ادب کا تعلق معاشرے سے ہے یعنی معاشرے میں پیش آنے والےحالات و واقعات اس کا حصہ ہوتے ہیں۔ افسانہ نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے جو گردوپیش کے واقعات کی ایسی عکاسی کرتی ہےجس سے قاری کو نئی سوچ اور راستہ ملتا ہے۔ حرف حرف کہانیاں ''ایسا ہی افسانوی مجموعہ ہے ،جوامین جالندھری کا دوسرا افسانوی مجموئہ ہے، اس میں ایک طرف درویشوں کے ڈیرے سے لے کر پارلیمنٹ کے احوال قلم بند کیے گئے ہیں تو دوسری طرف روحانی تجربات اور اس کے نتیجے میں پیش آنے والی روداد کو افسانے کا رنگ دیا گیا ہے ، ہر افسانے میں نیا رنگ نظر آتا ہے۔
یہ بیانیہ بھی ہیں کرداری بھی، تاثراتی بھی اور واحد متکلم کی طرز بھی ہے۔ ’’ حرف حرف کہانیاں‘‘ نے امین جالندھری کو موجودہ دور کے افسانہ نگاروں کی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ اس مجموعے پر تنقید برائے اصلاح کے لیے مختلف افسانہ نگاروں اورمصنفین کی آراء کو مجلے کی شکل دی، جس میں 61 ادباء نے اپنے تنقیدی مضامین میں امین جالندھری کی تحریری کا وشوں کو سراہا۔معروف دانشور ،نقاد، شاعر، سلمان صدیقی لکھتے ہیں کہ امین جالندھری کے افسانوں میں وضاحتی بیانیے سے گریز کی خوبی نمایاں ہے۔
معروف صحافی محمود شام ،کہتے ہیں’’زندگی خود ایک کہانی ہے ۔ چاروں طرف کہانیاں ہیں، ہر گلی کہانی ہے۔ ہر دریچہ افسانہ ہے ،ہر محلہ ایک ناول ہے۔ منفرد، پختہ کار کہانی کار سے میں اتنے برسوں بعد متعارف ہورہا ہوں یقیناً یہ میری کم علمی ہےاور حرف ودانش کے سچے تخلیق کاروں سے دوری۔اب جب اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں غیر معمولی کہانیاں میرے ہاتھوں میں آگئی ہیں تو میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ میں نے دنیا سے اٹھنے سے پہلے یہ شاہکار افسانے پڑھ لیے اور اردو کے ایک عظیم افسانہ نگار سے میرا رابطہ ہوگیا‘‘۔
امین جالندھری فکرو فلسفہ کی وہ جہت پیش کرتے ہیں جسے فلسفہءعشق کہتے ہیں اس میں وہ اپنے روحانی تجربات کو کہانی اور کرداروں کی مدد سے تحریر کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ڈاکٹر لبنی لکھتی ہیں، امین جالندھری ایک خاص فلسفے کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں جسے عشق کہتے ہیں۔ اہل تصوف اوراہل روحانیت کے ہاں بھی مختلف نظریات ملتے ہیں جیسا کہ ایک ہی مذہب کے مسالک اور فرقوں میں ہوتا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے کہیں تسکین تو کہیں الجھاؤ محسوس ہوا۔ مصنف کی فکر کا محور ومرکز پیروی دین محمد ﷺاور حب ذات محمد ﷺہے۔مادہ پرستی کو جدید معاشرے کا ناسور گردانتے ہیں۔ ہر نوع کے معاشی استحصال اور سماجی تفریق کے خلاف صف آرا ہونا ان کی عادت ہے۔
امین جالندھری ، منتخب معاصر ادب کا گہرا مطالعہ رکھتے ہیں ۔ مشرقی ادب و ثقافت کی روایت سے واقف ہیں۔ تاریخ ونشیب وفراز پر نگاہ رکھتے ہیں۔ زندگی کے بارے میں ان کا تجربہ بھی بہت وسیع ہے۔ اس تجربے کا استعمال جب وہ اپنے کرداروں کے ذریعے کرتے ہیں تو اس میں ان کے قاری کے لیے ایسا بہت کچھ موجود ہوتا ہےجس کے ذریعے سماجی برائیاں برہنہ ہوکر نہایت بے شرمی سے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں۔
امین جالندھری نے دو کتابیں’’ حرف حرف کہانی‘‘ اور ’’حرف حرف روشنی‘‘ قلم بند کیں ۔حرف حرف کہانی، اپنے عنوان کی طرح کہانی ہی ہیں ۔ ہر افسانہ مکمل تاثر لیے ہوئے ہے سادہ اسلوب کے ساتھ کہانی کا تانا بانا بنا گیا ہے۔افسانہ خمار ان کے اس اسلوب کو ظاہر کرتاہے ۔تجسس سے بھری کہانی جو ابتدا سے اختتام تک پڑھنے والےکی دلچسپی قائم رکھتی ہے۔ ان افسانوں کا کمال یہ بھی ہے کہ یہ جدید دور کے عین مطابق ہیں ، جب تک روئے زمین پر انسان زندہ ہے کہانی کو بھی تحریر کی صورت میں زندہ رہنا چاہیے۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔ ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔
تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی