غالب کے چچا کو انگریزوں کی طرف سے کچھ پنشن ملتی تھی۔ غالب کے زمانے میں اس میں کچھ رکاوٹ پڑی۔ بادشاہ دلی میں بیٹھتا تھا، مگر پنشن کلکتہ سے بحال ہوتی تھی۔ غالب کو پنشن کے سلسلے میں کلکتہ جانا پڑا،وہاں ایک نیا ہی منظر پیش نظر تھا ،شہر یورپی طریقے سے بسایا جا رہا تھا۔ بازار پررونق، سڑکیں سیدھی اور صاف، شراب آسانی سے دستیاب اور یقینا بے پردہ بی بیاں بھی نظر آتی ہوں گی۔ غالب کی طبیعت خوش ہو گئی اس وقت غالب کی عمر تیس برس کے لگ بھگ تھی، انہیں زندگی بھر کلکتہ کی یاد آتی رہی۔ انہوں نے کلکتہ کی یاد میں ایک قطعہ کہا۔
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشین!
ایک تیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبزہ زار ہائے مطّرہ کہ ہے غضب
وہ نازنین تبان خود آرا کہ ہائے ہائے
وہ صبر آزما ان کی نگاہیں کہ حف نظر
طاقت ربا وہ ان کا اشارہ کہ ہائے ہائے
وہ میوہ ہائے تازہ و شیریں کہ واہ واہ
وہ بارہ ہائے ناب گوارہ کہ ہائے ہائے
1707میں اورنگزیب عالمگیر کی وفات ہو تے ہی مغلیہ سلطنت دھڑام سے نیچے گر پڑی۔ 1757ء میں بنگال کے نوجوان نواب سراج الدولہ کو کلکتہ کے انگریز گورنر جنرل لارڈ کلایو نے شکست دی۔ کلایو کے پاس کل پانچ ہزار فوج تھی اور سراج الدولہ کے پاس پچاس ہزار۔شکست کی بہت سی وجوہات تھیں،مگر بڑی وجہ سراج الدولہ کے وزیر میر جعفرکی غداری تھی۔ سراج الدولہ شکست کھا کر بھاگا۔ میر جعفر کے سپاہیوں نے تعاقب کرکے پکڑ لیااور بہت تشدد کے بعد ہلاک کردیا۔ اس کے بعد ہردن انگریزوں کا اقبال بلند تر ہوتا گیا۔
کلکتہ ایک خوبصورت شہر میں ڈھلتا گیا۔ اس زمانے میں جو لوگ کلکتہ گئے،ان میں سے اکثر نے کلکتہ کی خوبصورتی کا ذکر کیا۔ ولیم ڈال رمپل کی کتاب، وائٹ مغلز میں کلکتہ کے متعلق بعض لوگوں کی تحریریں ملتی ہیں۔ اس مضمون میں ان سے استفادہ کیا گیا ہے۔ کتاب سے اس زمانے کے سیاسی، سماجی، تجارتی، تہذیبی حالات پر روشنی پڑتی ہے۔ 1789ء میں ایک سیاح نے دیکھا کہ شہر کا کوڑا کچرہ اٹھانے کیلئے 400بیل گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں، جو شہر کا کچرہ اٹھا کر باہر لے جاتی تھیں جس سے شہر ہر وقت صاف ستھرا رہتا تھا۔
اس وقت ہندوستان کے کسی اور شہر میں کچرہ اٹھانے کا انتظام نہیں تھا۔ حیدر آباد دکن میں بازاروں میں ایک طرف کباب اور بریانی پکنے سے کھانوں کی خوشبو آتی تھی، دوسری طرف غلاظت سے بدبو کے بھپکے آتے تھے۔ آج بھی پاکستان کے شہر کراچی میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ آج برطانیہ کے مختلف شہر حسن انتظام کی بدولت چمکتے دمکتے نظر آتے ہیں اور پاکستان کے شہر بدانتظامی کے سبب مسائل کا گڑھ بن گئے ہیں۔
ولیم بنٹر 1806ء میں کلکتہ آئے۔ انہوں نے لکھا کلکتہ بڑا ترقی یافتہ شہر ہے۔ اُسے مشرق کا سینٹ پیٹر زبرگ کہا جاتا ہے۔ ہر طرف دولت کا سیلاب بہہ رہا تھا۔ انگریز رئوسا کے محل نما مکانات تھے ہر مکان کے ساتھ بڑے بڑے باغات، گھوڑے، بگھیاں، سوسو نوکر چاکر، گھر میں شراب کی ہزاروں بوتلیں دستیاب تھیں۔ ان باتوں کے ساتھ کلکتہ عیاشی کا بھی بڑا مرکز تھا۔ اس سے چالیس سال پہلے لارڈ کلایو نے لکھا تھا کہ بے حیائی، بدمعاشی اور کرپشن میں کلکتہ کا کوئی مقابلہ نہیں۔
کلکتہ برطانیہ تہذیب کا جزیرہ معلوم ہوتا تھا لوگ اپنی ذات میں مگن تھے کسی کو ایک دوسرے سے کوئی غرض نہ تھی۔ مصوری یا ہنرمندی کا اظہار کہیں دیکھنے میں نہیں آیا، جتنے انگریز کلکتہ میں نظر آئے سب دولت جمع کرنے میں مصروف نظر آتے ۔ سڑکوں کے کنارے کھانے پینے کی دکانیں ہیں یا شراب خانے، انگریز مردو زن ان میں بیٹھے بے تحاشہ کھانے پیتے رہتے ہیں۔ کلکتہ میں اس وقت 4000گورے اور 250 گوریاں ہیں۔ نوجوان گوروں کے پاس کرنے کو کچھ کام نہیں ہے، وہ ہروقت کلکتہ کے بازاروں میں آوارہ گردی کرتے نظر آتے ہیں۔ طوائفوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔
وہ بھی ہر وقت گھومتی پھرتی رہتی ہیں ۔بنگال کی آب و ہوا، جلدی امراض کے لئے بہت سازگار ہے۔ کجھلی زیادہ ہو جائے تو کھجاتے کھجاتے بندہ مر جاتا ہے۔ عورتیں بے پردہ پھرتی ہیں، بے حیائی عام ہے۔ انگلینڈ میں پندرہ سولہ برس کی عمر کے نوجوان لڑکے انڈیا میں کام کرنے کے لئے بھرتی کئے جاتے ہیں، جلدی انہیں ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے۔ انگلینڈ سے کلکتہ پہنچنے میں تقریباً چھ مہینے لگتے ہیں۔ کلکتہ پہنچنے کے بعد وہ بے نتھے بیلوں کی طرح کلکتہ کے بازاروں میں گھومتے پھرتے نظر آتے ہیں۔ جانوروں کی سی آوازیں نکالتے ہیں، اکثر اپنے لئے مصیبتیں بھی مول لے لیتے ہیں۔ مسلمان شریف زادیاں باپردہ ہوتی ہیں۔
ایک سیاح نے لکھا کہ ایک دفعہ اس نے دیکھا، دو مسلم شریف زادیاں بندرگاہ پراتریں ان کے پیچھے نوکرانیوں کی قطار تھی،لگتا تھا، شریف زادیاں پہلی بار کلکتہ آئی تھیں۔ ان کے ساتھ دو مسلمان شرفا کی فیملیاں بھی تھیں ۔یہ مسلمان کنبے حیدرآباد دکن سے آئے تھے۔ حیدرآباد میں اس زمانے میں موسم خشک رہتا،جب کہ کلکتہ میں موسلادھار بارشیں ہوتیں اور گلیوں بازاروں میں چلنا بہت مشکل ہو جاتا۔ کھیتوں میں چاول کی فصل لہلانے لگتی ، جدھر دیکھو ہریالی نظر آتی ۔ حیدر آباد کے ریزی ڈیفٹ جیمز کرک پیٹرک کا کچھ عرصہ ہوا کلکتہ میں انتقال ہو گیا تھا۔ کرک پیڑک نے حیدر آباد کی ایک شیعہ مسلم نواب زادی سے شادی کی تھی۔ ایک تو کرک پیٹرک کی بیوہ تھی،دوسری اس کی والدہ۔ یہ لوگ کرائے کے ایک مکان میں جاکر اُترے۔
کلکتہ میں تجارت کو بڑا عروج حاصل تھا۔ تاجر نوابوں سے کم حیثیت کے مالک نہ تھے۔ ان کے پاس بڑے بڑے شاندار مکانات تھے۔ بڑی سجی سجائی بگھیوں میں بیٹھ کر سیر کو نکلا کرتے تھے۔ انگریز تاجروں نے دنیا کے بڑے بڑے شہر دیکھ رکھے تھے۔ وہاں سے نئی نئی چیزیں سیکھ کر آئے تھے اور کلکتہ کو ان سے سجایا تھا۔ کئی ملکوں کا طرزِ تعمیر کلکتہ میں آزمایا جا رہا تھا۔ ایک حیدرآبادی دانشور، عبداللطیف شستری نے اسے 1789ء میں دیکھا تو دیکھتا رہ گیا۔ اس نے لکھا، ہزاروں مکانات دو دو تین تین منزلہ ہیں، جن میں رات کو روشنی ہوتی ہے جو آنکھوں کو بھلی لگتی ہے، زیادہ تر مکانات پر سفید قلعی کی گئی ہے۔
کوڑا اٹھانے کے لئے سینکڑوں بیل گاڑیاں ہیں جو دن رات شہر کا کوڑا اٹھا کر لے جاتی ہیں۔ سڑکوں کے اطراف نالیاں بنائی گئی ہیں۔ دکانوں پر ہر طرح کا غلہ با افراط دستیاب ہے۔ امن وامان بہت اچھا ہے۔ چوروں ڈاکوئوں کا نام ونشان نہیں ہے۔ بندرگاہ پر ساری دنیا کے جہاز لنگر انداز رہتے ہیں جوچینی اور شیشے کے برتن، طرح طرح کا کپڑا، شرابیں اور نوادرات لے کر آتے ہیں، جب کوئی جہاز آتا یا جاتا تو اپنے آنے کا اعلان توپ کا گولہ داغ کر کرتا ہے۔
اُردو ادب کے قاری فورٹ ولیم کالج کلکتہ کی خدمات کو کس طرح بھول سکتے ہیں۔ میرامن کی باغ و بہار یہیں لکھی گئی اور یہیں چھپی۔ فورٹ ولیم اگر علم کا مرکز تھا تو انگریزوں کی طاقت کا مظہر بھی تھا۔ ایک طرف اسلحہ خانہ تھا، جس میں ہزاروں رائفلیں، تلواریں، توپیں، توپوں کے گولے، محفوظ کئے ہوئے تھے۔ اور آج کلکتہ کا کیا حال ہے۔ کلکتہ کی حکمران ایک خاتون ہیں ممتا بنرجی۔ اعلیٰ دوجے کی دانشور ہیں۔ میک اپ نہیں کرتیں۔ سادہ زندگی گزارتی ہیں ،جب کہ پاکستان کی خواتین سیاستدان، سوائے فیشن کرنے کے اور کچھ نہیں جانتیں۔ کلکتہ آج بھی اسی طرح آباد ہے۔