1915 میں لاہور کے مضافات میں پیدا ہوئے۔ اسی زمانے میں فیض احمد فیض، کرشن چند منٹو بھی اس عالم وجود میں آئے۔ ان سب نے آگے چل کر ادب کو بہت ثروت مند بنانا تھا۔ بیدی کا بچپن نامساعد حالات میں گزرا۔ ماں باپ کے مرنے کے بعد انہوں نے پہلے پوسٹ آفس میں ملازمت کی پھر ریڈیو میں، بعد ازاں ایک پبلشنگ ادارہ قائم کیا1947ء میں ملک میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا توبیدی کا گھر بھی لٹ گیا اور کاروبار بھی۔ وہ بھارت چلے گئے، وہاں بھی فسادات ہو رہے تھے۔ بیدی نے کئی مسلمان گھرانوں کی جان بچائی،کچھ عرصےبعد وہ بمبئی چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں گزاری 1985ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔
بمبئی میں بیدی کے افسانوں کے آٹھ مجموعے شائع ہوئے، جن میں چند نام، دانہ و دام، گریس، لمبی لڑکی اور ایک مختصر ناول ایک چادر میلی سی ہے، کچھ مضامین اور کچھ خاکے بھی شائع ہوئے۔ افسانہ نگاری کے علاوہ ان کی زیادہ دلچسپی فلمی دنیا کی طرف مبذول ہو گئی، کئی فلموں کی کہانیاں اور کچھ فلموں کے ڈائیلاگ لکھے جو بے حد کامیاب رہے۔
دنیا کے تمام لکھنے والوں میں کچھ باتیں مشترکہ ہوتی ہیں۔ وہ جس موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں اسے لازوال بنا دیتے ہیں۔ بیدی بھی یہی کرتے تھے بڑے دھیمے انداز میں اپنی بات شروع کرتے اور پھر اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیتے۔ ایک چادر میلی سی ان کا شاہکار ناول ہے۔ اس کا پلاٹ یہ ہے کہ سیالکوٹ کے مضافات میں ایک گاؤں کوٹلہ ہے، جہاں کے روزمرہ کے واقعات کو بیدی نے اپنے ناول کا موضوع بنایا اور اپنے قلم سے اسے امر کر دیا۔ تلوکا تانگہ چلاتا ہے ،بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتی ہے۔
اس کے ٹوٹے پھوٹے گھر میں بڈھے ماں باپ ،بیوی بچے اور اس کا چھوٹا بھائی منگل سنگھ رہتا ہے۔ گائوں میں وشیو دیوی کا مندر ہے، جس کی زیارت کرنے آس پاس کے علاقوں سے یاتری (زائرین) آتے رہتے ہیں۔ گائوں میں دو رئیس بھائی، چوہدری مہربان داس اور چودھری گھنشام داس رہتے ہیں۔ جو پرلے درجے کے بدمعاش ہیں۔ ایک درخت کے نیچے ایک ملنگ بابا پڑا رہتا ہے۔ جو چودھریوں کا شریک کار ہے۔
بابا کے پاس گائوں کی سب عورتیں دعا کے لئے آتیں، کوئی بیٹا مانگتی ، کوئی ساس کے مرنے کی بددعا کرواتی، زیادہ تر عورتیں میاں کو قابو کرنے کا نسخہ مانگتیں۔ تلوکا کبھی کبھار چودھریوں کے ڈیرے سے میٹھے مالٹے (شراب) کی ایک بوتل لے آتا ہے۔ رانی (اس کی بیوی) ٹھرّے کی بوتل سے بڑی چڑتی ہے۔
کوٹلہ گائوں میں چند ٹانگے والے بھی ہیں۔ کبھی کبھار جب کوئی مجبور عورت ان کے ہتھے چڑھ جاتی ہے تو وہ اسے دھرم شالہ پہنچا دیتے ہیں، جہاں چودھری اس کا استحصال کرتےاور ٹانگے والے کو ٹھرّے کی ایک بوتل دے دیتے ہیں۔
ایک دن تلوکا، ایک نو عمر لڑکی کو لے آیا اور دھرم شالہ میں چھوڑ کر اپنے گھر آگیا۔ رانی (بیوی) نے جو ٹھرّے کی بوتل دیکھی تو سمجھ گئی اور دہاڑی ،آج میں نہ پینے دوں گی۔ تلوکا نے رانی کو بالوں سے پکڑ ا اور ایک ہی جھٹکے میں اسے زمین پر گرا دیا۔ (کائن) پر بیٹھے پرندے اُڑ گئے۔ کتا بھونکنے لگا۔ بڑی بیٹی خوفزدہ آواز میں چلانے لگی۔ بچائو۔۔۔ بچائو۔۔ بڈھا باپ چیخا۔ اوئے بے شرما۔ اوے بے حیا۔۔ اوے۔۔ پاپیا۔۔۔ تلوکے کی ماں۔۔ اپنی بہو کے خلاف بغض نکالنے لگی۔
اپنی کمائی سے پیتاہے۔ اس چڑیل (بہو) کے باپ سے پیسے نہیں مانگتا تلوکا، غصہ سے پاگل ہو چکا تھا۔ بیوی کے کپڑے پھاڑ دیئے اور چیخنے لگا۔ نکل جا۔۔۔ میرے گھر سے فوراً نکل جا۔۔۔ چڑیل کہیں کی ،کچی دیوار کے پیچھے اور اوپر چھپ پر پڑوسنیں جھانکنے لگیں۔ رانو،پڑوسیوں پر برسنے لگی۔۔۔ جائو تم سب جائو۔ کیا تمہارے مرد تمہیں نہیں پیٹتے۔ آج جو ہوتا ہے ہونے دو۔ آج میں اس پاپی کے ہاتھوں ماری جائوں گی۔ آج میرے بچے مجھے روئیں گے۔
تلوکا ،کابھائی منگل جسے رانو نے اپنے بچوں کی طر ح پالا تھا،کچھ دیر یہ منظر دیکھتا رہا،پھر اچانک اٹھا اور اپنے بڑے بھائی کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ ایک موٹی سی گالی دی۔۔ اپنے باپ کا ہے تو چھڑا لے اپنا ہاتھ ۔۔۔ تلوکے کو احساس ہوا کہ منگل (چھوٹا بھائی) جوان ہو چکا ہے۔ رانو کوٹھری میں جاکر اپنے کپڑے اکٹھے کرنے لگی،کپڑے تھے ہی کتنے۔وہ جا رہی تھی،کہاں جا رہی تھی۔ یہ تو اسے بھی معلوم نہ تھا، وہ بس جا رہی تھی،خود بھی رو رہی تھی دوسروں کو بھی رُلا رہی تھی، بچے ہیں سمجھوں پیدا ہی نہیں ہوئے تھے یا مرے گئے ہیں۔
منگل (دیور) نے ہاتھ پکڑ لیااور بولا،کہاں جائے گی بھابھی۔چنداں (ساس) بولی جائے گی کہاں،آگا نہ پیچھا۔ تلوکابولا،جا ۔۔ جا۔۔ جا دیکھتا ہوں کہاں جائے گی۔ رانی بولی اور کہیں جگہ نہ ملی تو دھرم شالہ چلی جائوں گی۔ دھرم شالہ کا نام سن کر تلوکا سن ہو گیا،کیوں کہ دھرم شالہ میں مجبور عورتوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ اس نے رانو کو روک لیا۔۔ رانو بھی کوئی بہانہ ہی چاہتی تھی جس سے وہ گھر رہ جائے اور عزت بچی رہے اور اب جانے کا فائدہ کیا تھا، ٹھرے کی بوتل تو ٹوٹ چکی تھی۔
اس کے بعد بیدی کے قلم کے کمالات بلکہ معجزات ہیں۔ اُردو میں شاید ہی کوئی مختصر ناول اس پائے کا لکھا گیا ہو گا۔ اگر اُردو کے دوچار ادیبوں کے نام نوبیل پرائز کے لئے شارٹ لسٹ کئے جائیں تو بیدی کے ناول کو نظرانداز ممکن نہ ہو گا۔ چونکہ گیسوئے اُردو ابھی منت پذیر شانہ ہے یا اُردو کی تنگ آبنائے۔۔۔ادب کے بین الاقوامی دریائوں سے بہت دور ہے اس لئے اُردو کے کسی شہ پارے کو نوبیل انعام کا مستحق نہ سمجھا گیا۔ جس طرح غالب کو اپنے انداز بیان پر ناز تھا۔ اسی طرح ،بیدی کا انداز بیان بھی قابل تعریف ہے۔ انہوں نے اُردو ادب کو بہت ثروت مند بنایا ہے۔ شکریہ بیدی جی ۔ بہت شکریہ۔
معزز قارئین! آپ سے کچھ کہنا ہے
ہماری بھرپور کوشش ہے کہ میگزین کا ہر صفحہ تازہ ترین موضوعات پر مبنی ہو، ساتھ اُن میں آپ کی دل چسپی کے وہ تمام موضوعات اور جو کچھ آپ پڑھنا چاہتے ہیں، شامل اشاعت ہوں، خواہ وہ عالمی منظر نامہ ہو یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، رپورٹ ہو یا فیچر، قرطاس ادب ہو یا ماحولیات، فن و فن کار ہو یا بچوں کا جنگ، نصف سے زیادہ ہو یا جرم و سزا۔ لیکن ان صفحات کو اپنا سمجھتے ہوئے آپ بھی کچھ لکہیں اور اپنے مشوروں سے نوازیں بھی۔ خوب سے خوب تر کی طرف ہمارا سفر جاری ہے۔
ہمیں خوشی ہے کہ آج جب پڑھنے کا رجحان کم ہوگیا ہے، آپ ہمارے صفحات پڑھتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ لیکن اب ان صفحات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اپنی رائے بھی دیں اور تجاویز بھی، تاکہ ان صفحات کو ہم آپ کی سوچ کے مطابق مرتب کرسکیں۔
ہمارے لیے آپ کی تعریف اور تنقید دونوں انعام کا درجہ رکھتے ہیں۔ تنقید کیجیے، تجاویز دیجیے۔ اور لکہیں بھی۔ نصف سے زیادہ، بچوں کا جنگ، ماحولیات وغیرہ یہ سب آپ ہی کے صفحات ہیں۔ ہم آپ کی تحریروں اور مشوروں کے منتظر رہیں گے۔ قارئین کے پرزور اصرار پر نیا سلسلہ میری پسندیدہ کتاب شروع کیا ہےآپ بھی اس میں شریک ہوسکتے ہیں ، ہمارا پتا ہے:
رضیہ فرید۔ میگزین ایڈیٹر
روزنامہ جنگ، اخبار منزل،آئی آئی چندیگر روڈ، کراچی