں میں ٹیکنالوجی کو دُرست سمت میں آگے لے جانے میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوگا۔ یہ شعبہ تعلیم ہے ہیومینٹیزکا۔ تاریخ،فلسفہ ، ادب (لٹریچر)اور فنونِ لطیفہ (آرٹس) وغیرہ ہیومینٹیز کے چند بنیادی اور اہم ترین مضامین ہیں۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ، عام خیال کے برعکس، ٹیکنالوجی کے عہد میں کچھ مضامین کو دیگر پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ ہمارے معاشروں کو اس فضول بحث سے نکلنا ہوگا، جس میں ایک طبقہ سائنسز اور ایک طبقہ ہیومینٹیز کو فوقیت دیتا ہے۔ نئے عہد کو دونوں کی مساوی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمارے نظام تعلیم میں ان دونوں طرح کے مضامین کو ضم کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔
سمجھنے کی بات یہ ہے کہ، دنیا کو ایسے انجینئرز کی ضرورت ہے جو جدید ٹیکنالوجی کو سمجھتے ہوں اور ساتھ ہی اسے ایسے مؤرخین بھی چاہئیں، جو حساس اور پیچیدہ مواد اور اعدادوشمار کو سمجھ کر اس سے مؤثر نتیجہ اخذ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران ہمارے سامنے ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں ٹیکنالوجی کے ماہرین سے جب صارف پوشیدگی (کنزیومر پرائیویسی)اور سیاسی نظام پر سوالات پوچھے گئے تو ان کے جوابات عمومی غلطیوں سے بھرپور تھے۔
ان باتوں سے ایک بات بالکل واضح ہوجاتی ہے: اگر ٹیکنالوجی، انسانوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کا کیا گیا وعدہ پورا کرنا چاہتی ہےتو اسے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا احاطہ کرنا ہوگا۔ وہ شعبہ جو ان معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا احاطہ کرتا ہے، یعنی ہیومینٹیز، اسے ایک طویل عرصے سے غلط زمانی قرار دے کر رد کیا جارہا ہے، حالانکہ معاشرے کی عمومی سوچ کے برعکس، درحقیقت یہی وہ شعبہ تعلیم ہے، جو ہمیں آنے والی خطرناک ٹیکنالوجیز کو بہترین انداز میں اور انسانوں کے بہترین فائدے میں استعمال کرنے کے قابل بنائے گا۔