جاوید اقبال صدیقی
فیضی اور طوبیٰ بہت خوش تھے ،کیونکہ آج ان کے بابا قربانی کا جانور لینے جارہےتھے۔ دونوں بچے تیار ہو کر اپنے بابا جان کے ساتھ جانوروں کی منڈی پہنچ گئے۔ وہاں ایک سے ایک خوبصورت گائیں، بیل، بچھڑے، بکرے، دُنبے، بھینسے اور اونٹ فروخت کے لئے لائے گئے تھے۔
دونوں بچے اپنے بابا کے ساتھ جانوروں کو دیکھتے ہوئے جا رہے تھے کہ ایک گائے کو دیکھ کر طوبیٰ رک گئی۔ ”دیکھیں بابا،یہ بہت خوبصورت گائے ہے، اسے خرید لیتے ہیں۔“طوبیٰ نے کہا۔بابا اور فیضی کو بھی یہ گائے بہت اچھی لگی۔ تھوڑے سے بھاؤ تاؤ کے بعد انھوں نے گائے خرید لی اور اسے لے کر گھر آگئے، انھوں نے گائے کو اپنے چھوٹے سے آنگن میں ہی باندھ دیا۔ رات بہت ہو چکی تھی دونوں بچے تھک کرسو گئے۔
اگلے دن صبح ہی دونوں بچوں نے اپنے بابا جان کے ساتھ مل کر گائے کو خوب نہلایا۔ اس کے گلے میں دلکش رنگوں کا ہار ڈال دیا، جس سے وہ اور بھی خوبصورت لگنے لگی۔ دونوں بچے گائے کی خدمت کرنے میں لگ گئے ۔جب بھی وہ گائے کے پاس جاتے وہ ان کے ہاتھ چاٹنے لگ جاتی،جس سے بچے اور بھی خوش ہوتے۔
”اماں!اس دفعہ گائے کا بچہ میرا ہو گا۔“بلو کہنے لگی۔ بلو اپنی اماں اور ابا کے ساتھ ایک گاؤں میں رہتی تھی۔ کھیتی باڑی کرنا اور جانور پالنا اس خاندان کا پیشہ تھا۔ان کے گھر میں بہت سارے جانور تھے۔ بلو کو اپنے جانوروں سے بہت پیار تھا۔ ان کے گھر میں ایک گائے، تین بکریاں، بہت سی مرغیاں، چوزے، ایک خوبصورت بلی اور گھر کی حفاظت کے لئے ایک کتا بھی تھا۔
کچھ ہی دنوں بعد گائے نے ایک خوب صورت بچہ دیا۔بلو نے اس کا نام بنٹی رکھ دیا۔ بلو دن رات گائے اور اس کے بچے کی خدمت کرتی۔ بنٹی اب بڑی ہو گئی تھی،اس لئے وہ گھر بھر میں دوڑتی پھرتی تھی۔ بلو جدھر جاتی،بنٹی بھی اس کے ساتھ جاتی۔ بنٹی اپنی ماں کے پاس سونے کے بجائے بلو کے پلنگ کے پاس ہی سو جاتی اور تھوڑی تھوڑی دیر بعد بلو کے ہاتھ یا پیر کو چاٹتی رہتی۔
گاؤں والے بلو کا اپنی گائے سے اتنا پیار دیکھ کر بہت حیران ہوتے۔ بنٹی بھی بلو کے ہاتھ سے ہی چارا کھاتی تھی۔ بنٹی جب دو سال کی ہوگئی توایک دن گاؤں کا قصائی چاچا کرمو بلو کے گھر آگیا اور اس کے ابا سے کہنے لگا:”بھائی فضل دین! تمہارا جانور اب دو سال کا ہو گیا ہے۔ کیا خیال ہے اس سال آجاؤں؟“
بلو،چاچا کرمو کو دیکھ کر اُداس ہو گئی۔ وہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا، کیونکہ وہ گاؤں کے سارے خوبصورت جانور لے جاکر منڈی میں بیچ دیتا تھا۔ اس عید پر اس کی نظر بنٹی پر تھی۔
”اماں!میں بنٹی کو نہیں بیچنے دوں گی۔ میں نے اسے بہت پیار سے پالا ہے،یہ میری دوست ہے۔ میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی۔“ بلو رونے لگی۔
بلو کو روتے دیکھ کر اماں اس کے قریب آئیں اسے اپنے گلے لگا لیا اور کہنے لگیں،”دیکھو بیٹی! ہم غریب لوگ ہیں اور جانور پالتے ہیں،پھر ان کو بیچ کر ہمیں جو پیسے ملتے ہیں،ان سے ہم اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔یہ گائے تمہاری ہے، اسے بیچ کر جو پیسے ملیں گے، وہ تم اپنے پاس رکھ لینا،کل کو تمہارے کام آئیں گے۔‘‘
پھر ایک دن چاچا کرمو آکر بنٹی کو لے گیا۔بلو نے رو رو کر بُرا حال کر لیا۔وہ بار بار اماں سے سوال کرتی رہی کہ اب بنٹی کہاں ہو گی!چاچا کرمو اسے کہاں لے کر جائے گا،شہر والے اسے کہاں رکھیں گے،شہر میں اسے کھانے کو کیا ملے گا،ان ہی سوالوں میں گم رات کے پچھلے پہر بلو کو نیند آگئی۔
عید میں ابھی چند دن باقی تھے۔ محلے میں طرح طرح کے جانوروں کی گویا نمائش لگی ہوئی تھی۔ طوبیٰ نے کہا، ”کیوں نہ ہم اس کا پیارا سا کوئی نام رکھ دیں۔“
فیضی نے بنٹی کھاتے ہوئے طوبیٰ سے کہا،”ہم اس کا نام بنٹی رکھ دیتے ہیں۔“
جیسے ہی طوبیٰ نے گائے کو بنٹی کے نام سے پکارا۔اس نے فوراً پلٹ کردیکھا۔
”مما!لگتا ہے اس کا نام بنٹی ہی ہے ہم اس کو ذبح نہیں کریں گے۔رات کو دیر تک دونوں بچے گائے کے ساتھ ہی رہتے اور صبح ہوتے ہی اس کے کھانے کے بندوبست میں لگ جاتے۔ان کو اپنے کھانے سے زیادہ بنٹی کے کھانے کی فکر ہوتی۔ آج عید قرباں تھی۔ فیضی تیار ہو کر اپنے بابا کے ساتھ عید کی نماز پڑھنے چلا گیا۔ نماز پڑھ کر جب وہ واپس آرہے تھے تو انھیں راستے میں قصائی مل گیا۔ اسے گھر میں دیکھتے ہی دونوں بچوں نے کہرام مچا دیا۔فیضی ایک طرف کھڑا رو رہا تھا، جب کہ طوبیٰ نے اپنے آپ کو کمرے میں بند کر لیا۔ رو رو کر بچے ہلکان ہو رہے تھے۔ اسی ہنگامے میں گائے ذبح ہو گئی۔بچوں کو ان کے ماموں اپنے ساتھ باہر لے گئے۔
”بلوبلو!جلدی اُٹھو۔آج عید کا دن ہے تم اب تک سو رہی ہو۔“اماں کی آواز پر بلوں آنکھیں ملتی ہوئی اُٹھ گئی۔ وہ سیدھی اماں کے پاس آئی اور رونے لگی۔
”کیا بات ہے بیٹی! آج عید کا دن ہے۔ تم رو کیوں رہی ہو؟“
”اماں!آج رات میں نے خواب میں دیکھا بنٹی دو بچوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی کچھ کھا رہی تھی۔وہ بہت خوش تھی۔ اس کے گلے میں ہار اور پاؤں میں خوبصورت کنگن بھی تھے۔ اماں!لگتا ہے اس کو وہ جگہ پسند آگئی ہے۔“
”ہاں بیٹا! آج بنٹی اس سے بھی اچھی جگہ چلی جائے گی۔“