جڑانوالہ کے دل خراش واقعات ابتدائی تحقیقات میں ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ قرار دیئے گئے ہیں جس میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ملوث ہونے کا امکان بھی رد نہیں کیا گیا جس کے گماشتوں نے نواحی علاقوں کے چند لوگوں کو گمراہ کیا اور انہیں جڑانوالہ پہنچا کر کچھ مقامی افراد کو بھی مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور املاک پر حملوں کیلئے اکسایا۔ افسوسناک واقعات کی حکومت اور پوری قوم نے شدید مذمت کی اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے سانحہ کا نوٹس لیتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور ناقابل برداشت قراردیتے ہوئےکہا کہ پاکستان کے تمام شہری، مذہب جنس ذات اور عقیدے کی تفریق کے بغیر ایک دوسرے کے برابر ہیں۔
ملک میں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ماضی میں بھی ایسے افسوسناک واقعات رونما ہو چکے ہیں اور آئندہ بھی ایسے واقعات رونما ہو سکتے ہیں جن سے نہ صرف دنیا بھر میں پاکستان کی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ملک میں بھی امن و امان کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں، اس واقعے کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے اور جس وجہ سے یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے اس کی بھی مکمل اور غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ کوئی بھی ذمہ دار کسی بھی حوالے سے قانون کے شکنجے سے بچ نہ سکے۔ اس موقع پر ہمیں ایسے واقعات کی راہ روکنے کیلئے کوئی تدبیر بھی کرنا ہو گی۔2004 میں جب وزارت مذہبی امور کا چارج میرے پاس تھا‘ ان دنوں بھی دو واقعات ہوئے تھے ایک شانتی نگر میں دوسرا سانگلہ ہل میں‘ جہاں گرجا گھر اور سکول جلا دیا گیا تھا‘ اس واقعہ کی تحقیقات ہوئیں تو پتہ چلا کہ یہ سب کچھ غلط فہمی کی بنیاد پر ہوا تھا‘ ایک واقعہ میں تو مسیحی اور مسلمان نوجوانوں کا تاش کھیلتے ہوئے جھگڑا ہوا جس نے افسوس ناک واقعہ کی شکل اختیار کر لی‘ اس وقت میری تجویز پر ہر ضلع کی بنیاد پر کمیٹی بنائی گئی‘ جس میں اقلیتی نمائندوں کے علاوہ تاجروں اور علمائے کرام کو بھی شامل کیا گیا‘ اس کمیٹی کے ذمہ یہ کام تھا کہ ہر ماہ سی پی او اور ڈی پی او کے ساتھ میٹنگ کرے اور ضلع بھر میں ایسے کسی بھی واقعہ کی روک تھام کیلئے کام کرے، یہ کمیٹیاں اب بحال اور فعال کرنےکی ضرورت ہے۔
اسلام بھی ہمیں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کرنے کی تلقین کرتا ہے اس کیلئے ہمارے سامنے628 عیسوی کا ایک معاہدہ ہے‘ یہ معاہدہ پڑھنے اور سمجھنے کے قابل ہے اس سے ہمیں مکمل رہنمائی ملتی ہے‘ تاریخی طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ یمن کے عیسائیوں کی جانب سے آنے والے ایک وفد کے کیلئے لکھا گیا تھا معاہدے میں لکھا گیا کہ ’’یہ پیغام محمدﷺ بن عبداللہ کی طرف سے عیسائیت قبول کرنے والوں کیلئے ہے‘ یہ ہمارے شہری ہیں‘ ان کیلئے میری طرف سے امان ہے‘ خواہ دور ہوں یا نزدیک‘ ان کے گرجا گھروں کو نقصان نہیں پہنچایا جائے گا‘ ان کے منصفوں کو منصب سے نہیں ہٹایا جائے گا‘ ان کی خواتین سے ان کی اجازت کے بغیر شادی نہیں کی جائے گی اس خاتون کو عبادت کیلئے گرجا گھر جانے سے نہیں روکا جائے گا‘ یہ معاہدہ تاقیامت رہے گا‘‘ جب ہمارے پیارے نبیﷺ نے خود اس طرح کا معاہدہ کیا ہوا ہے تو ہمیں خود اس بات کا احساس کرنا چاہیے کہ ہمارے عمل سے کسی بھی اقلیتی برادری کو نقصان نہ پہنچے‘ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ میں گزشتہ دنوں مشتعل مظاہرین کی جانب سے قرآن پاک کی مبینہ بے حرمتی پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مسیحی برادری پر حملوں، جلائو گھیرائو، گرجا گھروں، درجنوں مکانات، گاڑیوں اور دوسری املاک کو نذر آتش کرنے کے انتہائی افسوسناک واقعات کسی بھی مذہب کے پیروکاروں، بالخصوص مسلمانوں کیلئے سراسر ناقابل قبول ہیں۔ پنجاب کی نگران حکومت نے دل گداز واقعات کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کا حکم دیا، ترجمان پنجاب حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ ’’یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت پاکستان میں امن کو خراب کرنے کی کوشش ہے‘‘۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا جس کی تحقیقات جاری ہیں۔
پولیس ترجمان کے مطابق اہل ِ علاقہ نے ایک مسیحی نوجوان پر توہین مذہب کا الزام لگایا جس کے بعد مساجد سے اعلانات کرائے گئے اور اہل ِ علاقہ کی بڑی تعداد جمع ہو گئی۔ جان بچانے کیلئے مسیحی شہری گھر خالی کر کے اِدھر اُدھر پھیل گئے۔ مظاہرین نے مسیحی برادری کے گھروں اور گرجا گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور آگ لگا دی یہ سارا عمل سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا، عوامی جذبات کو ابھار کر فساد پھیلا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے سانحہ جڑانوالہ میں ملوث افراد کو سزا دینے کیلئے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے ملک کے ہر طبقہ ہائے فکر نے سانحہ جڑانوالہ کی نہ صرف سخت الفاظ میں مذمت کی ہے بلکہ سبھی کا موقف ہے کہ ایسے واقعات کی پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں، اِس واقعے میں ملوث ہر شخص کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں‘ علمائے کرام، سماجی‘ ادبی شخصیات اور پاکستان مسلم لیگ (ضیاء الحق شہید) نے مشتعل افراد کے ان حملوں کی شدید مذمت کی ہے‘ شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ملک میں اقلیتوں کے ساتھ جو بہترین سلوک کیا گیا اسی وجہ آج ملک میں بسنے والی ہندو‘ سکھ اور مسیحی برادریاں انہیں یاد کرتی ہے‘ شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں ہی اقلیتوں کیلئے آسانی پیدا کی گئی کہ وہ جدا گانہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندوں کا پارلیمنٹ کیلئے انتخاب خود اپنے ووٹ سے کریں‘ ہمارا موقف ہے کہ اسلام اس کی اجازت دیتا ہے نہ ملکی قانون اور آئین‘ ہمارا مطالبہ ہے کہ گرجا گھروں اور املاک کی بحالی کیلئے اقدامات کیے جائیں کہ اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔ غیرمسلموں کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ کسی شخص یا ہجوم کو خود جج اور جلاد نہیں بننا چاہیے۔ کسی نے توہین مذہب کے ارتکاب کی ناپاک جسارت کی تو اسے قانون کے حوالے کیا جاناچاہیے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)