• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوامِ متحدہ کے انسانی ترقی کے پیمانے پر پاکستان کی صورت حال افسوس ناک نظر آتی ہے، خاص طور پر تعلیم اور صحت کے شعبوں میں تو اس کا درجہ انتہائی نیچے ہے اور اگر ہماری ماضی قریب کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے تو مستقبل قریب میں بھی اس میں بہتری کے امکان کم ہی نظر آتے ہیں ۔صحت کے شعبے میں ڈاکٹر، نرس، پیرا میڈیکل اسٹاف ملک بھر میں کم نظر آتا ہے ، حتی کہ نجی دوا خانوں اور اسپتالوں میں مناسب تعلیم و تربیت سے ایسے کارکن بھی کم ہی ہیں جو مطلوبہ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ بخوبی خدمات انجام دے سکیں۔

ایسے میں لیڈی ہیلتھ ورکرز یعنی صحت کے شعبے میں کام کرنے والی خواتین کا کردار بہت اہم ہو تا ہے۔ اس شعبے میں خواتین کارکنوں کی بھرتی کا سہرا محترمہ بے نظیر بھٹو کو جاتا ہے جنہوں نے اپنے دوسرے دور حکومت میں 1993سے 1996 کے دوران لیڈی ہیلتھ ورکرز کی افرادی قوت کو ملازمت فراہم کرنے کا ڈول ڈالا ،بحثیت ایک خاتون کے محترمہ بے نظیر بھٹو کو پورا اندازہ تھا کہ ایک عورت کو طبی سہولتوں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے قبل کسی حکومت نے اس طرف توجہ نہیں دی تھی کہ خواتین کو لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر بھرتی کیا جانا چاہیے، جس سے لاکھوں نہیں بل کہ کروڑوں خواتین کو طبی سہولتیں حاصل ہو سکتی تھیں۔ 

اب بھرتیوں کے تقریباً تیس سال بعد تک یہ خواتین کارکن اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں،دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں خدمات انجام دیتی ہیں۔ماں اور بچوں کی صحت کے مسائل کے حل کے لیے اُن کی مدد اور رہ نمائی کرتی ہیں ۔ شہری علاقوں میں یہ زیادہ تر کچی بستیوں اور پسماندہ علاقوں میں کام کرتی ہیں ، بچوں کی پیدائش کے معاملات کو سلجھاتی ہیں،اس بات کی پوری کوشش کرتی ہیں کہ ماں اور بچے کو مطلوبہ طبی سہولتیں میسر ہو سکیں ۔ حال ہی میں پبلک سروس انٹرنیشنل (PSI) نے پاکستان کی پہلی انٹر ایکٹیو دستاویزی فلم تیار کی ہے، جس سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی زندگی کے بارے میں معلومات ملتی ہیں۔ 

پبلک سروس انٹرنیشنل ایک عالمی یونین فیڈریشن ہے جو عوامی خدمات میں کام کرنے والے کارکنوں کے لیے آواز اٹھاتی ہے ۔ خدماتِ عامہ میں کام کرنے والوں میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کردار بہت اہم ہوتا ہے، کیوں کہ وہ پھیلنے والی بیماریوں کا مقابلہ کرکے ہر روز ہزاروں جانیں بچاتی ہیں ۔پبلک سروس انٹرنیشنل نے جو دستاویزی فلم بنائی ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ کم آمدنی والے علاقوں میں خواتین کو کس طرح کے طبی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر پولیو کے خاتمے کے لیے یہ خواتین کارکن جانفشانی سے محنت کرتیں اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کے خطرناک ترین علاقوں میں بھی پولیو کے قطرے پلانے جاتی ہیں۔ 

بچوں کی پیدائش کے فوراً بعد ماں اور بچے دونوں کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے ، اس میں خواتین کارکن خاصی موثر ہوتی ہیں ۔ اس دستاویزی فلم میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر حسینہ کی کہانی بیان کی گئی ہے جو تمام نامساعد حالات کے باوجود اپنے فرائض انجام دیتی ہے۔ اس فلم کی کئی قسطیں ہیں، جن کا نام’’ ماسک کے پیچھے پاکستان ‘‘(Pakistan Behind The Mask) ہے۔

ماسک کی مناسبت اس کووڈ 19 وائرس سے بھی ہے جس نے دنیا بھر کو ماسک پہننے پر مجبور کر دیا ،ایسے میں بھی یہ خواتین اپنے فرائض ادا کرتی رہیں ۔حسینہ خاتون نے آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکر ایمپلائز یونین (ASLHWEU) کا قیام بھی عمل میں لائی ہے ،جو بہتر حالاتِ کار کے لیے جدوجہد کر رہی اور تنخواہوں میں اضافے کی بھی مانگ کرتی ہے ۔" ماسک کے پیچھے پاکستان " کے ذریعے پبلک سروس انٹرنیشنل سیلاب کے متاثرین کی بحالی کے لیے بھی مہم چلا رہی ہے اور اُن طبی مسائل کی طرف اشارہ کر رہی ہے جو خواتین کارکنوں کو درپیش رہے ہیں ۔ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ ان خواتین کارکنوں کو بہتر سروس اسٹرکچر فراہم کیا جائے جن میں انہیں باقاعدہ سرکاری ملازمین کا درجہ دیکر انہیں مفت طبی سہولتیں، اور پینشن وغیرہ کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یہ بات مایوس کن ہے کہ یہ خواتین کارکن ایک طرح سے محاذ کی پہلی صف میں ہوتی ہیں لیکن خود انہیں مطلوبہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں۔

یہ پولیو اور ہیضے کے علاوہ کورونا وائرس کے خلاف بھی لڑتی رہی ہیں،مگر انہیں قدم قدم پر ہراساں کیا جاتا ہے اور بدترین حالاتِ کار میں کام کرنا پڑتا ہے ۔ تنخواہیں بہت کم ہیں اور بڑھتی ہوئی مہنگائی میں ان کی آمدنی قطعی ناکافی ہوگئی ہے۔ پچھلے تیس برس میں بہت سی خواتین کارکن اپنی ملازمتوں سے سبک دوش ہوچکی ہیں یا مختلف وجوہ کی بنا پر انہیں کام سے رخصت لینا پڑی مگر ان کی جگہ نئی بھرتیاں نہیں کی گئیں باوجود اس کے کہ بہت سی لڑکیاں اور خواتین اس شعبے میں داخل ہونے کے لیے تیار ہیں۔

خواتین کارکنوں کو ویکسین کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور صنفی امتیاز کا بھی ،کیوں کہ ان کی تنخواہیں اور سہولتیں دیگر مرد کارکنوں کے مقابلے میں کم ہیں ۔ ان کی خدمات کا اعتراف بھی نہیں کیا جاتا اور معاشرہ انہیں اتنی قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتا جس کی یہ مستحق ہیں۔ خاص طور پر کورونا وائرس کے لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھی یہ خواتین اپنی خدمات انجام دیتی رہی ہیں ۔" ماسک کے پیچھے پاکستان " ان تمام مسائل کا احاطہ کرتی ہے اور انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) 190 کے تحت مطالبہ کرتی ہے کہ ان خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کا سدّباب کیا جائے۔

خواتین کارکنوں کو کام کے دوران جسمانی اور نفسیاتی تشدّد سے بچانا بھی بہت ضروری ہے جس کا انہیں اکثر و بیشتر سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ خواتین چوں کہ خطرناک بیماریوں کے مریضوں کو بھی خدمات فراہم کرتی ہیں اس لیے ان کے خطرے کم نہیں ہیں۔ ہماری ریاستی ترجیحات دیگر چیزوں پر مذکور رہی ہیں اور عوام کے لیے بنیادی ضروریات کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، جس کے ٻاعث پاکستان انسانی ترقی میں بہت پیچھے رہ گیا ہے ۔گذشتہ سیلاب نے تو مسائل میں مزید اضافہ کردیا اور صحت کی سہولتیں بھی تباہ ہوگئیں ، خاص طور پر سیلاب زدہ علاقوں میں کروڑوں لوگ بے گھر ہوئے اور ہزاروں کی تعداد میں صحت کے مراکز بھی سیلاب کی نذر ہوگئے۔

غریبوں کو غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑا، جس سے حاملہ خواتین بہت کم زور بچوں کو جنم دے رہی ہیں ۔ اس صورت حال میں لیڈی ہیلتھ ورکرز اپنے محاذ پر جم کر لڑتی اور بحران کا مقابلہ کرتی رہیں، جس میں بے گھر افراد میں بیماریوں کے پھوٹ پڑنے کے مسائل بڑے شدید تھے ۔ ان خواتین کارکنوں کے مسئلے حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ متعدد بیماریوں پر قابو پایا جاسکے۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سیلاب سے یہ خواتین خود بھی بُری طرح متاثر ہوئی ہیں کیوں کہ یہ خود بھی بے گھر ہوئیں اور بیماریوں کا شکار بھی رہیں ۔ خواتین کارکنوں کو ہیلتھ انشورنس، سوشل سیکورٹی، میٹرنٹی کی چھٹیاں، اوور ٹائم اور پیشن کی سہولت فراہم کی جائیں جو کوئی رعایت نہیں بلکہ ان کے حقوق ہیں ۔ حکومت کو ان پر فوری توجہ دینی چاہیے، تاکہ یہ دوسروں کی صحت کے ساتھ اپنی صحت کا بھی خیال رکھ سکیں۔