افسانہ نگار، ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے افسانوں میں سماجی شعور واضح طور پر نظر آتا ہے۔ تعلیم، ایثار، عورت کی مظلومیت، سماجی تضادات، نفسیاتی الجنھیں ،معاشرتی حد بندیاں ان کے افسانوں کا خاص موضوع رہے ہیں۔
ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کے حقیقت پسندانہ رویے، اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ، انہوں نے معاشرے کی ناہمواریوں کو شدت سے محسوس کیا۔ ان کے افسانوں میں ایسے کردار ملتے ہیں جو اپنے اندر ردعمل کی قوت رکھتے ہیں، زندگی کی جزئیات کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی نے ہمارے دیہات میں پائے جانے والے مسائل اور ان کی فضا کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ انسانی فطرت دیہات میں اپنے اصل روپ کے ساتھ ہمیں نظر آتی ہے۔ انہوں نے مناظر فطرت کو الفاظ کے ذریعے ایسی تاثیر عطا کی کہ تمام تر کیفیات قاری کے سامنے آگئیں۔ پڑھنے والا شعوری طور پر اس کیفیت کو محسوس کرنے لگتا ہے۔ ان کے افسانوں میں جہاں حسن و محبت کے رنگ نظر آتے ہیں، وہیں بڑی باریک بینی سے نفسیاتی امور کا جائزہ لیا۔
ہم نے اپنی زندگیوں میں احساس کے جذبوں کو اور محبت کی چبھن کو محسوس کرنا چھوڑ دیا ہے، جس کی بنیاد ،پریم چند نے رکھی تھی۔ خارجی حالات جو ہمارے اردگرد رونما ہو تےرہتے ہیں، ان کی حقیقت کو فراموش کردیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں، فرد عدم اطمینان کی علامت بن کر رہ جاتا ہے، اذیت پسندی در آتی ہے۔ ایک بھرے پرے معاشرے میں جب افراد تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ سب میں ہوتے ہوئے بھی نہیں ہوتے، تنہائی کی یہ اذیت پسندی فرد کو ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے۔
انسان کا کردار اس دنیا میں کیا ہے اور کس حد تک ہے، اس کا تعین خود انسان بھی نہیں کرسکا لیکن ایک بات طے ہے، کہ انسان اگر چاہے تو اپنا کردار بخوبی نبھانے کی کوشش ضرور کرتا ہے، اب چاہے اس عمل میں کسی دوسرے کی مرضی شامل ہے یا پھر دوسرا فرد اسے پسند کرے یا نہ کرے۔ ہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ افراد گناہ یا ندامت کا احساس تک نہیں رکھتے بلکہ معاشی و سماجی اعتبار سے بدلتے ہوئے معاشرے میں غلط روایت کے امین ہونے کو پسند کرتے ہیں اور اسے بعض اوقات آزادی کی اس لہر سے تعبیر کرتے ہیں جو ہر شخص کا حق ہوتا ہے۔ زندگی کے سوالات کے جوابات بعض اوقات زندگی خود ہی دینے لگتی ہے، یہ عمل اور ردعمل وہاں پرورش پاتا ہے جہاں احساس اور شعور کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، یوں زندگی اس موڑ پر چلی جاتی ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔
ایک ذہنی اور فکری بحران پیدا ہوتا ہے،ذہنی کشمکش فرد کو خوف میں مبتلا کردیتی ہے، اب چاہے یہ خوف معاشرتی ہو یا پھر اس کے اندر پائی جانے والی کیفیت، بہرحال اس مقام پر زندگی کے نقوش ایک گلی سے نکل کر دوسری گلی میں جاتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، نئی آرزوئوں اور نئی حقیقتوں کے درمیان ذہنی کشمکش کی لکیر انسانی فطرت اور معاشرتی رویوں کے درمیان تصادم کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ عدم اطمینان کا احساس ایک المیے کی فضا چھوڑ جاتا ہے۔ یوں فرد غیر محسوس طریقے سے زندگی کی لطافتوں اور نزاکتوں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اذیت کا احساس اپنے پورے کرب کے ساتھ شدید جھنجھلاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔
انسان کا کسی دوسرے انسان پر اعتماد کھو دینا اور ایک ایسی فضا کا پیدا ہوجانا جہاں عوام اپنے اوپر ہونے والے ظلم پر کسی بھی ردعمل کا اظہار نہ کرے، سماجی و فکری لحاظ سے معاشرے میں اور خود انسان کی اپنی ذات میں اذیت کی وہ شکل ہے جہاں پر پوری قوم مذہبی اور قومیت کے حوالے سے نہ تو اپنا وقار قائم رکھ پاتی ہے اور نہ ہی شعوری طور پر زندگی کی اصل حقیقت کو سمجھتی ہے۔ زندگی میں جبر کی شدت کو برداشت کرنا، انسان کو بعض اوقات تضادات کا شکار بنا دیتا ہے، یہاں تک کہ یہ عمل انسان کو دہرے عمل پر بھی مجبور کردیتا ہے۔
اپنی ذات کو حقیقت کی دنیا میں اس طرح فنا کردینا کہ کسی بھی قسم کا احساس باقی نہ رہے، ایسا فرد اپنی شخصیت سمیت خود کو فنا کردیتا ہے، وہ اپنے کردار کا دکھ جھیلتا ہے، زندگی کا مسلسل بہائو ہمارے سامنے آنےسے گریز کرتا ہے بلکہ اس کے بجائے ذہنی سطح میں مسلسل تغیرات کا عمل جاری و ساری رہتا ہے، یوں فرد حقیقی دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیا سے کوسوں دور چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی نے افسانے ’’زخم کے بھرنے تک‘‘ اور ’’زرد پتے‘‘ میں زندگی کے اسی مسلسل بہتے ہوئے دھارے کی بات کی ہے، جس میں آدمی کا ذہن مسلسل تغیرات کی اذیت میں رہتا ہے۔
قدیم و جدید کے ٹکرائو نے ہمارے پورے معاشرے کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ اثر ہماری ازدواجی زندگی پر پڑا ہے۔ فرد نفسیاتی الجھنوں اور امید اور ناامید کے سفر میں الجھ کر رہ گیا ہے، اس صورت حال نے ’’انا‘‘ کے عنصر کو تقویت دی، جس نے جہاں ایک طرف ارتقاء کے عمل کو جاری و ساری رکھا تو دوسری جانب وسیع النظری کو محدود بھی کیا۔ اسی طرح حالات و واقعات نے فرد کو کرب و اضطراب میں بری طرح مبتلا بھی کیے رکھا۔ان کا افسانہ ’’ضبط کے بند‘‘ اسی اذیت کی کہانی ہے، جس میں فرد مسلسل گزرتا رہتا ہے،جس میں بعض اوقات جذباتی وابستگی کا عنصر بھی شامل ہوجاتا ہے۔ اس افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں:
’’…اماں اب تو شادی قبر کے ساتھ ہی ہوگی۔ سارے بال سفید ہوگئے ہیں، کون کرے گا مجھ بڑھیا سے شادی اور اب میرا دل بھی شادی کرنے کو نہیں چاہتا۔ ماں کے سینے پر زوردار مکا سا لگتا ہے، دل بھر آتا ہے اور وہ اپنے آنسوؤں کو پینے کی کوشش کرتیں۔ شہزادی ماں کی دلی کیفیت کو خوب سمجھتی تھی، بات بدلنے کی کوشش کرتی۔ اب بہنوں کی ترقی ہی میری شادی ہے ماں باپ کی خدمت ہی میری شادی ہے، امی جان آپ میرے بارے میں قطعی فکرمند نہ ہوا کریں۔‘‘
ڈاکٹر حسرت کا سگنجوی کے افسانوں میں ہمیں اذیت پسندی کی کچھ ایسی ہی تصاویر نظر آئیں جہاں فرد احساس کی چنگاری میں آہستہ آہستہ سلگتا رہتا ہے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی