• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی، بے ہنگم ٹریفک کا اژدھام برقرار، قوانین پر عمل کرنے اور کرانے کو کوئی تیار نہیں

کراچی (اعظم علی/نمائندہ خصوصی) ملک کا 70 فیصد ریونیو ادا کرنے اور پاکستان کی شہ رگ و سب سے بڑے شہر کراچی میں ٹریفک قوانین کی دھجیاں اڑانا معمول بن چکا ہے، کراچی میں بے ہنگم ٹریفک کا اژدہام برقرار ہے، لیکن قوانین پر عمل کرنے اور کرانے کو کوئی تیار نہیں ہے، ٹریفک پولیس کی پھرتیاں ریڈ زون تک محدود، شہر کے دیگر حصوں کی حالت دگر گوں،قوانین پر عمل کون کرائے گا، کوئی پرسان حال نہیں ہے، بغیر پرمٹ، بغیر رجسٹریشن سمیت بغیرفٹنس سرٹیفکیٹ کے دھواں چھوڑتی گاڑیاں متعلقہ محکموں کیلئے کھلا چیلنج ہیں لیکن روکنے والا کوئی نہیں ہے، غیرقانونی، بغیر پرمٹ، بغیر رجسٹریشن، اور نان کسٹم پیڈ سمیت بغیرفٹنس سرٹیفکیٹ کے دھواں چھوڑتی بسیں، کاریں، گاڑیاں ، رکشے اور موٹر سائیکلیں ماحول کو آلودہ کرنےاور متعلقہ محکموں کیلئے کھلا چیلنج ہونے کے باوجود انہیں روکنے والا کوئی نہیں ہے، غیرقانونی ہوٹر اور ہارن بجاتی گاڑیاں شہریوں خصوصا مریضوں اور بزرگوں کیلئے درد سر ہیں جبکہ کالے شیشے والی طبقہ اشرافیہ کی گاڑیوں کا شہر میں دندناتے پھرنا شہریوں کیلئے خوف کی علامت ہے، شارع فیصل جیسے وی آئی پی روڈ پر ریڈ بسوں کا خصوصی طور پر ان کیلئے بنائی گئی لین پر چلنے کی بجائے درمیان میں چلنا بھی معمول ہے، بغیر ہیڈ اور ٹیل لائٹس کی گاڑیوں خصوصا موٹر سائیکلوں کا راج، ون وے کی خلاف ورزی کے باعث ٹریفک جام و حادثات معمول بن گئے، شہر قائد کے بھاری ٹیکس ادا کرنیوالوں کا حکام سے یہ سوال بھی اپنی جگہ بجا ہے کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنیوالوں کو کون اور کب گرفت میں لائے گا، یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شہر میں ٹریفک قوانین پر عمل ختم ہو چکا ہے، ون وے گاڑیاں چلانے، تیز فینسی لائٹس اور ایچ آئی ڈی کا استعمال عام جبکہ ہیڈ لائٹس اور ٹیل لائٹس کے بغیر بائیکس چلانا معمول بن چکا ہے، ماحولیاتی تباہی کا شکار ملک ہونے کے باوجود شہر میں دھواں چھوڑتی گاڑیوں کو روکنے اور ماحولیاتی قوانین پر سختی سے عمل کرانے والا کوئی نہیں، ٹریفک پولیس اہلکار صرف ریڈ زونز میں پھرتیاں دکھاتے نظر آتے ہیں جبکہ دیگر علاقوں میں لاقانونیت اور قواعد و ضوابط پر عمل نہ ہونے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ شہر بے یارو مددگار اور لاوارث ہو چکا ہے۔ حالات کے تناظر میں جہاں مختلف روٹس کا ٹریفک تعمیراتی کام یا حالات کی وجہ سے مختلف ٹریکس پر منتقل کیا جا رہا ہے، وہیں ٹریفک پولیس کی ناقص کارکردگی بھی کھل کر سامنے آگئی ہے۔ شہر کی مختلف سڑکوں پر کھڑے ٹریفک پولیس اہلکار شدید ٹریفک دیکھ کر بحالی کیلئے اقدامات کرنے کی بجائے کارنر ایریاز میں جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں، عملی اقدامات نہ ہونے سے ٹریفک بری طرح جام رہنے لگا ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ شہر کی مرکزی شاہراہ ’’شاہراہِ فیصل‘‘ پر ریڈ بس کیلئے بنائی گئی لین میں ریڈ بس کبھی کبھار ہی چلتی نظر آتی ہے اور اکثر اوقات یہ بسیں درمیانی لین میں چلتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ شہر کی تقریباً سبھی اہم شاہراہوں پر ٹریفک کا حال یکساں ہے جبکہ شہریوں کی حفاظت کیلئے شروع کی جانے والی ہیلمٹ مہم یا کالے شیشے چیک کرنے کی مہم بھی ایک دو ہفتوں تک سختی سے جاری رہنے کے بعد دم توڑ جاتی ہے۔ چند روز کی سختی کے بعد حالات جوں کے توں یعنی دگر گوں نظر آتے ہیں۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ شہریوں کا احساسِ ذمہ داری بھی مر چکا ہے، موٹر سائیکل سوار افراد کی تقریباً 80؍ سے 90؍ فیصد تعداد ٹیل لائٹ کے بغیر گاڑیاں چلا رہی ہے جبکہ کچھ ایسے افراد بھی ہیں جنہیں بغیر ہیڈ لائٹ کے گاڑی چلاتے دیکھا جا سکتا ہے۔ مختلف شاہراہوں پر اسٹریٹ لائٹ ہونے اور اندھیرے کے باعث بغیر ہیڈ لائٹ کے بائیک چلانے والے شخص کا بغیر ٹیل لائٹ بائیک چلانے والے شخص کے ساتھ ٹکراؤ کا احتمال رہتا ہے۔ ماضی میں سختی کا عالم یہ ہوتا تھا کہ کمرشل گاڑیوں کی ہیڈلائٹس کے بالائی حصے پر اسٹیکر لگا ہوتا تھا تاکہ وزن کی زیادتی کے باعث اگر گاڑی کا اگلا حصہ تھوڑا اوپر اٹھ جائے تو سامنے سے آنے والی گاڑیوں اور مسافروں کی آنکھوں میں تیز روشنی نہ چبھے، لیکن ٹریفک پولیس والوں کو شاید علم ہی نہ ہوگا کہ سندھ حکومت کے بنائے گئے قوانین کے تحت تیز لائٹس اور ایچ آئی ڈی ہیڈلائٹس کا استعمال قابل سزا جرم ہے۔ مہذب ممالک میں بھی ہائی بیم پر گاڑیاں چلانے کی ممانعت ہے اور اس ضمن میں روُل یہ کہتا ہے کہ اگر لو بیم پر گاڑی سوار کو 200؍ فٹ تک واضح نظر نہ آ رہا ہو اور سامنے سے آنے والی گاڑیاں 200؍ فٹ دوُر ہوں تو اسی صورت میں ہائی بیم استعمال کی جا سکتی ہے۔ لیکن عالم یہ ہے کہ ٹریفک پولیس والے اگر کسی ایک گاڑی کو روک بھی لیں تو ان کے سامنے سے ایسی سیکڑوں گاڑیاں با آسانی نکل جاتی ہیں جن میں ہائی بیم یا ایچ آئی ڈی لائٹس لگی ہوتی ہیں۔ یہ ٹریفک پولیس والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ایک دو روزہ مہم چلانے کی بجائے بائیک سواروں کیلئے بنائے گئے قوانین پر متحرک و موثر انداز اور سختی سے عمل کرائے جبکہ کالے شیشے والی گاڑیوں کے حوالے سے بھی مناسب اقدامات کیے جائیں کیونکہ قانون مستقل عمل کا نام ہے نہ کہ ایک دو روزہ مہم چلانے کے بعد کارروائی روک دینے کا۔ بہتر انداز سے قانون پر عمل اور شہریوں میں قانون پر عمل کا احساس جگانے کیلئے اگر جائز اور مناسب انداز سے گاڑیوں کے چالان اور جرمانے عائد کیے جائیں تو یقینی طور پر سرکاری خزانے میں اچھی رقم جمع ہو سکتی ہے جسے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی فلاح و بہبود اور شہر کی بہتری پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
اہم خبریں سے مزید