سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر بینچز بنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کردیا جبکہ کیس کی سماعت جاری رہے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ازخود نوٹس کے اختیارات چھوڑنے کو تیار ہوں، ایسے اختیارات نہیں چاہتا جن سے عدلیہ کی آزادی کمپرومائز ہو۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار فل کورٹ براہِ راست سماعت ہوئی۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے آئین کی کیا خلاف ورزی ہوئی؟
سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ اپنے پہلے عدالتی دن فل کورٹ کی سربراہی کی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے پہلے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ تاخیر کے لیے معذرت چاہتا ہوں، فل کورٹ اجلاس چل رہا تھا، جس میں فیصلہ کیا ہے کہ سرکاری ٹی وی پر مقدمہ لائیو نشر کرنے کا پائلٹ تجربہ کیا جائے، ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو براہِ راست نشریات کے ممکن یا ناممکن ہونے کا جائزہ لے گی، ہم میں سے بینچ کے کچھ ممبران کیس پہلے سن چکے ہیں، کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے یہ معاملہ سنا ہی نہیں۔
اس موقع پر عدالتِ عظمی نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں فل کورٹ تشکیل دینے کی درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 9 درخواستیں ہیں اور وکلاء کون کون ہیں؟ خواجہ طارق رحیم صاحب! آپ دلائل کا آغاز کریں، دلائل دوبارہ سے شروع ہوں گے کیونکہ نیا بینچ تشکیل دیا گیا ہے، فل کورٹ بنانے کی 3 درخواستیں تھیں جن کو منظور کر رہے ہیں، فل کورٹ اجلاس میں فل کورٹ سماعت کرنے کی منظوری دی گئی، عوام ہم سے 57 ہزار کیسز کا فیصلہ چاہتے ہیں، خواجہ صاحب! ہم آپ کو نہیں کہتے کہ کم بولیں مگر آپ بات کو جامع رکھیں، ماضی کو بھول جائیں، ابھی کی بات کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ سیکشن 5 کا کیا ہو گا؟ کیا ایک پارٹی کی وجہ سے ایکسر سائز نہیں ہو گی؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ ہم شروع کرتے ہیں، ایکٹ پڑھا جائے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے ماضی کے حوالے سے دلائل جاری رکھے۔
جس پر چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ خواجہ صاحب! یہ عوامی وقت ہے، ایسے نہ کریں اور ایکٹ پڑھیں، سیکشن 2 میں مت جائیں اور پورا ایکٹ پڑھیں، وہ الفاظ مت بولیں جو ایکٹ میں موجود نہیں۔
جسٹس سردارطارق نے کہا کہ خواجہ صاحب! مہربانی کر کے قانون پڑھ لیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے درخواست گزار کے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ قانونی نکات کی طرف آئیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! اپنے دلائل مرتب کریں، ہر سوال کا جواب فوری مت دیں، اپنے معاون کو کہیں عدالت کے سوالات نوٹ کر لے، جب سوالات سمجھ لیں تو ایک ہی بار جواب دیجیے گا۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کیا کہتا ہے؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کو سپورٹ کرتے ہیں؟ آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کے شیڈول 4 کے مطابق سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر کے ضوابط خود بناتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کو یہ اختیار آئین میں دیا گیا یا قانون میں؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ میں سوالات نوٹ کر رہا ہوں، جواب بعد میں دوں گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ہدایت کی کہ خواجہ صاحب! آئینی شقوں کو صرف پڑھیں، ان کی تشریح نہ کریں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! آپ کیا کہہ رہے ہیں، یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ خواجہ صاحب! آپ جو باتیں کر رہے ان پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں، میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہ رہا ہوں، لگتا ہے آپ ایسا نہیں چاہ رہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اختیارات اور طاقت کا ذکر قانون میں نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ آپ یہ سوال نوٹ کر لیں، سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو استعمال کرے، کیا آپ کے مطابق سپریم کورٹ رولز 1980ء آئین سے متصادم ہیں، مستقبل کی بات نہ کریں دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل کی قانون سازی کے لیے درخواست دائر کر دیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 جوڈیشل پاور ہے، عدالت کو اپنے اختیارات استعمال کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! آپ کی بحث کیا ہے؟ مجھے آپ کی یہ بات سمجھ آئی ہے کہ اگر یہ سب فل کورٹ کرے تو درست ہے، اگر پارلیمنٹ یہ کام کرے تو غلط، میں یہ سمجھا ہوں آپ کی بات سے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا لا محدود اختیار ہو تو آپ مطمئن ہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ آپ یہ تو بتائیں کہ کس آئین کے آرٹیکل سے ایکٹ متصادم ہے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متعلق کمیٹی بنانے کا قانون جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا پارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بنا سکتی ہے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دے کر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور پسِ پشت ڈال سکتی ہے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ خواجہ صاحب! کیا آپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے؟ پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کی کوئی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا قانون کے بعد سپریم کورٹ کا اختیار کم ہوا یا چیف جسٹس کا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا قانون سے چیف جسٹس کا عہدہ بے کار ہو گیا ہے؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے سوال کیا کہ کیا 3 ججز بیٹھ کر آئینی تشریح نہیں کر سکتے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ نہیں کہا جارہا کہ جج قابل نہیں، قانون سازی میں صرف تعداد کی بات ہو رہی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ کیا چیف جسٹس کے 3 رکنی بینچ تشکیل دینے پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا؟ یا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ماسٹر آف دی روسٹر والا چیف جسٹس کا اختیار غیر آئینی تھا؟ بینچ اگر چیف جسٹس اور 2 جج بنائیں تو کیا آپ کو اس پر اعتراض ہے؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ اگر ایگزیکٹیو رولز بنانے کا اختیار رکھتا ہے تو کیا پارلیمنٹ جوڈیشل اختیار ختم کر رہی ہے؟ بینچ کی تشکیل جوڈیشل اختیار کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے؟ جوڈیشل اختیار کو محدود کرنا غیر آئینی اقدام ہے، پارلیمنٹ کیا یہ کرنا چاہ رہی ہے؟ پبلک انٹرسٹ کی کیا تعریف ہے؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمان نے تو اختیارات لے لیے ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے سوال کیا کہ آپ کس جانب سے دلائل دے رہے ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956ء کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے، پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے ناں، یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں، عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، میں پارلیمنٹ کی تضحیک نہیں کر رہا، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور نا ممکن بنا رہے ہیں، ہم آپ سے کہہ رہے ہیں کہ آپ سوال نوٹ کر لیں، سوال نوٹ کر کے آرام سے جواب دے دیجیے گا، ہم نہیں چاہتے کہ آپ کا کوئی فی البدیہہ جواب آپ کے لیے ہی مشکل کا باعث بنے، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرٹیکل 199 کے اندر اپیل کا حق دیا گیا تھا تو کیا وہ غلط تھا؟ ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے، کیا وہ ٹھیک تھے؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، جواب دینے کی ضرورت نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ عدالتی قواعد بھی بنائے تو یہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار بھی ان کے پاس چلا جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے ساتھیوں کے سوالات بہت اچھے ہیں، ان پر آرام سے غور کریں، آپ نے کہا کہ اہم کیس ہے، میں نہیں لگاتا میری مرضی، 10 سال کیس نہیں لگاتا، اگر کہہ دیا مقدمہ 14 دن میں لگے گا میں کہوں میری مرضی، یہ عدالت عوام کے ٹیکس پر چلتی ہے، یہ قانون اڑا دیں تو چیف جسٹس کو فائدہ ہوتا ہے، میری رائے میری مرضی کو چھوڑیں، بتائیں آئین و قانون سے کیسے متصادم ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے خیال میں از خود نوٹس میں اپیل کا حق دینا غیر آئینی ہے۔
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میری ذاتی رائے میں بھی یہ قانون غیر آئینی ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خواجہ طارق رحیم سے کہا کہ یہ ذاتی رائے کیا ہوتی ہے، پلیز قانون کی بات کریں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر اس قانون کو درست مان لیں تو پوری سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں چلی جائے گی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اختیارات کی تقسیم کے قانون کے خلاف ہے، اس قانون کو درست مان لیں تو پھر پارلیمنٹ عدلیہ سے متعلق کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر از خود نوٹس میں اپیل کا حق غلط ہے تو پھر دیگر مقدمات میں نظرِ ثانی کا حق کیوں ہے؟
’’ریکوڈک کیس میں عدالتی فیصلے سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جج حلف لیتا ہے کہ آئین اور قانون کے تحت کام کروں گا، میری یا آپ کی کیا رائے ہے اس کی حیثیت نہیں، آپ نے ایک آرٹیکل نہیں بتایا کہ کیا آئین سے متصادم ہے؟ اگر پارلیمنٹ نے ہمارے حق پر وار کیا ہوتا ہم بہت سے کیسوں کی طرح اسے اٹھا لیتے، اس قانون سے کس کا حق چھینا جا سکتا ہے؟ ریکوڈک کیس میں عدالتی فیصلے سے ساڑھے 6 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، مجھے تو بطور چیف جسٹس ایسا اختیار نہیں چاہیے، قانون سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ میں خیبر پختون خوا کی طرح بارڈر پر ہوں، کیا یہ قانون عوامی مفاد میں بنا ہے یا ذاتی مفاد میں؟
جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار کو محدود کرنا چاہتے ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار آئین نے دیا، کیا پارلیمنٹ اس آئینی اختیار کو قانون سے بدل سکتی ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ می، مائی جیسے لفظ بے معنی ہیں، یہ استعمال نہ کریں، بتائیں آئین سے کیا متصادم ہے؟
درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی سے سپریم کورٹ کے سوالات جاری ہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ درخواست گزار کا کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے جس پر آپ 184/3 میں عدالت آئے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پوری دنیا میں چیف جسٹس ماسٹر آف دی روسٹر نہیں ہوتا، چیف جسٹس کے پاورز کو چھیڑنے سے جوڈیشری خطرے میں پڑ جاتی ہے، اس کا بھی جواب دیں، پاکستان میں قانون پارلیمنٹ سے آتے ہیں۔
’’مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے آئین اور قانون کے تابع ہونے کا حلف اٹھایا ہے، میں نے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے تابع ہونے کا حلف نہیں لیا، آپ کہتے ہیں کہ آئین نہیں فیصلہ پڑھیں گے، اس ملک میں مارشل لاء بھی لگے اس دوران بھی فیصلے آئے، مارشل لاء دور کے عدالتی فیصلوں کا میں تو پابند نہیں، کوئی اور ہو تو ہو۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار لینے سے آرٹیکل 9 کیسے متاثر ہو گیا؟
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ چیف جسٹس پاکستان کا اختیار متاثر ہوا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مسکراتے ہوئے ان سے کہا کہ میں نے تو آپ کو اپنا وکیل نہیں کیا، انگریزی میں کہا جاتا ہے I, Me and Myself اس کو یہاں استعمال نہ کریں، ریکوڈک کیس میں سپریم کورٹ نے ایڈوائزری دائرہ اختیار استعمال کیا تھا، اگر میں کیس مقرر نہ کروں تو پاکستان کو ساڑھے 6 ارب ڈالرز کا ڈز لگ جاتا، اگر آپ چیف جسٹس کو یہ تمام اختیارات دینا بھی چاہیں تو میں نہ لوں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ ایکٹ رہتا ہے تو اس کیس کے خلاف اپیل کون سا بینچ سنے گا؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ اپیل کے بینچ کا فیصلہ کر سکتا ہے، اگر 3 رکنی کمیٹی کہتی ہے کہ 5 رکنی بینچ اس ایکٹ کے خلاف اپیل سنے تو سن سکتا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ پھر تو اپیل کا بینچ چھوٹا ہو گا، کیا فل کورٹ کے فیصلے کا اطلاق 5 رکنی بینچ پر نہیں ہو گا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ قانون کو غیر آئینی کہنا آسان ہے، بتا دیں کون سا سیکشن کس شق سے متصادم ہے؟ بہت سے قانون مجھے بھی ذاتی طور پر پسند نہیں ہوں گے، جب میری ذاتی رائے کی حیثیت نہیں تو آپ کی بھی نہیں، ہم نے از خود نوٹس نہیں لیا، اگر پارلیمنٹ نے بہت زور دار وار کیا ہوتا تو ہم از خود نوٹس لیتے، آپ ہمارے حقوق کے دفاع میں رونما ہوئے، بہت اچھی بات ہے کہ آپ میرے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ بتائیں جو آئین کی خلاف ورزی ہوئی وہ کیا ہے؟ سپریم کورٹ کا اصل دائرہ اختیار کیا ہے؟ جہاں بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی وہ بتایا جائے؟
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا یہ پبلک انٹرسٹ میں قانون پاس ہوا یا ذاتی مفاد میں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے، کیا آپ پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ رولز بنانے کا آئینی اختیار اس عدالت کو دیا گیا ہے، سپریم کورٹ رولز آرڈر کا تمام طریقہ کار دیتا ہے، کیا سپریم کورٹ کے اختیارات کو قانون سازی سے تجاوز کیا جا سکتا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ میرے خیال میں قانون سازی پارلیمنٹ نہیں کر سکتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ نے درخواست کی کہ کیس ہے، میں کہتا ہوں میری مرضی میں نہیں لگاتا، پارلیمنٹ نے میری مرضی لی کیا غلط کیا؟ میں کیس مقرر نہیں کرتا آپ کیا کر لو گے؟ کچھ نہیں کر سکتے، احتساب اور شفافیت کا جواب اوپر والے کو بھی دینا ہے، میرا احتساب کا عمل ہونا چاہیے، میں خوش ہوں گا، آئین اللّٰہ کے نام سے شروع ہوتا ہے، سپریم کورٹ کی آزادی سے نہیں۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے اس قانون سے اندرونی آزادی کو فوکس کیا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا عدلیہ کی اندرونی آزادی کا معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے؟ جسٹس اطہر من اللّٰہ کے لیے احترام ہے مگر کیا یہ کوئی حل ہے؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ کے معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ سوالات نوٹ کریں پھر جواب دیں، خواجہ صاحب! آپ ہر سوال کا جواب دینے لگ جاتے ہیں، ہم یہاں آپس میں بحث کرنے نہیں بیٹھے، کئی قوانین مجھے بھی پسند نہیں مگر میں نے حلف اُٹھایا ہے، حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا، آپ بار بار ذاتی رائے دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التواء کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق بتائیں، خواجہ صاحب! کیا آپ کے پاس بینچ کے سوالات کا جواب ہے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر اس قانون کی توثیق ہوئی تو یہ تاریخ کی بد ترین قانون سازی ہو گی۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا 5 رکنی بینچ بیٹھ کر کہہ سکتا ہے کہ فل کورٹ کا فیصلہ غلط تھا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر 3 رکنی بینچ پر 5 رکنی بینچ کا فیصلہ لاگو ہوتا تو ججز کبھی اختلافی فیصلہ نہ دے سکتے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پورا قانون پڑھ لیں اس میں صرف دو چیزیں ہیں، چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات کو سپریم کورٹ نے تقسیم کیا ہے، چیف جسٹس کے اختیارات کو ان کے اور 2 سینئر ججز کے درمیان تقسیم کیا گیا، باہر سے کوئی آ کر مداخلت کر رہا ہے تو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کہاں ہوئی؟ اگر پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کی بادشاہت ختم کی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ اپیل کا حق دینے سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوتا ہے؟ آپ کہتے کہ قانون اچھا ہے، پارلیمنٹ کو اختیار نہیں تھا، ہم 15 غیر قانونی ججوں کو اختیار ہے؟
جسٹس منصور نے وکیل سے سوال کیا کہ کیا آپ ہمارے سوالات لکھ رہے ہیں؟ کہاں لکھ رہے ہیں؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ سارا قانون غیر قانونی ہے، پارلیمنٹ کو اختیار نہیں تھا۔
جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا دنیا میں ایسا ہے کہ عدالتیں آزادی سے کام نہ کر سکیں؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ قانون تو اختیارات کے استعمال میں شفافیت لا رہا ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل سے کہا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا آپ سے سوال نہیں کریں گے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میرا بنیادی حق ہے کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیار میں تجاوز نہ کرے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف جسٹس کی پاور تقسیم ہونے سے تو عدلیہ کی آزادی بڑھی، پوری دنیا میں فل کورٹ فیصلہ کرتا ہے، اسے عدلیہ کی آزادی اور چیف جسٹس کے اختیارات سے مت جوڑیں، یہ کیا بات ہوئی چیف جسٹس کے اختیارات کی بات آئی تو عدلیہ کی آزادی متاثر ہو گی۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ بنیادی سوال یہ ہے کہ کون یہ قانون بنانے کا اختیار رکھتا ہے، اگر پارلیمنٹ یہ قانون سازی کرتی ہے تو یہ عدلیہ میں مداخلت ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے سول کیا کہ ہم مرضی کے بینچ بنائیں کیس نہ لگائیں تو ٹھیک ہے؟ اگر ہم 17 غیر منتخب افراد بیٹھ کر رولز بنائیں تو ٹھیک ہیں؟ اگر منتخب نمائندے قانون سازی کریں تو کیا برائی ہے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر ججز مجھے سانس لینے دیں تو میں جواب دوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لگتا ہے کہ میرے سارے کولیگز میرے خلاف ہو گئے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ اس طرح کے قانون کی مثالیں کسی اور ملک کی موجود ہیں؟ یہ بتائیں کہ آپ ہائی کورٹ کیوں نہیں گئے؟ یہاں کیوں آئے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر اختیار پارلیمنٹ کو نہیں دیا جا سکتا، باقی ممالک میں چیف جسٹس نہیں بلکہ بیلٹ سے بینچ بنتا ہے، یہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ تو سپریم کورٹ کو مضبوط بناتا ہے، دوسرے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک دن درخواست آئے، اگلے روز چیف جسٹس بینچ بنا دے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ درخواست گزار کہہ رہے ہیں کہ قانون اچھا ہے مگر سپریم کورٹ کو خود بنانا چاہیے تھا۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہاکہ جب مروجہ طریقہ کار نہ اپنایا جائے تو پارلیمنٹ کا قانون بھی غلط ہو گا، غلط طریقہ کار سے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو غیر مؤثر کر سکتی ہے۔
چیف جسٹس نے وکیل کو ہدایت کی کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، صرف اپنے دلائل دیں۔
جسٹس سردار طارق نے کہا کہ پہلے وکیل کو دلائل دینے دیے جائیں پھر ہم سب سوال کر لیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کہ ججز سماعت میں اپنی رائے دیں، آپ کو پتہ ہے عوام کا کتنا پیسہ لگ رہا ہے؟ ہمیں قانون نہ سمجھائیں کہ چیف جسٹس کا تقرر کیسے ہو گا، اپنے کیس سے متعلق دلائل دیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میں دلائل میں 10 سے 15 منٹ لوں گا اگر سوالات نہ ہوں تو۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ کہتی ہے کہ 5 ججز سے کم کیس نہیں سن سکتے، اگر کل پارلیمنٹ کہے کہ فلاں کیس کو 7 ججز نہیں سنیں تو کیا ہو گا؟ امریکا میں رائٹ آف ابارشن کا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کے دلائل سے محظوظ نہیں ہو پا رہا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی صرف بیرونی نہیں بلکہ اندرونی بھی ہونی چاہیے، عدلیہ کو اندر سے مضبوط ہونا چاہیے، صرف چیف جسٹس کے پاس بینچز کی تشکیل کا اختیار ہونا تو غلط ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ باہر کے ممالک میں بیلٹ سے بینچ بنتے ہیں، وہاں چیف جسٹس کے پاس بینچ تشکیل دینے کے اختیار کا تصور تک نہیں، یہ کیا بات ہوئی چیف جسٹس اپنے پاس درخواست رکھے رہے اور بینچ نہ بنائے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل سے کہا کہ اگر آپ نے دلائل نہیں دینے تو بتا دیں، ہم سب اپنے سوالات کو فیصلے میں لکھیں گے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس اختیار نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جواب نہ دیں دلائل دیں، آپ اپنی درخواست پر دلائل نہیں دے رہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سوال تو بس یہ ہے کہ ضوابط بنانے کا اختیار کس کا ہے؟
وکیل نے جواب دیا کہ چیف جسٹس کی تعیناتی سے عدالت تشکیل ہو جاتی ہے باقی ججز بعد میں تعینات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ باتیں نہ کریں جو صاف ظاہر ہیں، یہ عوامی پیسہ ہے جو خرچ ہو رہا ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 167 دیکھیں، پارلیمنٹ نے اپنے قوانین بنائے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ کیا ہے کہ وہ دیکھیں اور یہ دیکھیں، یہ قوانین ہم نے نہیں بنائے، پارلیمنٹ کے قوانین جب ہمارے سامنے چیلنج ہوں گے تو دیکھ لیں گے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے جو غیر آئینی ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آرٹیکل 141 کے مطابق پارلیمنٹ قانون بنا سکتی ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ ہمیں بتائیں کہ کوئی ایسا قانون ہو سکتا ہے جو عدلیہ کو ریگولیٹ کرے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالتی دائرہ سماعت اور اختیارات سے متعلق براہِ راست کوئی قانون نہیں بنایا جا سکتا، پارلیمنٹ سپلیمنٹری قانون سے صرف عدلیہ کو کسی معاملے پر سفارش کر سکتی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ سپریم کورٹ ہے جس کا کام آئین کا دفاع کرنا ہے، ہر بنایا جانے والا قانون قابلِ عمل نہیں ہوتا۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ آئینی ادارہ ہے تو کیا پارلیمنٹ نہیں ہے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ قانون سے بالا ہے یہ کہاں لکھا ہے؟ اس میں دو بنیادی باتیں ہیں، اس فیصلے میں جو لکھا ہے وہ آپ کی دلیل کی نفی کر رہا ہے، ہمیں ڈرائیں مت صرف دلائل دیں، وکیل کا کام ہے کہ بتائے اس فیصلے کے فلاں صفحے پر یہ لکھا ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ اگر مجھے نہیں بولنے دیا جائے گا اور تضحیک ہو گی تو میں جا رہا ہوں۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے وکیل امتیاز صدیقی کو ہدایت کی کہ آپ عوام کا خیال کریں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میں عوام کی ہی بات کر رہا ہوں، مجھے بات ہی نہیں کرنے دی جا رہی تو میں چلا جاتا ہوں۔
’’یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کی دلیل سے اتفاق کروں اور درخواست مسترد کر دوں‘‘
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کی مرضی ہے، جانا چاہتے ہیں تو جائیں ورنہ موجودہ کیس تک محدود رہیں، نظرِ ثانی اپیل نے تو سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھا دیا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کی دلیل سے اتفاق کروں اور درخواست مسترد کر دوں۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ پہلے مجھے سن لیں تو بہتر ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے جانا ہے تو بہتر ہے ان کو سن لیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آپ نے خود ہی کہا تھا کہ بینچز دوبارہ تشکیل نہیں پا سکتے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ غلطی ہو گئی ہو گی ہم سے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ میں نے انڈس واٹر ٹریٹی کے معاملے پر سماعت کے لیے بیرونِ ملک جانا ہے، میں مختصر دلائل رکھوں گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ باقی دلائل 3 بجے آ کر سنیں گے، اٹارنی جنرل نے حساس معاملے پر ملک کی نمائندگی کرنے جانا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا کوئی ایسی شق ہے جو پارلیمنٹ کو رولز سازی سے روکتی ہے؟
جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ 184/3 سے متعلق دفعات چیلنج ہیں تو ان کو ہائی کورٹ آرٹیکل 199 کے تحت کیسے دیکھ سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ لاء کا صرف ایک ہی مطلب ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ’لاء‘ کی تعریف کے اندر آتا ہے۔
اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو جسٹس یحییٰ آفریدی نے سوال کیا کہ اگر 1980ء کے رولز نہ ہوتے تو کیا پارلیمنٹ قانون سازی کر کے رولز بنا سکتی ہے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے پوچھا کہ لفظ ’لاء‘ کی تشریح کیا ہے، وہ بتانے کی کوشش کر رہا ہوں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ کیا آئینی اختیار کے اندر یہ عدالت عام قانون سازی کے تحت کھڑی رہ سکتی ہے؟
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ لفظ قانون اور ایکٹ میں کیا فرق ہے؟ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور لاء واضح فرق ہے، آپ اس قانون کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ تو قانون کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بھی بذریعہ آئین ہی ہوتے ہیں، عدالتی فیصلوں کی بھی تو خلاف ورزی نہیں ہو سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ یہ کس کیٹیگری کا قانون ہے؟
وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ یہ غیر قانونی کیٹیگری کا قانون ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ درخواست کے ناقابلِ سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، یہ قانون ایک عہدے کے اختیارات سے متعلق ہے، اس قانون سے ادارے میں جمہوری طور پر شفافیت آئے گی، یہ درخواستیں ناقابلِ سماعت ہیں، گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے تحت عدلیہ گورنر جنرل کی منظوری سے قوانین بناتی تھی، آئینِ پاکستان 1956ء کے تحت عدلیہ کے ضوابط صدر کی منظوری سے مشروط تھے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینِ پاکستان 1973ء میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا، آئین بناتے وقت ایگزیکٹیو برانچ کو ہٹایا گیا لیکن جوڈیشل برانچ وہیں تھی۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب صدر کی منظوری سے قوانین بنتے تھے تو کیا صدر کا صوابدیدی اختیار تھا؟ کیا صدر کا صوابدیدی اختیار تھا یا ایڈوائس پر منظوری ہوتی تھی؟
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ امریکا میں سپریم کورٹ کے بنائے قوانین کی کانگریس ایکٹس سے مطابقت ضروری ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی خدشات کو دور کرتا ہے، یہ ایکٹ سپریم کورٹ میں جمہوری عمل کا تسلسل ہے اور عوام کے حقوق کی حفاظت ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہی دوسری جانب کا مدعا ہے، ایسے تو آپ تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ ایکٹ عوامی مفاد سے منسلک ہے۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ ثابت کرنا مدعی کا کام ہے کہ کیس مفادِ عامہ کا ہے یا نہیں، ہمارے پاس اضافی اختیارات نہیں بلکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت محدود اختیارات ہیں۔
کیا بنیادی حقوق یا مفادِ عامہ کے معاملے پر پہلے ہائی کورٹس نہیں جانا چاہیے تھا؟
جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ قانون سپریم کورٹ کی پاورز سے متعلق ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے معاملات کو ہائی کورٹ دیکھ سکتی ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایک اور مقدمے میں کہہ چکا ہوں کہ ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ آپ کی رائے سے متضاد ہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ فل کورٹ کے سامنے کیس ہے اس لیے مدعا رکھ رہا ہوں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ہم صحیح اور غلط کی بات نہیں کر رہے، کیس قابلِ سماعت ہونے پر بنیادی حقوق کی نفی یا خلاف ورزی نہیں دیکھ رہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ کیس کسی بھی طرح کے حقوق کی خلاف ورزی کا نہیں ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے کسی کے حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہو رہی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت کے لیے یہ واضح ہونا ہوتا ہے کہ کوئی قانون مفادِ عامہ کے خلاف ہے یا نہیں، جب ایک قانون ہے ہی مفادِ عامہ کے حق میں تو اس کو عدالت کیسے دیکھے؟
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار تھا یا نہیں یہ دیکھنا ہو گا، کیا آرٹیکل 184/3 کے اجزا کو پورا کیا یا نہیں، یہ بھی دیکھنا ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان میں بہت کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے، کیا ملک میں جو کچھ غیر آئینی ہو رہا ہے وہ 184/3 کے اندر آئے گا؟
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ آئین قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو اپنے تابع کرتا ہے، اگر اسمبلیاں خلافِ آئین قانون سازی کریں تو کیا اسے عوامی مفاد میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کسی قانون سازی کو مفادِ عامہ میں کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا، بنیادی حقوق کے نفاذ اور ان کی خلاف ورزی پر قانون کالعدم ہوتے ہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ کیا قانون سازی کا اختیار مفادِ عامہ میں نہیں ہوتا؟ قانون کی توثیق کی صورت میں کیا فل کورٹ بنا کر اپیل کا راستہ بند نہیں کر دیا گیا؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میری ساتھی جج نے اہم سوال کیا ہے، اس قانون سازی سے متاثرہ فریق کون ہو گا؟ اس ایکٹ سے کس کو نقصان پہنچ رہا ہے؟ اس ایکٹ سے تو چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات میں تقسیم ہوئی، کیا وکلاء کے حقوق متاثر ہوئے کہ ایک وکیل کی جگہ دوسرا وکیل فیس لے لے گا؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر ہے، سپریم کورٹ عوامی عدالت ہے تو اس کے طریقہ کار میں رد و بدل سے بنیادی حقوق کیسے متاثر نہیں ہوتے؟
چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ کیا اس قانون سے جرح یا انصاف کا حق لیا گیا؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ انصاف تک رسائی اور ڈیو پراسس کو پوری طرح بدلا جا رہا ہے تو کیسے حقوق متاثر نہیں ہوتے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایسی شق ہے جو پارلیمنٹ کو رولزسازی سے روکتی ہے؟ جسٹس مظاہر نے ریمارکس دیے کہ 184/3 سے متعلق دفعات چیلنج ہیں تو انکو ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے تحت کیسے دیکھ سکتی ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ لاء کا صرف ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ "لاء" کی تعریف کے اندر آتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ججز کا بنایا گیا قانون بھی قانون ہوتا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ سوال نہیں تھا میں خود کو اس بیان سے الگ کرتا ہوں، مجھے اس اسٹیٹمنٹ سے شدید تحفظات ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا فل کورٹ کا فیصلہ لاگو ہوگا یا ایکٹ آف پارلیمنٹ؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ قانون بن سکتا ہے لیکن ہرقانون ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوسکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980 میں بنے، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ رولز کس نے بنائے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا رولز 1980 سپریم کورٹ نے بنائے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ کیا ہوتی ہے؟ کیا گھربیٹھے ججز سپریم کورٹ ہوتی ہے؟ کیا بند کمرے میں بیٹھ کر 17 ججز قانون بنائیں تو وہ رولز ہیں؟ خواجہ طارق رحیم سمیت کسی بھی شہری کا کونسا حق اس ایکٹ سے چھینا گیا؟ اگرکسی بھی شہری کا کوئی حق اس ایکٹ سے لیا گیا ہے تو بتادیں، موجودہ رولز میں آئین سے تصادم دکھا دیتا ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ سول مقدمات میں 60 دن کے اندرنظرثانی دائرہوتی ہے، میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے؟ اگر میں بینچ بنانے سے انکار کردوں چھٹی پرچلا جاؤں تو مجھے کون روک سکتا ہے؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہوگئے ہیں، ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے ہیں تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کی ہمالیہ جتنی بڑی غلطی دکھا رہا ہوں جو ریکوڈک کیس میں ہوئی، امریکا کی مثالیں تو بہت دیتے ہیں تو 20 منٹ کا مطلب 20 منٹ ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دلائل مکمل کریں، ہم آپ کو تنگ نہیں کر رہے، آپ بھی خواجہ صاحب کی طرح ناراض ہوجانا کہ مجھے سنا نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کہتا ہے رولز کو آئین کی مطابقت میں ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ 2 سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کےلیے بنائی گئی ہے۔ دفعہ 2 کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا۔ تاہم اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ بالکل آپ نے فنٹاسٹک طریقے سے بتادیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہوگا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگلی پارلیمنٹ آکر سیکشن 2 کو فارغ کر کے کہتی ہے چیف جسٹس کے اختیارات واپس ہوجائیں گے جبکہ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئندہ جو ہوگا وہ جب عدالت میں آیا تو دیکھ لیں گے، ہم آپ کو مفروضوں میں نہیں ڈال سکتے۔ زیر التوا مقدمات آج 150 بڑھ گئے ہوں گے کل مزید بڑھیں گے۔ ہم اس غریب عوام سے انصاف کرنے کے لیے تنخواہیں لے رہے ہیں، آپ اپنے دلائل دیں ہم سن لیں گے۔
جسٹس منیب اختر برہم ہوگئے اور کہا کہ میں مفروضوں میں نہیں پڑ رہا ہوں، آئینی معاملے پرسوالات کر رہا ہوں، میرا سوال اب بھی قائم ہے کل پارلیمنٹ آکرچیف جسٹس کے اختیارات بحال کردے تو کیا ہوگا؟ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اگردو سینئر ممبر ایک سال کےلیے رجسٹریز میں چلے جائیں گے تو مقدمات کا کیا ہوگا؟ جس پر اٹارنی جنرل منصو ر عثمان کا کہنا تھا کہ میکنزم تو موجود ہوگا، کمیٹی اپنے ضوابط بنائے گی جن پر عملدرآمد ہوگا، سیکشن تھری سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار سے متعلق ہے، کمیٹی کے پاس کیس آئیں گے اور وہ فیصلہ کرے گی کیس کس بینچ کے سامنے فکس کرنا ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیا یہ جوڈیشل پاور نہیں ہے؟ کمیٹی کیسے فیصلہ کرے گی؟ جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ اگرایک چیف فیصلہ کرسکتا ہے کہ ازخودنوٹس لینا ہے تو کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی؟ ہم سائل کے سامنے جوابدہ ہیں جس کی نمائندہ پارلیمنٹ ہے۔ پارلیمنٹ اگرسمجھتی ہے ہمارا اندرونی طریقہ ٹھیک نہیں تو اسے ٹھیک کیوں نہیں کرسکتی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انتظامی اور جوڈیشل معاملات میں فرق کا ہی سوال بار بار ہوتا رہا ہے جس پر جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی کیا تعریف ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججز پر مشتمل ہے۔
جسٹس مظاہر علی نقوی نے استفسار کیا کہ اگر کمیٹی میں 3 میں سے 2 سمجھتے ہیں نوٹس ہونا چاہیے تو انصاف کے تمام تقاضے پورے ہوں گے؟ کیا سائل فیصلہ کرسکتا ہے کہ مقدمہ کون سنے یا کمیٹی ہی فیصلہ کرے گی؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مضحکہ خیز درخواستوں پر اعتراض عائد کر کے واپس کیا جاتا ہے تو واپس اپیل آجاتی ہے، جب اسسٹنٹ رجسٹرار مقدمہ واپس کرے اور جج بھی اپیل خارج کردے تو معاملہ ختم، تین ججز کی کمیٹی کے اختیار استعمال کرنے سے کسی کے کوئی حقوق نہیں چھن رہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پیسے ادھار والے معاملے بھی آرٹیکل 184/3 کے تحت چیلنج ہوجاتے ہیں، ہر بندہ اٹھ کر 184/3 کی درخواست دائر کردیتا ہے، اس طرح کی فضول درخواستوں سے عدالت کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ جسٹس منظور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ اگر کمیٹی سمجھتی ہے کہ 2 یا 3 رکنی بینچ کیس سنے تو سنے گا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ یہ نہیں ہے کہ ملکی قانون کوئی حل نہیں دیتے یا راستہ بند ہوجاتا ہے جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے مجبور ہو کر یہ قانون سازی کی تھی، بہت اچھا کام ہے، پارلیمنٹ نہ کرتی تو آپ کرلیتے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ 43 سال سے یہ قانون نہیں بنا جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پارلیمنٹ نے قانون سازی کی کیونکہ ہم 43 سال سے سو رہے تھے، سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنائے گئے، اس لیے پارلیمنٹ نے قانون بنایا۔ ہم نے پارلیمنٹ کو ایسا کرنے پر مجبورکیا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بات اصول کی ہورہی ہے، ایک بار اجازت دے دی جائے تو پھر کوئی حد نہیں ہوگی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیڈرل لیجسلیٹیولسٹ انٹری 55 اپیل کے حق کا سیکشن 5 کور کرتی ہے، جب یہ عدالت ایک مقدمے میں خود ہی پہلا اور آخری فورم ہے تو متاثرہ فریق کو اپیل کا حق ہونا چاہیے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ سب کا اتفاق ہے کام اچھا ہے لیکن پارلیمنٹ نہ کرے ہم کرلیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ عدالت تو اپنی مرضی پر ہی چل رہی ہے، قانون سازی کے بعد بھی اختیار تو عدالت کے پاس ہی رکھا گیا ہے۔ پھر یہ قانون سازی کرنے کا مقصد کیا تھا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام عدالتی سوالات پر تحریری جواب بھی دوں گا۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ بننے سے پہلے اس کو معطل کردیا گیا، ہم تسلیم تو کر رہے تھے کہ یہ ایکٹ بن رہا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ اجازت نہ دے تو فل کورٹ کبھی بیٹھ ہی نہیں سکتی۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ اسٹیل ملز فائدے میں تھی، سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اب خسارے میں ہے، یہی ریکوڈک کیس میں بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ یہ ججزکی سوچ تھی اور اس کی درستی نہیں ہوئی، ہاں ہم سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں بھی غلطی ہوئی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظرثانی کیس بھی انہی ججز نے سنا۔
انہو ں نے یہ بھی کہا کہ ہماری انا بہت بڑی بن گئی ہے، ہم نے مارشل لاء کی توثیق کی، مان لیں کہ ججزسے غلطیاں ہوتی ہیں، ہماری انا اتنی بڑی نہیں ہونی چاہیے کہ غلطی نہ مانیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ہر چیزمیں ازخود نوٹس لیتے ہیں تو اپنے بارے میں قانون سازی پر کیوں نہیں لے سکتے تھے؟ پتا نہیں خواجہ صاحب کو کیا مسئلہ ہوا کہ انہوں نے درخواست ڈال دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ کے سیکشن سات سے متعلق پہلے ہی عدالت کو بتا چکا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ دفتر سے معلوم کریں اس ایکٹ کے آنے کے بعد کتنی اپیلیں دائر ہوئیں؟ ایکٹ تو معطل ہو گیا تھا تو درخواستیں کیسے آتیں؟
جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا مارشل لاء کی توثیق کے بعد عوام نے اپیلیں دائر کیں؟ ہمارا بھی احتساب ہونا چاہیے، شفافیت آ رہی ہے تو آنے دیں اسے چھپا کیوں رہے ہیں؟
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا میں 1980 کے رولز کا پابند ہوں؟ رولز ہمیں گائیڈ کرنے کےلیے ہیں محدود کرنے کےلیے نہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ہم سپریم کورٹ رولز کے پابند نہیں، کیا ہم پارلیمنٹ کے ہمارے ہی بارے میں پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے پابند ہیں؟ جب رولز کے پابند نہیں تو ہم ایکٹ کے پابند کیوں ہیں؟
چیف جسٹس نے عزیز بھنڈاری سے استفسار کیا کہ بھنڈاری صاحب آپ کس کے وکیل ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں پاکستان تحریک انصاف کا وکیل ہوں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو سنیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ کےلیے تمام ججز کی طرف سے نیک تمنائیں، آپ بڑے کیس کا دفاع کرنے جارہے ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ فرض کیجیے اس ایکٹ کو ہم کالعدم کردیں توبات ختم، اگر اس قانون کو برقرار رکھتے ہیں تو اس دوران جو فیصلے ہوئے انکا کیا ہوگا؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پاسٹ اینڈ کلوز ٹرانزیکشن کا اصول لاگو ہو سکتا ہے جس پر جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ اس دوران جن کیسز کا فیصلہ ہوا ان کا کیا ہو گا؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت پہلے سے ہوئے کیسز کو تحفظ دے سکتی ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیس میں مختصر وقفہ کر رہے ہیں۔
وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے خواجہ طارق سے استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہے؟ جس پر وکیل خواجہ طارق نے کہا کہ دو دن چاہیے ہوں گے۔ اسکے بعد چیف جسٹس نے وکیل عزیز بھنڈاری سے یہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں آدھا گھنٹہ لوں گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج نہیں لگتا کہ سماعت مکمل ہو، میں نے اپنے دونوں سینئیر ججز سے مشاورت کی، کیا آپ راضی ہیں کہ کیس کو پارٹ ہرڈ کر رہے ہیں؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اگر آپ کو آپس میں ہی طریقہ کار طے کرنا ہے تو یہی تو میرا کیس ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپس میں مشاورت کرلیں گے کہ بینچ کیسے تشکیل دینے ہیں؟ سماعت کی تاریخ بھی ہم آپس میں مشاورت سے طے کرلیں گے۔
خواجہ طارق رحیم جس طریقے سے قانون منظور کیا گیا عدالت دیکھ لے تو میرا آدھا کام ہوجائے گا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ اگر آپ آرٹیکل 69 پڑھ لیں تو آپ کو بھی جواب مل جائے گا۔
سپریم کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پربینچز بنانے سے متعلق حکم امتناع ختم کردیا۔ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ درخواست منظور کر کے نمٹا دی گئی۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق چیف جسٹس دو سینئر ججز سے مشاورت کر کے بینچ تشکیل دیں گے۔
آج کی سماعت کا تحریری حکمہ نامہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے بتایا انہیں سندھ طاس معاہدے سے متعلق مقدمے کےلیے ویانا جانا ہے، درخواست گزاروں اور اٹارنی جنرل کو بینچ کے سوالات کے جواب دینا ہیں۔
حکم نامے کے مطابق چیف جسٹس نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرل کے ذریعے درپیش چیلنج پراپنے دو سینئیر ججز سے مشاورت کریں گے۔
اس میں کہا گیا کہ جسٹس سردار طارق اور جسٹس اعجازالاحسن نے مانا کہ ہم اپنے طور پر پریکٹس اینڈ پروسیجر طے کریں گے۔
حکم نامہ میں کہا گیا کہ اگلی سماعت تک تحریری دلائل جمع کروادیں۔ عدالت کے سامنے فل کورٹ تشکیل کی درخواست کی گئی تھی، درخواست گزاروں نے فل کورٹ پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سپریم کورٹ نے درخواستوں پر فل کورٹ تشکیل دیا ہے۔
چیف جسٹس نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر 13 اپریل کو عمل درآمد روکا تھا۔
پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ مفادِ عامہ کے مقدمات میں چیف جسٹس کے اختیارات کی تقسیم سے متعلق ہے۔
پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے مطابق از خود نوٹس کافیصلہ چیف جسٹس اور 2 سینئر ججز کی کمیٹی کر سکے گی۔
پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ سے آرٹیکل 184 تین کے کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا تھا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےاس ایکٹ کے فیصلے تک اپریل سے مقدمات کی سماعت سے معذرت کی تھی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ پر اپنا مؤقف ملٹری کورٹس کیس میں نوٹ کی صورت بھی دیا تھا۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ گزشتہ روز پی ٹی وی کو فل کورٹ کی براہِ راست نشریات کی ہدایات جاری کی گئی تھیں۔
اس حوالے سے پاکستان ٹیلی ویژن کی ٹیم نے سپریم کورٹ کا دورہ کر کے جائزہ لیا تھا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں سماعت سے قبل چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ اجلاس ہوا۔
فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام ججز نے شرکت کی۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس کی فل کورٹ سماعت کی عدالتی کارروائی براہِ راست نشر کرنے کے معاملے پر اجلاس میں اتفاق ہو گیا۔
جس کے بعد عدالتی کارروائی براہِ راست دکھانے کے لیے 5 کیمرے کمرۂ عدالت نمبر 1 میں جبکہ 4 کیمرے وزیٹرز گیلری میں لگائے گئے۔
1 کیمرا ججز ڈائس کے سامنے وکلاء کے روسٹرم کے لیے نصب کیا گیا۔
اجلاس سے قبل چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پہلے دن فل کورٹ میٹنگ کا 4 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا تھا۔
زیرِ التواء مقدمات اور ترجیحی بنیادوں پر سماعت کے لیے مقدمات کا انتخاب ایجنڈے میں شامل تھا۔
عوامی مفاد کے مقدمات کی کارروائی ٹیلی کاسٹ کرنے کا معاملہ بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔
مقدمات کی مؤثر سماعت کے لیے رہنما اصول مرتب کرنے پر مشاورت اس ایجنڈے کا حصہ تھی۔