• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نصیر ترابی نے ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ وہ زمانہ طالب علمی ہی سے ایک بہت اچھے مقرر تھے، اسکول میں تقریری مقابلوں میں شرکت کرتے تھے۔ اسکول کے ایک مقابلے میں تیسرا انعام ملا۔ دوسرے دن اسکول میں ایک استاد نے مجھ سے کہا " اگلی مرتبہ اپنے باپ سے اچھی تقریر لکھوا کر لانا"۔

یہ سن کر اسی دن سوچ لیا تھا کہ، اب تقریری مقابلوں میں حصہ نہیں لوں گا۔ ایک دن پرنسپل نے پوچھا کہ، آج کل تم تقریری مقابلوں میں شرکت نہیں کر رہے تو میں نے جواب دیا کہ اگر میں پہلے نمبر پر آؤں گا تو سب کہیں گے کہ والد صاحب نے تقریر لکھی تھی اور اگر نہیں آیا تو سب بولیں گے والد صاحب نے تقریر اچھی نہیں لکھی اور ان دونوں باتوں میں، میں کہیں نہیں ہوں، اس طر ح تو میری زات اور میرا ٹیلنٹ کہیں گم ہو جائے گا۔

وہ نوجوان تھے جب انہیں خبر ملی کہ پاکستان ٹوٹ گیا ہے اور بنگلہ دیش وجود میں آ گیا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ خبر سن کر مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرا ایک بازو کاٹ دیا ہو۔ اسی لمحے انہوں نے ایک شہرہ آفاق غزل کہی جو نذر قارئین ہے۔


وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی

نہ اپنا رنج نہ اپنا دکھ نہ اوروں کا ملال

شبِ فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی

محبتوں کا سفر کچھ اس طرح بھی گزرا تھا

شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی

عداوتیں تھیں ، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا ، بے وفائی نہ تھی

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل

غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت

کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی

عجیب ہوتی ہے راہِ سخن بھی دیکھ نصیر

وہاں بھی آگئے آخر جہاں رسائی نہ تھی

نصیر ترابی نے نظمیں بھی لکھیں،

ذیل میں ایک مشہور نظم ملاحظہ کریں:

زندگی خاک نہ تھی خاک اُڑا کے گزری

تجھ سے کیا کہتے، تیرے پاس جو آتے گزری

دن جو گزرا تو کسی یاد کی رَو میں گزرا

شام آئی تو کوئی خواب دکھا تے گزری

اچھے وقتوں کی تمنا میں رہی عمرِ رواں

وقت ایسا تھا کہ بس ناز اُٹھاتے گزری

زندگی جس کے مقدر میں ہو خوشیاں تیری

اُس کو آتا ہے نبھانا، سو نبھاتے گزری

زندگی نام اُدھر ہے کسی سرشاری کا

اور اِدھر دُور سے اک آس لگاتے گزری

رات کیا آئی کہ تنہائی کی سرگوشی میں

ہو کا عالم تھا، مگر سنتے سناتے گزری

بار ہا چونک سی جاتی ہے مسافت دل کی

کس کی آواز تھی، یہ کس کو بلاتے گزری

معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے

ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔

ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:

رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر

روزنامہ جنگ، اخبار منزل، آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی