صوبہ سندھ میں محکمہ صحت کی اس تصدیق کے بعد کہ اس سال گذشتہ دوبرسوں کی نسبت ملیریا کے مریضوں کی تعداد دوگنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے، چند روز سے ڈینگی نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اگست کے دوران صرف حیدرآباد ڈویژن میں ملیریا کے 31ہزار کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ حالیہ دنوں میں ڈینگی کے 828 مریض اسپتالوں میں لائے جاچکے ہیں تاہم کسی موت کی اطلاع نہیں۔ ملیریا اور ڈینگی بخار مچھر کی دو مختلف اقسام کے کاٹنے سے ہوتا ہے۔ دیہی علاقوں میں عدم آگہی، موسمی حالات، صحت و صفائی کے فقدان اور حفاظتی تدابیر اختیار نہ کرنے سے ہر طرح کے مچھروں کی افزائش ہوتی ہے۔ ملیریا اور ڈینگی کے ٹیسٹ مہنگے ہونے کی وجہ سے غریبوں کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملیریا کو غریبوں کی بیماری قرار دیا جاتا ہے۔ ادھر پنجاب، خیبر پختونخوا اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ڈینگی بخار کے کیس تیزی سے بڑھ رہے ہیں اور آنے والے دوماہ اس کی افزائش اور پھیلاؤ کے ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں مون سون کا سیزن جاری ہے جس سے ان دنوں اکثر جگہوں پر بارش کا پانی کھڑا رہتا ہے جس کی فی الفور نکاسی ضروری ہے۔ دیہی علاقوں میں آبادی کی اکثریت گرمی کے موسم میں کھڑکیاں دروازے کھول کر یا کھلی جگہوں پر سوتی ہے۔اس ضمن میں جہاں محکمہ صحت اور بلدیاتی اداروں کو مچھرمار اسپرے کو یقینی بنانا چاہئے وہیں شہریوں کو از خود بھی اپنے گھروں کو مچھروں سے محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔مچھروں سے بچاؤ کے لیے کم از کم حفاظتی لوشن ضرور استعمال کیا جانا چاہیے۔ ڈینگی کا مخصوص مچھر صاف پانی میں انڈے دیتا ہے لہٰذا گھروںمیں صاف پانی کے برتنوں کو اچھی طرح ڈھک کر رکھنا چاہئے تاکہ اس مچھر کی افزائش کی روک تھام ہوسکے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998