چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ہمایوں دلاورکی عدالت سے توشہ خانہ کیس میں سنائی گئی تین سال قید سزا کو ملحوظ رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 63ون ایچ کے تحت پانچ سال کی نا اہلی کا نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے جس کی روشنی میں انھیں این اے 45 کرم ایک کی نشست سے بطور امیدوار بھی ڈی نوٹیفائی کردیا گیا ہے۔ ایڈیشنل سیشن عدالت کیس کے پیچھے اتحادی حکومت سے تعلق رکھنے والے پانچ ارکان قومی اسمبلی کا وہ ریفرنس کارفرما ہے جو انھوں نے گذشتہ برس اگست میں اسپیکر قومی اسمبلی کے توسط سے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا جسمیں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نےوزارت عظمیٰ کے دوران توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی ، اسے اپنے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا تھا۔ جس پر کارروائی کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نےعمران خان کے خلاف ضابطہ فوجداری کا ریفرنس سیشن عدالت کو بھیجا اور انھیں قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ کردیا تھا۔الیکشن کمیشن کےنوٹیفیکیشن میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان توشہ خانہ کیس میں الیکشن ایکٹ کے سیکشن 167 کے تحت کرپٹ پریکٹس کے مرتکب پائے گئے جس پر انھیں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہوا لہٰذا وہ آئین کے آرٹیکل 63 ون ایچ اور الیکشن ایکٹ کے سیکشن 232 کے تحت پانچ سال کیلئے نا اہل ہوگئے ہیں۔یہ دونوں عدالتی اور ضابطے کے فیصلے ہیں جنھیں سیاست سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ صدیوں سے یہ دستور چلا آرہا ہے کہ غیرملکی سطح پر سربراہان مملکت باہمی دوستی کو مستحکم رکھنے اور دورے یادگار بنانے کیلئے آپس میں تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں۔ جمہوری ملکوں میں یہ تحائف ذاتی حیثیت سے نہیں بلکہ سرکاری عہدوں کے باعث ملتے ہیں۔ اسلیے انھیں توشہ خانے (اسٹیٹ ڈیپازیٹری) میں باقاعدہ ریکارڈ کے طور پر جمع کرایا جاتا ہے جو ایک سرکاری شعبہ ہے ۔ پاکستانی قوانین کے مطابق اگر کوئی تحفہ 30ہزار روپے سے کم مالیت کا ہو تو حاصل کرنے والا اسے مفت اپنے پاس رکھ سکتا ہے جبکہ اس سے زیادہ مالیت کے تحائف مقررہ قیمت کا 50 فیصد جمع کراکے اپنی ملکیت بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ شرح پی ٹی آئی حکومت نے ، 2020 میں مقرر کی تھی جو قبل ازیں 20 فیصد تھی۔ ان تحائف میں عام طور پر مہنگی گھڑیاں ، سونے اور ہیرے سے بنے زیورات ، سجاوٹ کی اشیا، سووینئرز ، ہیرا جڑے قلم، کراکری اور قالین وغیرہ شامل ہیں جنھیں حکومت کے بنائے گئے قوانین کے تحت براہ راست یا نیلامی کی صورت میں فروخت کیا جاسکتا ہے نیلامی میں اس کا فائدہ سرکاری ملازمین اوراس کے بعد کسی کو بھی پہنچ سکتا ہے تاہم یہ پالیسی یا استثنیٰ ایسے تحائف کیلئے نہیں ہے جو نادر نوعیت یا تاریخی پس منظر رکھتے ہوں۔پی ڈی ایم حکومت نے رواں سال نئی پالیسی کے تحت صدر، وزیراعظم، کابینہ ارکان، جج صاحبان اور سول و ملٹری افسران پر 300 ڈالر سے زائد مالیت کا تحفہ رکھنے پر پابندی عائد کی ہے۔اس وقت توشہ خانہ سے متعلق ایک بل پارلیمان میں ہے جس کے مطابق تحائف توشہ خانہ میں جمع نہ کرانے پر پانچ گنا جرمانہ ہوگا مزید یہ کہ تحائف کی فروخت یا نیلامی سے حاصل شدہ پیسہ الگ اکاؤنٹ میں رکھا جائے گا اور یہ رقم دوردراز علاقوں میں بچیوں کی تعلیم پر خرچ ہوگی ۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ ماضی میں بعض انتظامی سربراہان قوانین میں حسب ضرورت نرمی پیدا کرکے بیش قیمتی اشیا توشہ خانہ سے حاصل کرتے رہے ہیں ۔ بہت سے ملکوں میں اس سلسلے میں سخت ترین قوانین رائج ہیں جن میں غیر ضروری ردوبدل کی گنجائش نہیں۔ یہ ایک ہی نوعیت کا یونیورسل معاملہ ہے ۔ اور تحائف صرف وصول نہیں ہوتے دوسروں کو بھی نوازا جاتا ہے جسمیں قومی خزانہ ہی کام میں آتا ہے ۔ بہتر ہے کہ ایسے معاملات افسران کی صوابدید کی بجائے ایک ٹھوس پالیسی کے تحت لائے جائیں۔جنھیں بالآخر قانونی شکل دیا جانا ضروری ہے۔