• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں نگران حکومتوں کی تشکیل کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے، جن کا بنیادی مینڈیٹ یہ ہے کہ وہ آئین میں دی گئی مدت کے اندر عام انتخابات کے شفاف اور منصفانہ انعقاد کو یقینی بنائیں ۔ آئین کی روح کے مطابق ان نگران حکومتوں پر لازم ہے کہ وہ قطعی طور پر غیر جانبدار ہوں اور کسی قسم کا بیرونی دبائو قبول نہ کریں لیکن بدقسمتی سے نگران حکومتوں کے قیام کے ساتھ ہی یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ وہ آئینی مینڈیٹ کے مطابق نئی منتخب حکومتوں کو 90روز میں اقتدار کی پرامن منتقلی کا اپنا فریضہ سر انجام دے کر سبکدوش ہو جائیں گی ؟ اور اس سوال سے پہلے ایک اور سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا یہ نگران حکومتیں غیر جانبداری سے کام کر سکیں گی ؟ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نگران حکومتیں جنوری سے کام کر رہی ہیں اور وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کے باوجود 90روز کی آئینی مدت کے اندر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں کرا سکی ہیں ۔ اس کے اسباب چاہے کچھ بھی ہوں مگر سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومتوں کی تشکیل کے بعد قومی اور تمام صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ساتھ ہونے کے حالات تو پیدا ہو چکے ہیں لیکن یہ انتخابات 90روز کی آئینی مدت میں ہونے کے امکانات ختم ہو گئے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی مردم شماری کے تحت حلقہ بندیوں کا شیڈول جاری کر دیا ہے اور یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ عام انتخابات کا انعقاد 90 روز میں ممکن نہیں ۔ قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات فروری 2024 ء میں ہو سکتے ہیں ۔ پھر وہی بات کہ اسباب کچھ بھی ہوں ، آئین سے انحراف کی جو روایت پہلے قائم ہوئی ہے ، اب اسی کو برقرار رکھا جا رہا ہے ۔ اس طرح آئین کی عمل داری نہیں رہی ۔ کوئی بھی درست اندازہ نہیں لگا پا رہا کہ یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا اور اس کے نتائج کس قدر خطرناک ہوں گے۔

ملک کی بعض سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کا یہ موقف درست ہے کہ الیکشن ایکٹ آئین سے ماوراء نہیں ہے اور اس ایکٹ کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر کی جا سکتی ہے ۔ اگر یہ سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں کہ آئین پر اس کی روح کے مطابق عمل ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ بیان بازی کی بجائے عدالت سے رجوع کریں ۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ وہ عدالت سے رجوع نہیں کریں گی ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اس اسکیم کا حصہ بن جائیں گی ، جس اسکیم کے تحت انتخابات میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حلقہ بندیوں کے شیڈول کے اعلان کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے انتخابات کی تاریخ نہیں دی گئی ۔ اگر نئی حلقہ بندیاں بہت ضروری تھیں تو اس کے لیے سابقہ منتخب حکومتوں کی معیاد بڑھا کر ان سے یہ کام لیا جا سکتا تھا ۔ آئین میں پھر بھی اس کے لیے گنجائش نکل سکتی تھی ۔ حلقہ بندیوں کا کام نگران حکومتوں میں کرانا اور اس کی بنیاد پر انتخابات میں تاخیر کرنا کسی بھی طرح سیاسی اور جمہوری عمل کیلئے درست نہیں ۔ نگران حکومتوں کو صرف انتخابات کے انعقاد کے مینڈیٹ تک محدود رکھنا چاہئے۔

جہاں تک نگران حکومتوں کی غیر جانبداری کا معاملہ ہے ، اس پر بھی مختلف آراء سامنے آ رہی ہیں ۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی تقرری پر خود سابق حکمران اور اپوزیشن رہنما بھی حیران ہیں ۔ اگرچہ آئین کے مطابق نگران وزیر اعظم اور نگران وزرائے اعلیٰ کی تقرری بالترتیب منتخب قائدایوان اور قائد حزب اختلاف کی ذمہ داری ہے اور بظاہر نگران وزیر اعظم اور سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ کی تقرری اتفاق رائے سے ہوئی ہے لیکن قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف خود اس اتفاق رائے پر پریشان ہیں ۔ مرکز اور صوبوں میں کابینہ کی تشکیل میں بھی سابق حکمران اور اپوزیشن جماعتیں بے بس نظر آتی ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق ان سیاسی جماعتوں نے نگران کابینہ میں جن ناموں کی سفارش کی ، ان میں سے 90 فیصد نام شامل نہیں ہیں ۔ جن 10 فیصد لوگوں کو کابینہ میں شامل کیا گیا ہے ، ان کے اپنے کہیں اور تعلقات بھی تھے اور ان کی لابنگ کہیں اور سے بھی کی گئی ۔ پھر جس طرح بیورو کریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ جاری ہے ، اس سے بھی سابقہ حکمران اور اپوزیشن جماعتوں کا بیوروکریسی میں اثر ورسوخ بالکل ختم ہو جائے گا ۔ اس اکھاڑ پچھاڑ میں بھی نگرانوں کا اپنا ’’ مائنڈ ‘‘ اسلئے نہیں ہو گا کہ وہ بیورو کریٹس سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں ۔ ان ساری باتوں سے کچھ ’’ غیبی اشارے ‘‘ مل رہے ہیں ۔ نگران حکومتوں میں جتنے بھی لوگ آئے ہیں ، ان کی دیانت داری اور غیر جانبداری پر شک نہیں کرنا چاہئے لیکن جس سسٹم میں یہ نگران سیٹ اپ بنا ہے ، اسی سسٹم کے خلاف نگران کام کریں گے ۔ ماضی میں بھی نگران سیٹ اپ اسی طرح کام کرتے رہے ہیں انتخابات سے قبل کئی ایسے گروہ سرگرم ہو جاتے ہیں ، جو حالات کو خراب کرکے نہ صرف لوگوں کو خوف زدہ کرتے ہیں بلکہ ان کی سوچ اور آزادانہ رائے پر بھی اثر انداز ہو تے ہیں ۔ امن وامان کا قیام اور ایسے گروہوں کی سرگرمیوں کو روکنا نگران حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے ۔ اس کے لیے جس سیاسی اور انتظامی تجربے کی ضرورت ہوتی ہے ، وہ نگران حکمرانوں کے پاس نہیں ہوتا ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے نگران حکمرانوں کے پاس جرات مندانہ فیصلے کرنے کی وہ سیاسی قوت نہیں ہوتی ، جو سیاسی حکومتوں کے پاس ہوتی ہے ۔ بہتر یہی ہے کہ نگران حکومتوں کو زیادہ طول نہ دیا جائے اور آئین کی مقررہ مدت کے اندر عام انتخابات کرادیئے جائیں ۔ انتخابات میں تاخیر سے معاملات نہ نگران حکومتوں کے ہاتھ میں رہیں گے اور نہ سیاسی قوتوں کے ہاتھ میں، انتخابات میں تاخیر جمہوری اور سیاسی عمل کے لیے بھی خظرناک ہے اور اسکے ملک کے سیاسی استحکام اور وفاق پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

تازہ ترین