شعبہ حیاتیات میں حقیقتاً بڑی حیرت انگیز دریافتیں ظہور پذیر ہو رہی ہیں ۔پودوں اور جانوروں کی زندگی سے منسلک تمام معلومات ان کے DNA میں درج ہوتی ہیں۔ DNA خلیے کے اہم مرکوزے (nucleus) میں موجود ہوتا ہے اور چار بنیادی عناصر سے مل کر بنتا ہے۔ تقریباً 3 کھرب بنیادی عنصر ایک دوہری لڑی میں ایک مخصوص ترتیب سے مرتّب ہو تے ہیں اور یہی ترتیب کسی بھی جاندارکی خصوصیات بیان کرتی ہے۔ تصوّر کریں کہ ایک بہت لمبا چار رنگوں(چار بنیادی عنصر) کے موتیوں سے آپس میں لپٹی ہوئی دو لڑیوں کا ہار ہے۔ ہماری جلد اور آنکھوں کی رنگت، ہمارا قد، ہمارے دل و دماغ کی ساخت حتیٰ کہ ہمارے جسم کے ایک ایک عضو کی خصوصیات انہی چار عناصر کی مختلف تراتیب پر منحصر ہیں۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے انسانی جرثومے کی ساخت کے بارے میں 2003 ء میں اعلان کیا۔ یہ امریکی شعبہ توانائی اور ادار ہ ِصحت کے بین ا لاقوامی پروجیکٹ US Department of Energy and the National Institute of Health کی تیرہ سالہ کاوشو ں (1990 ء تا 14 اپریل2003 ) کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا جس کی بدولت انسانی DNA میں موجود تقریباً 3 کھرب ــ ’حروف‘ کی ترتیب معلوم کر لی گئی۔ اس دریافت میں 1کھرب ڈالر اور کافی سالوں کی محنت شامل تھی۔ آج ہم یہی ترتیب صرف چند دنوں میں اور محض 5,000ڈالر میں معلوم کر سکتے ہیں ۔ بلکہ مزید نئی ٹیکنالوجیز دریافت ہو رہی ہیں جن کی بدولت صرف 15منٹ میں اور 100 ڈالر سے بھی کم خرچ میں یہ ترتیب معلوم کی جا سکے گی ۔
20 مئی 2010 کو Craig Venter اور ان کے ساتھیوں نے اعلان کیا کہ وہ ایک زندہ خلیہ بنانے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو مکمّل طور پر مصنوعی ہے ۔ انہوں نے کمپیوٹر کے ذریعے DNA کی مصنوعی ساخت ترتیب دی پھر اس ساخت کو لیبارٹری میں استعمال کرتے ہوئے لاکھوں nucleic acids کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہوئے DNAتیّار کر لیا اور جب اسے خالی خلیے میں ڈالا گیا تو اس مصنوعی جینوم نے فوری اپنی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے خلیے کی لاکھوں کی تعداد میں کاپیاں بنانا شروع کردیں۔تولیدی صلاحیت کی مو جودگی ہی زندگی کی علامت ہے۔اب جبکہ سائنسدان مصنوعی جینوم بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اگلا قدم یہ ہوگا کہ ان ننّھے خلیوں کو ننّھے کارندوں اور انجینئر وں کے بطور استعمال کیا جائے تاکہ وہ حیاتیاتی ایندھن ، ادویات و ضرورت کے مطابق اینزائم تیّار کر سکیں ۔
یعنی ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا ہے۔
جینیات میں بڑھتی ہوئی آگاہی کے ساتھ سائنسدانوں نے عمر رسیدگی کے عمل کوبتدریج آہستہ کرنے کے لئے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ گزشتہ 60سالوں میں بہتر حفظانِ صحت اورادویات کی بہم دستیابی کی وجہ سے لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہوا ہے البتہ یہ حد ملک در ملک مختلف ہے۔مثال کے طور پر جاپان کے لوگوں کی اوسط عمر 82 سال جبکہ افریقی ممالک میں یہ حد 50 سال سے بھی کم ہے۔
کیا ہم کسی طرح عمر رسیدگی کے عمل کو آہستہ یا پھر روک سکتے ہیں؟ یادوسرے لفظوں میں دراز ی عمر کے لئے کچھ کر سکتے ہیں ؟
یہ سوال بہت سے حیات دان، جینیات دان ، ادویائی ا ورحیاتی کیمیا دان کی توجّہ کا مرکز بن گیا۔ ایک اوسط انسانی جسم کے تقریباً 50سے 70 کھرب خلیوں کی ساخت میں پہلے سے موجود طے شدہ پروگرام کے تحت ر وزانہ مر جاتے ہیں (apoptosis) اور اس سے کہیں زیادہ نئے خلیے اس کی جگہ لے لیتے ہیں ۔ 8 سے 14 سال کے بچّوں میں تقریباً 20-30 کھرب خلیے روزانہ مر جاتے ہیں لیکن اس سے کہیں زیادہ خلیے ان کی جگہ لے لیتے ہیں اس طرح ان کی نشونما ہوتی ہے حتیٰ کہ ایک سال میں تبدیل ہونے والے خلیوں کی تعداد ابچّے کے وزن کے مساوی ہو جاتی ہے۔اس وقت ہم خلیوں میں موجود ان کیمیائی اشاروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں جس کے تحت خلیے فطری افزائش روک دیتے ہیں۔ خلیوں کے مرنے کے عمل میں مناسب مداخلت کے ذریعے ہم ان خلیوں کو زیادہ عرصے تک زندہ رکھ سکتے ہیں۔اور اس طرح عمریں لمبی کر سکتے ہیں۔ عمر رسیدگی کے عمل کو روکنے کے لئے نئی ادویات دریافت کی جا رہی ہیں تاکہ ہم صحتمند دراز عمر گزار سکیں۔
ادویاتی کیمیا (Medicicnal Chemistry) حیاتی کیمیا (biochemistry) اور جینیات (genomics) میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آگاہی نے سائنسدانوں میں عمر رسیدگی کے عمل میں کارفرما عوامل کو سمجھنے اور حیاتیاتی گھڑی کی اہمیت سمجھنے میں بہت مدد دی ہے۔ یہ آگاہی بیکٹیریا، مکڑی، کیڑے مکوڑے ، چوہے، اور دیگر جانوروں پر تحقیق کے ذریعے بھی بڑھ رہی ہے۔کیونکہ ان حشرات الارض کے خلیوں کی زند گی، ان کی نشونما اور خاتمے کے عوامل انسانوں اور دیگر جانوروں سے کافی مماثلت رکھتے ہیں۔ لہٰذا کافی مر کّبات دریافت کر لئے گئے ہیں جو نہ صرف عمر رسیدگی کے عمل کو آہستہ کر سکتے ہیں بلکہ اس کو عمل کو الٹ کر بوڑھے کو دوبارہ جوان کر سکتے ہیں۔ ہارورڈ میڈیکل اسکول میں David Sinclair اور ان کے ساتھی پودوں میں پایا جانے والا ایک ایسا مرکب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں جو واقعی عمر بڑھنے کے عمل کو روکتا ہے۔ جب اس مرکب کو بوڑھے چوہوں پر استعمال کیا گیا تو وہ حیرت انگیز طور پر دو بارہ جوان ہوگئے۔ بلکہ اس مرکب کو کھانے کے بعد بوڑھے چوہوں میں کافی تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کی شریانیں صاف شفّاف ہوگئیں، دل زیادہ صحتمند اور مضبوط ہو گیا یہ سب ایک اینزائمSIRT1 کے متحرک ہونے کی وجہ سے ہوا جو کہ عمرسے متعلق بیماریوں کے علاج کے لئے کا فی مفید مانا جاتا ہے۔
Salk Institute for Biological Studies اور جامعہ کیلیفورنیا کے محققین نے ابھی حال ہی میں یہ دریافت کیا ہے کہ اگر پھلوں والی مکّھی کی آنت کے خلیوں میں موجود اس جین (dPGC-1) میں کچھ ردّ وبدل کی جائے تو ان مکھّیوں کی اوسط عمر میں50% اضافہ ہوجاتا ہے۔ لہٰذا جنیاتی ردّ وبدل کیڑوں کی عمر درازکر سکتا ہے۔ یہی جین انسانوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ 2011ء میں سوئیڈش سائنسدان نے ایک ایسا اینزائم دریافت کیا تھا جو کہ انسانوں میں خوراک کی طلب کو کم کرتا ہے اورکم خوراک خوری انسانوں کی طویل العمری کا سبب ہے۔
آکسیجن ، انسانی حیات کا اہم ترین عنصر بھی عمر رسیدگی کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ آ کسیجن کا متحرک عنصر (oxygen radicals) DNA پر حملہ کرتا ہے اور اسے توڑتاہے اسی لئے anti-oxidants جیسا کہ وٹامن سی کو اس میں موجود متحرک آکسیجن کی وجہ سے صحت کے لئے مفید سمجھا جاتاہے۔
جمیل الرّحمٰن مرکز برائے جنیاتی تحقیق(Jamil-ur-Rahman Centre for Genomics Research )جامعہ کراچی میں میرے ذاتی عطئیے سے قائم کیا گیا ہے جہاں جدید و تیز رفتار جرثومے کی ترتیب جانچنے والا آلہ (sequencer) اور دیگر آلات برآمد کئے گئے ہیں اور آبادی کے مختلف گروپوں کی جینیات بناوٹ پر تحقیق کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ biosaline زراعت پر بھی کام کیا جائے گا تاکہ تمام خوردنی فصلیں مثلاً گندم، مکئی اور چاول وغیرہ کو تھوڑی ردّوبدل کے بعد سمندری پانی میں اگایا جا سکے ۔ اگلے30سالوں میں خوراک اور پانی تک رسائی دنیا کے لئے سب سے بڑا واحد چیلنج بن کر سامنے آئے گی کیونکہ اس بڑھتے ہوئے کرّہ ارض کے درجہِ حرارت کے نہایت خطرناک نتائج قحط اور خشک سالی کی صورت میں سامنے آئیں گے۔ پاکستان کو ان چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے سائنسی تحقیق کے ذریعے تیّار ہونا پڑے گا۔