• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے دور کے سب سے بڑے بحری جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے جانے والی آبدوز ٹائٹن جو کہ 19جون کو بحر اوقیانوس کی تہہ میں اُترنے کے بعد حادثے کا شکار ہو گئی اور 14جون کو یونان کے جنوب مشرقی ساحل پر جو غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبی ،ان میں دو مختلف دنیائوں کے لوگ سوار تھے۔ ایک میں دنیا کے ارب پتی لوگ سوار تھے جو اپنی تسکین طبع کیلئےگہرے سمندر کی سیر کرنے نکلے تھے تو دوسری پر ایسے لوگ سوار تھے جن کے چہروں سے غربت ٹپکتی تھی، جو مجبور تھے، بے روزگار تھے اور خود کو اور اپنے گھر والوں کو ان مشکل ترین حالات سے نکالنے کیلئے اپنی ساری جمع پونجی لگا کر غیر قانونی اور مشکل ترین راستوں سے یورپ کے سفر پر نکلے تھے۔لیکن دنیا نے ان دونوں حادثات پر جو ردِ عمل دیا، جس طرح عالمی میڈیا نے آبدوز کی گمشدگی کے بعد پل پل اس حادثے کی خبر دی ، جس میں محض پانچ لوگ سوار تھے اور دیگرممالک اُن کو بچانے کی ہر ممکن کوشش میں مصروف تھے جس کیلئے سارے وسائل بھی بروئے کار لائے گئے لیکن ان تمام تر کوششوں کے باوجود انہیں بچایا نہ جا سکا کیونکہ یہ ممکن ہی نہ تھا لیکن دوسری طرف یونان کے ساحلی علاقے میں ڈوبنے والی کشتی پر سوار سات سو سے زائد جانوں کو بچایا جا سکتا تھا مگر انہیں مصلحتاً سمندرکی لہروں کی نذر کر دیا گیا۔ اب تو ایسے شواہد بھی سامنے آ رہے ہیں کہ یونانی کوسٹ گارڈز کئی دنوں سے اس کشتی کی نگرانی کر رہے تھے۔ اگلے روز سابق امریکی صدرباراک اوباما نے بھی اپنے ایک انٹر ویو میں اسی خدشے کا اظہار کیا ہے ،جس پر وہاں بیٹھے افرادنے ان کیلئے اتنی تالیاں بجائیں کہ وہ اپنی بات بھی مکمل نہ کر سکے۔

زیادہ حیران کن امر یہ تھا کہ مغرب کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی یہی رجحان دیکھا گیا ۔ یہاں بھی کئی لوگ مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر آبدوز حادثے کو لے کر فکر مند تھے اور ہر طرف اسی کے حوالے سے بات ہو رہی تھی لیکن دوسری طرف غیر قانونی تارکین وطن کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا اور اگر کوئی شخص اس حوالے سے بات کر بھی رہا تھا تو اُس کا مقصد اس حادثے سے سیاسی فائدہ کشید کرنا تھا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ملکی معاشی حالات اس قدر گمبھیر ہیں کہ لوگ روزگار کی خاطر ملک چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

ہماری اشرافیہ کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ عام پاکستانی سے بالکل الگ تھلگ رہتی ہے، سماجی ناانصافی اس قدر بڑھ چکی ہے کہ زیادہ تر لوگ یونان کشتی حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے بجائے ٹائٹن نامی آبدوز میں سوار افراد کیلئے فکر مند تھے۔ بہت سے لوگ یہ بات کر رہے تھے کہ اس آبدوز میں سوار بزنس مین باپ بیٹے کے مابین آخری وقت میں کیا مکالمہ ہو رہا ہوگا۔ اس کے برعکس یونان میں حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں جو مائیں اپنے بچوں کے ساتھ سوار تھیں یا جو اپنے بھائیوں کے ساتھ سوار تھے، ان کے درمیان ہونے والے مکالمے کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی۔

اس لاتعلقی کی ایک مثال ہمیں سفارت خانوں کے باہر یا ایئر پورٹوں کے امیگریشن کائونٹروں پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ جہاں اشرافیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ نچلے یا درمیانے درجے کے اپنے ہم وطنوں کو یہ دکھایا یا بتایا جائے کہ ہم تم سے برتر ہیں۔ ان پر اپنے انگریزی لہجے اور چال ڈھال سے رعب ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دبئی اور ابو ظہبی کا سفر کرنے والی اشرافیہ اکثر یہ شکایتیں کرتی سنائی دیتی ہے کہ وہاں کی فلائٹس پر مزدور طبقہ اکثریت میں موجود ہوتا ہے اس لیے وہاں کی فلائٹس اچھی نہیں گزرتیں۔

کئی لوگوں کا موقف یہ تھا کہ دونوں واقعات میں قانونی اور غیر قانونی کا واضح فرق موجود ہے۔ حیرانی ہوتی ہے کہ نجانے اُنہوں نے ایسا کون سا قانون پڑھ رکھا ہے جس میں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی غیر قانونی کام کر رہا ہے تو اُسے مرنے دینا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ پناہ کی درخواست کرنا تو عالمی قوانین کا حصہ ہے اگر قانونی اور غیر قانونی کی بحث میں ہی پڑنا ہے تو پھر کیا آبدوز چلانے والی کمپنی نے حفاظتی اقدامات کو بالائے طاق رکھ کر کوئی قانونی کام کیا ہے؟ دنیا بھر کے ماہرین کی طرف سے مذکورہ آبدوزکو لاحق خطرات کے حوالے سے جو خدشات ظاہر کیے گئے تھے انہیں پس پشت ڈالنا، ان کی کوئی پروا نہ کرنا قانونی تھا؟ یہ کوئی جرم نہیں؟

اشرافیہ کے مسائل کو ویسے بھی زیادہ پذیرائی اور ہمدردی ملتی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں صرف اسکولوں سے باہر موجود بچوں کے مسائل پر بات کی جاتی تھی اور اب اس مسئلے کی جگہ اشرافیہ کے مہنگے اسکولوں کی بھاری فیسوں نے لے لی ہے۔ غربت اور بے روز گاری کو بھی مستقل مسئلہ سمجھ کر اب پس پشت ڈالا جا چکا ہے۔ یونان کشتی حادثے کو بھی معمول کا حادثہ قرار دے کر نظر انداز کر دیا گیا کہ غیر قانونی تارکین وطن تو آئے روز ڈوبتے ہی رہتے ہیں۔ یہ کون سی نئی بات ہے۔ رواں برس فروری میں بھی اٹلی میں غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی ڈوبی تھی جس میں 14پاکستانی بھی شامل تھے۔ اس سے قبل گزشتہ برس نومبر میں بھی اسی نوعیت کا کشتی حادثہ ترکیہ میں پیش آیا تھا، اس حادثے میں بھی پاکستانی جاں بحق ہوئے۔ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ تقریباً 19ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقے سے یورپی ممالک میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، جن کی اکثریت ایسے ہی حادثات کا شکار ہو جاتی ہے اور جو ان ممالک میں داخل ہونے میں کامیاب ہو بھی جاتے ہیں وہ یا ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں یا وہاں کی جیلوں میں سڑتے ہیں۔ جن کی حکومت کو کوئی فکر نہیں بلکہ اطلاعات ہیں کہ یہ سب مبینہ طور پر متعلقہ محکمے کے اعلیٰ حکام کی ملی بھگت سے ہوتا ہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا کوئی نہیں۔

جارج اوریل کی کتاب Animal Farm میں جانوروں کی بنائی حکومت نے دوسرے جانوروں کو قابو میں رکھنے کیلئے کہا تھا کہ’’تمام جانور برابر ہیں، لیکن کچھ جانور دیگر جانوروں سے زیادہ برابر ہیں‘‘۔ ہمارے ہاں آج بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین