• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی ذہانت (AI) کا ذکرآج ہر طرف ہے ۔ یہ تیزی سے بڑھتا ہو ا شعبہ ہے جس کا اثر زندگی کے ہر پہلو میں نظر آنے لگا ہے ۔ اسکے بہت سے فوائد ہیں لیکن اسکا بے دریغ استعمال انسانی بقاءکیلئے ایک سنگین خطرہ بھی بن سکتا ہے ۔ انہی فوائد و نقصانات کو سمجھنا اور اعتدال میں استعمال کرناہم پر منحصر ہے ،بین الاقوامی سطح پر مصنوعی ذہانت کے استعمال کے قوانین بنانا اور حدود طے کرنا انتہائی ضروری ہے۔

چند سیکنڈ میں مضامین لکھنے اور دیگر مفید معلومات فراہم کرنے کیلئے چیٹ جی پی ٹی کی حیرت انگیز صلاحیتوں کا بین الاقوامی سطح پر کافی چرچا ہورہاہے۔ اس کا جدید ماڈل چیٹ جی پی ٹی 4کارکردگی میں اور بھی بہتر ہے۔مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چیٹ جی پی ٹی نےانتہائی تیزی سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے، جنوری 2023ءسے اب تک اس کو ماہانہ استعمال کرنے والوں کی تعداد دس کروڑ سے بھی تجاوز کر گئی ہے پوری دنیا میں لوگ چیٹ بوٹ کو استعمال کرنے کیلئے قطار میں کھڑے ہورہے ہیں ،لیکن سب کچھ اچھا نہیں ہے ۔ مصنوعی ذہانت میں تیز ترین ترقی اب بنی نوع انسان کیلئے عنقریب آنے والی تباہی کے خطرے کی گھنٹیاں بھی بجا رہی ہے ۔ ڈاکٹر جیفری ہنٹن، جنہیں مصنوعی ذہانت کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے، نے یکم مئی 2023ءکو گوگل سے استعفیٰ دیدیا ہے ۔ ڈاکٹر جیفری ہنٹن نے بی بی سی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں،اس شعبے کے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئےکہا کہ ایسے نظام بنانا جو انسانی ذہانت کا مقابلہ کرے یا اس سے آگے نکل جائے، نسل ِانسانی کیلئے تباہ کن ہو سکتا ہے ۔ ڈاکٹر جیفری ہنٹن واحد شخص نہیں ہیں جو مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار ترقی سے پریشان ہیں۔ مشہور برطانوی سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ نے ایپل کے شریک بانی اسٹیو ووزنیاک کے ساتھ ایک خط پر دستخط کئے تھے جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت سے انسانیت کو ’’شدید خطرات‘‘ لاحق ہیں،مکمل مصنوعی ذہانت کی ترقی نسل انسانی کاخاتمہ ایک چٹکی میں کر سکتی ہے یہ انہوں نے 2014میں بی بی سی سےایک انٹرویو میں کہا تھا۔ اس سال مارچ میں دو تکنیکی ماہرین ایلون مسک اور ایپل کے شریک بانی اسٹیو ووزنیاک نے اسی طرح کے خدشات ہزاروں دیگر ماہرین کے دستخط کردہ ایک خط میںظاہرکئے تھے جس میں چیٹ جی پی ٹی 4 سے زیادہ طاقتور مصنوعی ذہانت کا نظام بنانے پر فوری طور پر پابندی لگانےکیلئے کہا گیا تھا۔ان خدشات کے باوجود، اس شعبے میں تحقیق اور پیشرفت جاری ہے، ان کوششوں سے ماہرین کو خدشہ ہے کہ انسانیت اپنی ہی تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ اس طرح کے تقریباً پچاس مصنوعی ذہانت کےٹولزاب مارکیٹ میں موجود ہیں جن میں بارڈ اے آئی، بنگ اے آئی، ڈیالو جی پی ٹی ، ساکریٹک ، چیٹ سونک، جیسپر چیٹ،لیمڈا اور دیگر ٹولز شامل ہیں۔ گوگل اپنے سرچ انجن کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ ایک نیا ٹول بنانے کیلئے کام کر رہا ہے جو مصنوعی ذہانت پر انحصار کرتا ہے۔ مائیکروسافٹ نے نیا بنگ سرچ انجن متعارف کرایا ہے جس میں مصنوعی ذہانت سے چلنے والےکو ’’کوپائیلٹ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔جیسے جیسے مصنوعی ذہانت میں زیادہ نکھار آتا جا رہا ہے، یہ پیش گوئی کرنا مشکل ہو تاجارہا ہے کہ بعض حالات میں اس کے کیا نتائج ہوں گے ۔ اس کے غیر ارادی اور ممکنہ طور پر تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور خطرہ احتساب کی کمی ہے۔مصنوعی ذہانت کےنظام اپنے طور پر کام کرتے ہیں اور انسانی عمل دخل کے بغیر فیصلے کرسکتے ہیں۔ لہٰذا کئی مقامات پر اس سے ایسی صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جہاں کسی کو بھی اس نظام کےنتائج کا ذمہ دار ٹھہرانا مشکل ہو جائے گا ۔ مصنوعی ذہانت سے ایک نہایت خطرناک ہتھیار بھی بنایا جا سکتا ہے، جس کے تباہ کن نتائج ہو سکتے ہیں، خود مختار ہتھیارجسے قاتل روبوٹ بھی کہا جاسکتا ہے، کے ذریعے مصنوعی ذہانت کو انسانی دخل اندازی کے بغیر فوجی آپریشن کرنے کیلئے پروگرام کیا جا سکتا ہے، جس سے بیگناہ جانوں کا ضیاع ہو سکتا ہے اور بڑے پیمانے پر تباہی ہوسکتی ہے۔ غول ڈرون پہلے ہی تیارکئے جا چکے ہیں جو سو یا اس سے زیادہ اہداف پر ایک ساتھ حملہ کر سکتے ہیں اور اپنے اہداف کو تباہ کرنے کیلئے خود مختاری سے فیصلے کر سکتے ہیں۔ چند سینٹی میٹر کے چھوٹے ڈرونز کو چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی کے ساتھ تیار کیا گیا ہے جو ہجوم میں کسی بھی انسان کو شناخت کرکےاور درستی کے ساتھ گولیا ں مار کر ہلاک کر سکتا ہے ۔اعلیٰ ذہانت کی مشینیں خود کو تیزی سے بہتر کرنے کی صلاحیت کی حامل ہونگی، جس سے ان کی ذہانت میں بے پناہ اضافہ ہوجا ئیگا ۔ اس سے ایسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جہاں مشینیں انسانوں سے زیادہ ذہین ہو جائیں گی اور ہمارے وجود کیلئے خطرہ بن جائیں گی۔ مصنوعی ذہانت کا ایک اور اہم خطرہ انسانی ملازمتوں کا خاتمہ ہے۔ جیسے جیسے مصنوعی ذہانت زیادہ ترقی یافتہ ہوتی جائیگی ، اس میں وسیع پیمانے پر صنعتوں میں انسانی کارکنوں کی جگہ لینے کی صلاحیت بڑھتی جائیگی، جس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور معاشی بدحالی پیدا ہوجائیگی۔مصنوعی ذہانت کے خطرات اور مضر اثرات سے نمٹنےکیلئے، یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ اس نظام کو محفوظ اور ذمہ دارانہ انداز میں تیار کیا جائے۔ تمام ممالک کو مصنوعی ذہانت کےنظاموں کی ترقی اور تعیناتی کیلئے معیار اور رہنما خطوط قائم کرنے کیلئے مل کر کام کرنا چاہئے۔مصنوعی ذہانت سے وابستہ خطرات کی نشاندہی کرنے کے بعد، ہمیں اس کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ مصنوعی ذہانت کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ طب سے لیکر مالیات تک، تعلیم سے لے کر نقل و حمل تک، مصنوعی ذہانت ہماری زندگی کے تقریباً ہر پہلو میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس کا سب سے امید افزا استعمال صحت کی دیکھ بھال ہے۔ اس میں ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کو بیماریوں کی زیادہ درست اور تیزی سے تشخیص کرنے میں مدد کرنے کی صلاحیت ہے۔ مصنوعی ذہانت ڈاکٹروں کو مریض کی انفرادی طبی تاریخ اور جینیاتی خاکے کی بنیاد پر مزید ذاتی نوعیت کے علاج کے منصوبے تیار کرنے میں بھی مدد کر سکتی ہے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین