بعد میں سامنے آنے والے حقائق جو کہ متعدد آزادانہ تحقیقاتی ٹیموں نے مرتب کئے انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے موقف کو درست ثابت کیا کہ یہ اسکینڈل مکمل طور پر خودساختہ اور من گھڑت ہے۔ یہاں یہ باور کرانا ضروری ہے کہ کسی یونیورسٹی طالب علم کی ایک بھی نازیبا ویڈیو کا وجود ہی نہیں ثابت ہو سکا۔ یہاں تک کہ ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کی مجسٹریٹ کے سامنے پیشی کی کارروائی میں پولیس جنسی حراسگی اور نازیبا ویڈیوز کے موقف سے مکمل طور پر دستبردار ہو گئی۔ ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کے موبائل فونز کی فارنزک رپورٹ بھی تیار ہو چکی ہو گی جو کہ طالبات کی نازیبا ویڈیوز کے جھوٹےدعوے کی حقیقت مزید کھول کر رکھ دے گی۔ درج ذیل ایسی معلومات اور ماخوذات دی جا رہی ہیں جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ IUB جنسی زیادتی اور منشیات کے استعمال کے جعلی اسکینڈل کے پیچھے ایک انتہائی منصوبہ بند سازش تھی۔ یونیورسٹی کے عملے کے حوالے سے دو بڑے واقعات ہوئے جو کہ درج ذیل ہیں:
عید کی تعطیلات سے ایک دن پہلے 6 گرام آئس برآمد کرنے کے الزام میں ڈاکٹر ابوبکر کی گرفتاری۔چیف سیکورٹی افسر ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کی گرفتاری، 10 گرام آئس اور بڑی تعداد میں جنسی طور پر واضح ویڈیوز رکھنے کے الزام ہیں۔
اب ان واقعات اور معاملات کو مختلف حقائق کی روشنی میں دیکھتے ہیں:
27 جون کی شام ڈاکٹر ابوبکر، پروفیسر اور خزانچی IUB کے خلاف 6 گرام مقدار میں آئس نامی نشہ آور رکھنے کے الزام میں ایک جعلی ایف آئی آر درج کی گئی۔ درحقیقت ڈاکٹر ابوبکر کے مطابق گرفتاری کے بعد سی آئی اے تھانے میں ڈاکٹر ابوبکر کی گاڑی میں آئس ڈال کر برآمدگی کی ویڈیو بنائی گئی۔ سیلولر ٹاورز کے ڈیٹا کا استعمال کرتے ہوئے جانچا جاسکتا ہے کہ وقت کے ساتھ ڈاکٹر ابوبکر کے حقیقی محل وقوع پولیس کی طرف سے دیے گئے ڈیٹا سے بالکل مختلف ہیں۔ایف آئی آر میں ڈاکٹر ابوبکر پر منشیات کا استعمال کنندہ اور فروخت کنندہ ہونے کا الزام ہے۔ ڈاکٹر ابوبکر کو صارف ثابت کرنے کے لئے خون کا کوئی ٹیسٹ نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر ابوبکر کے بیچنے والے ہونے کا کوئی ثبوت نہیں دیا گیا ہے۔ کوئی ممکنہ کلائنٹس کا الزام نہیں ہے۔ اس کی منشیات کی مبینہ فروخت کا کوئی ثبوت یا دعویٰ نہیں دکھایا گیا۔ڈی پی او نے ڈاکٹر ابوبکر کی گرفتاری اور اس کے حالات کی تحقیقات کے لیے کسی بھی کوشش کے حوالے سے انتہائی حساسیت کا مظاہرہ کیا۔ آر پی او سے رابطہ کرنے پر انہوں نے اس معاملے میں بے بسی کا اظہار کیا۔ ڈی پی او نے بہت سختی سے سب سے کہا کہ معاملے میں مداخلت کرنے سے باز رہیں۔ اگر پہلے سے اسکرپٹڈ کوئی سازش نہیں تھی تو ڈی پی او کیوں بضد رہا کہ اس وقت کوئی بھی معاملے کے قریب نہ آئے۔
ڈاکٹر ابوبکر کی گرفتاری کا وقت عید کی تعطیلات کے شروع ہونے کے ساتھ رکھا گیا تھا تاکہ اس دوران کوئی عدالتی کارروائی نہ ہو سکے ۔ یہی چیز ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کے معاملے میں بھی دیکھنے میں آئی اور وہ دو ہفتے سے زیادہ حراست میں ہیں اور تا حال (4 اگست 2023) ان کی ضمانت اور رہائی نہیں ہو سکی۔ اس کا بنیادی مقصد یہی نظر آتا ہے کہ وہ باہر آکر اس معاملہ سے متعلق اپنی زبان نہ کھول سکیں۔ان واقعات سے تقریبا تین ماہ قبل بہاولپور میں ایک نجی گرلز ہاسٹل کے چھت گرنے کے حادثے میں کچھ طالبات (جن میں سے کسی کا بھی تعلق IUB سے نہیں تھا) کی موت کے معاملے کے فوراً بعد ڈی پی او نے وی سی سے ملاقات کرنے کے لئے اسلامیہ یونیورسٹی کا دورہ کیا تھا۔
جبکہ تمام طلباء کے CNICs اور سیل فون نمبر فراہم کرنے پر اصرار کیا۔ یونیورسٹی کی جانب سے پاس ورڈ کے ذریعے محفوظ ایک ایکسیل فائل میں وہ فراہم کیے گئے تھے لیکن اس وقت ڈی پی او کا اس معلومات کے لئے اصرار کا مقصد واضح نہیں ہو سکا تھا۔ اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان معلومات کو اس سازش میں کچھ سرگرمیوں میں استعمال کیا ہوگا۔ریٹائرڈ میجر اعجاز شاہ کی مکمل کہانی ابھی تک سامنے نہیں آسکی کیونکہ وہ دو ہفتوں سے زائد عرصے سے زیر حراست ہیں۔ تاہم، جب انہیں عدالت میں پیش کیا گیا تو انہوں نے ایک مختصر عوامی بیان دیا۔ لاک اپ سے ان کا ایک آڈیو پیغام بھی آیا ہے جس میں وہ اپنی کہانی کا کچھ حصہ بتاتے ہیں۔ ان پیغامات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ منشیات کے الزامات بالکل ہی من گھڑت ہیں اور اس گرفتاری کے پیچھے ایک سازش ہے۔لودھراں سے تعلق رکھنے والے ایک بدنام زمانہ یوٹیوبر نے IUB مین گیٹ کے سامنے ایک ویڈیو بنائی اورنازیبا ویڈیوز کی کہانی تیار کی۔ ایک ایسے شخص کو اس حساس ترین معاملے میں استعمال کرنا بدنیتی اور سازش کو ظاہر کرتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک بڑی سیاسی شخصیت کے ڈی پی او کے ذریعے اپنے بیٹے سے متعلق نازیبا ویڈیوز کی تلفی کی کہانی بھی گردش کر رہی ہے۔ اس کہانی کے مطابق احسان جٹ نامی شخص اور ڈولفن فورس کے ایک اہلکار کو آئس سپلائی کرنے اور سیاسی شخصیت کے بیٹے کی ویڈیوز کے قبضے میں ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا۔ ایسا بھی دکھایا گیا کہ ڈی پی او اپنے سیاسی آقاؤں کی ہدایات پر اناڑی پن سے عمل درآمد کرتے ہوئے یہ گھناؤناا سکینڈل تخلیق کر دیتے ہیں۔ دراصل یہ بھی سازش کے اصل یا تمام کرداروں اور ان کے اصلی مقاصد سے تفتیش کرنے والوں کی نظر کو دور رکھنے کا حربہ ہو سکتا ہے۔ ایسی ویڈیوز کو تلف کرنے کے لئے یونیورسٹی اور اس کی طالبات کی عزتوں کا جنازہ نکالنے کی کیا ضرورت تھی؟ چند لوگوں سے افہام و تفہیم اور بات چیت کے ذریعے ایسی ویڈیوز تلف کروائی جا سکتی تھیں۔ ابھی تک ڈی پی او اور اس سے منسلک اہلکاروں اور دیگر مشکوک افراد سے کسی پوچھ گچھ اور معنی خیز تفتیش کا عندیہ نہیں مل سکا۔
حالات و واقعات کے بغور مطالعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ڈی پی او پس پردہ کئی دوسرے ، اور اب تک چھپے کرداروں ، کے ساتھ کام کر رہا تھا، جنہیں IUB اور اس کے VC کی امیج کو خراب کرنے میں دلچسپی تھی۔ یہ بعض نجی یونیورسٹیوں کے مالکان بھی ہو سکتے ہیں یا VC IUB سے نفرت پھیلانے والے سیاسی اور اعلیٰ تعلیم کے شعبے سے وابستہ عناصر بھی ہو سکتے ہیں۔