• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ، بالی وڈ کے صفِ اوّل کے لکھاری گلزار کی مشہور نظم ’’نام گم جائے گا..... چہرہ یہ بَدل جائے گا..... مَیری آواز ہی پہچان ہے..... گریاد رہے..... دِن ڈھلے جہاں،رات پاس ہو..... زندگی کی لَو اُونچی کر چلو..... یاد آئے، گر کبھی جی اُداس ہو..... میری آواز ہی پہچان ہے..... گریاد رہے، اپنی سُریلی آواز میں گنگناتا رہا اور آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھتا رہا۔ سب سے فریاد کرتا رہا۔ کہ ’’میں وہی اسد عباس ہُوں، جس کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا، میری محافلِ موسیقی میں تالیوں کی گونج ہوتی تھی، کوئی آٹو گراف لیتا تھا، توکوئی سیلفی بنواتا تھا۔ 

تو پھرآج فضائوں میں اتنا سناٹا کیوں ہے، معاشرے نے ایسی مُجرمانہ خاموشی کیوں اختیار کر لی ہے؟ کوئی میری درخواست پر غور کیوں نہیں کر رہا، مَیں شدید بیمار ہُوں۔ میرے چہرے کی رنگت بدل گئی ہے، لیکن میری آواز آج بھی سماعتوں میں رس گھولتی ہے۔ میں مر رہا ہُوں۔ میں مرنے والا ہُوں، دیکھ لینا اپنے، رب کی پاس جاکر تم سب کی شکایت کروں گا۔‘‘ اور پھر وہی ہوا، وہ اپنے اَن گنت گیتوں کی یادیں چھوڑ کر دُنیا ہی چھوڑ گیا۔ اُسے جانا ہی تھا۔ بقول غالب ’’آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہوتے تک..... کون جیتا ہے تِری زلف کے سر ہوتے تک..... ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن..... خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہوتے تک۔

یہ دُکھ بھری داستان ہے گلوکار اسد عباس کی ، جو 15اگست 2023ء کو محض38سال کی عُمر میں اِس بَھری دُنیا سے روٹھ کر چلا گیا۔ اسد عباس کو ہر کام ہی کی جلدی تھی، شاید اسے پتا چل گیا تھا کہ اُس کے پاس وقت کم ہے، اسی لیے اُس نے تھوڑے عرصے میں بے پناہ کام یابی اور شہرت اپنے نام کی۔ نوعمری میں ’’سنگیت پاکستان آئیکون‘‘ کے مقابلے میں جیت کا تاج اپنے سر پر سجایا۔ 25ہزار نئی آوازوں کے مقابلے میں وہ نمبرون رہا اور ایک کروڑ روپے نقد، ایک قیمتی گاڑی حاصل کی۔ 

جیت کی خوشی میں اُس کی آنکھیں نم تھیں۔ بھرائی آواز میں بولا، ’’ماں نے کہا تھا کہ مقابلہ جیت نہ سکو، تو گھرمت آنا۔‘‘ ماں کی دعائیں اس کے ساتھ ساتھ رہیں اور وہ پاکستان کی آواز بن گیا۔ یہ صرف15برس قبل کی بات ہے۔ اسد عباس کی38سالہ زندگی میں یہ 15برس بہت اہم تھے۔اُس نے ان برسوں میں شہرت کی بلندیوں کو چُھوا اورپھر گردے کی تکلیف میں مبتلا ہوگیا، حالاں کہ اپنی بیماری سے قبل وہ اپنی منفرد گائیکی اور خُوب صُورت آواز کے سبب دُنیائے موسیقی پر راج کررہا تھا۔

’’سنگیت پاکستان آئیکون‘‘ جیتنے کے بعد اس کی آواز کوک اسٹوڈیو سے گونجی، جس کے سیزن6میں گائے اُس کے ایک پنجابی فوک گیت نے ہر طرف دُھوم مچادی۔ قسمت اُس پر کچھ ایسی مہربان تھی کہ ہر طرف سے آفرز آرہی تھیں۔ اُس نے بیرونِ ملک لاتعداد شوز میں حصّہ لیا۔کہ اپنے اوراپنے اہلِ خانہ کے دن بدلنے کا خیال آنکھوں میں سجا کراُس نے موسیقی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ پھر پتا چلا کہ بلڈ پریشر جیسا خاموش قاتل مرض اُس کے اندر پنپ رہا ہے، یہاں تک ایک دن اچانک اُس کے گردوں نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا۔ وہ ڈائی لیسز پر آگیا۔ اور بس، یہیں سے زندگی اور موت کے مابین ایک کشمکش شروع ہوگئی۔

وہ زندگی کے لیے، موت سے لڑتا رہا، مگر گیت گاتا رہا۔ 2017ء اسد عباس کے لیے بہت سخت ثابت ہوا۔ یہ وہ برس تھا، جب اُسے ٹرانس پلانٹ کروانا پڑا۔ بڑے بھائی ظہیر عباس نے اسے اپنا گردہ ڈونیٹ کیا۔ لیکن غالبا بدقسمتی اس کا دَر پکڑ چُکی تھی۔ محض تین ماہ بعد بدنصیبی نے ایک بار پھراُس وقت دستک دی، جب پرائے گردے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ سیدھا اسلام آباد پہنچا۔ ڈاکٹر سے چیک اَپ کروایا، تو علم ہوا کہ ٹرانس پلانٹڈ گردے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ یہ سُن کر تواس کے پاؤں تلے زمین نِکل گئی۔ مایوسی نے گھیرا شدید تنگ کردیا تھا۔

کوئی راہ سجھائی نہیں دے رہی تھی، لیکن موت سے زیادہ خوف اس بات کا تھا ’’ماں کو یہ اطلاع کیسے دُوں؟‘‘ لیکن خیر، جیسے تیسے ہمّت کرکے ماں کو فون پر بتایا کہ ’’امّاں! بھائی کے گردے نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا۔‘‘ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ ماں نے ہمّت بندھائی کہ ’’بیٹا! حوصلہ نہیں چھوڑنا، میرا رب بہت بڑا ہے۔ وہ سب ٹھیک کردے گا۔‘‘مگر کرنی خدا کی یہ ہوئی کہ بیٹے کو حوصلہ دینے والی خود حوصلہ ہارگئی۔ ماں، بیٹے کی بیماری کا صدمہ نہ سہار سکی۔ بدنصیبی اسد عباس کا تیزی سے پیچھا کر رہی تھی۔ وہ ایک مرتبہ پھر ڈائی لیسز کی جانب آگیا۔ 

پہلے ہفتے میں دوبار پھر تین بار اور پھر بار بار ڈائی لیسز نے اُسے مالی طور پر بھی تباہ کرنا شروع کردیا تھا۔ پہلے ہی اُس کی بیماری کے علاج، ٹرانس پلانٹ پر پانی کی طرح پیسا بہایا گیا تھا۔ اس کے لاہور، فیصل آباد کے گھرقیمتی گاڑیاں، بینک بیلنس سب کچھ ختم ہوتا چلا گیا۔ ساری جمع پُونجی اس کے منہگے ترین علاج کی نذرہوگئی۔ اس کسمپرسی میں بھی وہ گاتا، گنگناتا رہا۔ جو بھی اُس کی مالی مدد کرتا، اُس سے گانا ضرور سنتا۔

اسد عباس نے اسی مایوسی کے عالم میں سینئر فن کار عالم گیر سے رابطہ کیا (جو خود بھی اسی مرض سے جنگ لڑرہے تھے) تو جواب آیا، امریکا آکر ٹرانس پلانٹ کروالو، لیکن اس پر بہت خرچہ آئے گا۔ اسد عباس کے پاس جب کوئی راستہ نہ بچا، تو میڈیا پر آکر دوستوں، ثقافتی اداروں اور سرمایہ داروں سے مدد کی اپیل کی۔

کچھ اداروں کی جانب سے دوچار لاکھ روپے آئے بھی، لیکن اس کی ضرورت تو کروڑوں کی تھی۔ سو، آواز کا جادوگر مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبتا چلا گیا۔ انتقال سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے ایک تقریب میں اُسے ہیلتھ کارڈ بھی دیا، مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ موت اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔ سو، تیزی سے آگے بڑھی اور اسے اپنے ساتھ لے گئی۔

اسد عباس کے بڑے بھائی ظہیر عباس نے اسد کی وفات کے بعد بتایا کہ’’ وہ ہم سب بھائیوں میں چھوٹا تھا، لیکن اسے شہرت اور پہچان بہت جلدی مل گئی تھی۔ وہ بہت باہمّت تھا۔ بیماری کے عالم میں والدہ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتا، تو ہم سے ایک ہی بات کرتا کہ ’’بھائی! اگر مَیں مرجائوں، تو مجھے ماں کے قدموں میں دفن کرنا۔‘‘ اور آج وہ ماں کے قدموں تلے ہی سو رہا ہے۔ مجھے کہتا تھا کہ بھائی! آپ نے مجھے گردہ عطیہ کیا ہے۔ مَیں ساری زندگی اور مرنے کے بعد بھی آپ کا احسان مند رہوں گا۔ اوپر جاکر بھی آپ کے لیے دُعا کیا کروں گا۔‘‘ 

ظہیر عباس کا مزید کہنا تھا کہ ’’مرحوم کے دو بیٹے ہیں،ایک ڈیڑھ سال کا ہے اور دوسرا چار سال کا۔ ہم ان بچّوں اور اُس کی بیوہ کا اُسی طرح خیال رکھیں گے، جیسے اسد نے ساری عُمر ہم بھائیوں کا خیال رکھا۔‘‘ اسد عباس کے ایک اور گلوکار بھائی علی عباس نے فون پر بتایا کہ ’’ہماری فیملی اس وقت فیصل آباد میں ہے۔ سرکاری سطح پر سب ہم سے رابطے میں ہیں۔ حکومت نے بچّوں کے لیے کچھ کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے اور اُمید ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کرے گی۔‘‘ یاد رہے، اسد عباس نے چند ایک فلموں کے لیے پلے بیک سنگنگ کی تھی، لیکن اُن کی اصل شناخت لائیو کنسرٹس ہی تھے۔ 

اُن کی آوازمیں ایک خاص سوز تھا اور پھر وہ سوزاُن کی زندگی میں اس طرح شامل ہوا کہ اُنہیں اپنے ساتھ ہی لے گیا۔ اسد عباس تو ہم سب سے روٹھ کر چلا گیا ہے، لیکن اس کی آواز ہماری سماعتوں میں ہمیشہ رس گھولتی رہے گی۔ اے کاش!! ہمارے ملک میں بھی فن کاروں کو اُن کا حق زندگی میں ملنے لگے، اُن کےفن کی قدردانی کے ساتھ اُن کے مسائل، مشکلات کو بھی سمجھا جائے، جس طرح اُن کے عُروج میں انہیں کاندھوں پہ بٹھایا جاتا ہے، زوال میں بھی ہاتھ بڑھا کر اٹھانے یا کم از کم ہاتھ تھامنے کی کوشش ضرور کی جائے۔