• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دبستانِ شعر: میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا ....

……کیفی اعظمی……

میں ڈھونڈتا ہوں جسے وہ جہاں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں نہیں ملتا

نئی زمین نیا آسماں بھی مل جائے

نئے بشر کا کہیں کچھ نشاں نہیں ملتا

وہ تیغ مل گئی جس سے ہوا ہے قتل مرا

کسی کے ہاتھ کا اس پر نشاں نہیں ملتا

وہ میرا گاؤں ہے وہ میرے گاؤں کے چولھے

کہ جن میں شعلے تو شعلے دھواں نہیں ملتا

کھڑا ہوں کب سے میں چہروں کے ایک جنگل میں

تمہارے چہرے کا کچھ بھی یہاں نہیں ملتا

……ندا فاضلی……

اس کے دشمن ہیں بہت آدمی اچھا ہوگا

وہ بھی میری ہی طرح شہر میں تنہا ہوگا

اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسم نہ بجھے

روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

پیاس جس نہر سے ٹکرائی وہ بنجر نکلی

جس کو پیچھے کہیں چھوڑ آئے وہ دریا ہوگا

مرے بارے میں کوئی رائے تو ہوگی اس کی

اس نے مجھ کو بھی کبھی توڑ کے دیکھا ہوگا

ایک محفل میں کئی محفلیں ہوتی ہیں شریک

جس کو بھی پاس سے دیکھو گے اکیلا ہوگا

……شاہد ذکی……

اب تری یاد سے وحشت نہیں ہوتی مجھ کو

زخم کھلتے ہیں اذیت نہیں ہوتی مجھ کو

اب کوئی آئے چلا جائے میں خوش رہتا ہوں

اب کسی شخص کی عادت نہیں ہوتی مجھ کو

ایسا بدلا ہوں ترے شہر کا پانی پی کر

جھوٹ بولوں تو ندامت نہیں ہوتی مجھ کو

ہے امانت میں خیانت سو کسی کی خاطر

کوئی مرتا ہے تو حیرت نہیں ہوتی مجھ کو

تو جو بدلے تری تصویر بدل جاتی ہے

رنگ بھرنے میں سہولت نہیں ہوتی مجھ کو

اکثر اوقات میں تعبیر بتا دیتا ہوں

بعض اوقات اجازت نہیں ہوتی مجھ کو

اتنا مصروف ہوں جینے کی ہوس میں شاہدؔ

سانس لینے کی بھی فرصت نہیں ہوتی مجھ کو